قرآن میں حق مہر کی مقدار

غیر شرعی طریقوں سے شادی میں رکاوٹ کھڑی کر نے کا حکم
اس شخص کو جو مختلف حرکتوں اور حق مہر میں غلو کے ذریعہ شادی میں رکاوٹ ڈالتا ہے، حد لگائی جائے گی اس لیے کہ وہ ایسا فساد برپا کرنے کا سبب بنتا ہے جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرمان میں اشارہ کیا ہے:
«إلا تفعلوا تكن فتنة فى الأرض و فساد كبيرة
[حسن۔ سنن الترمذي، رقم الحديث 1084]
”اگر تم (اس شخص سے جس کے دین و اخلاق کو تم پسند کرتے ہو، اپنی بیٹی بہن وغیرہ کی) شادی نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ کھڑا ہو گا اور بہت زیادہ فساد پھیلے گا۔“ [محمد ناصر الدين الالباني رحمہ اللہ]
——————

حق مہر میں غلو کرنے کا حکم
سوال: حق مہر میں غلو کرنے کے متعلق دین اسلام کاکیا مؤقف ہے؟
جواب: شریعت نے نکاح کرنے کی ترغیب دی ہے اور اس پر معمولی خرچ کرنے کا حکم دیا ہے، اور عورتوں کے حق مہر اور ولیموں کی محفلیں منعقد کرنے میں بہت زیادہ خرچ اٹھانے سے منع کیا ہے۔ یہ مسئلہ معروف و مشہور ہے، علماء ہمیشہ اپنی تصنیفات اور کتب میں اس کی نشر و اشاعت کرتے رہے ہیں، اور منبر پر اس مسئلہ پر خطبہ ارشاد فرماتے رہے ہیں۔
[عبدالله بن عبدالرحمن الجبرين حفظ اللہ]
——————

قرآن میں حق مہر کی مقدار
سوال: حق مہر کے متعلق قرآن کاکیا حکم ہے؟
جواب: حق مہر محدود نہیں ہے، نہ تو کم از کم حق مہر کی کوئی حد ہے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی خواہش رکھنے والے ایک شخص کو کہا:
«التمس ولو خاتما من حديد»
[صحيح البخاري، رقم الحديث 4842]
”(حق مہر کے لیے) لوہے کی کوئی انگوٹی ہی لے آؤ۔“
اور نہ ہی ا کثر حق مہر کی کوئی حد ہے:
«وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا» [4-النساء: 20]
”اور اگر تم کسی بیوی کی جگہ اور بیوی بدل کر لانے کا ارادہ کرو اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو، کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح گناہ کر کے لو گے؟“
ہماری دلیل اور گواہی آیت کے اس ٹکڑے میں ہے:
«وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنْطَارًا» [4-النساء: 20]
”اور تم ان میں سے کسی کو ایک خزانہ دے چکے ہو۔“
لیکن زمانہ جاہلیت جیسی حرص اور لالچ اب بھی مسلمانوں کے اندر موجود ہے، لہٰذا آدمی پر واجب یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی کسی ایسے شخص سے کر دے جو اپنے مال میں سے کچھ (اس لڑکی کو بطور حق مہر) عطا کرے، اور اگر وہ اس کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی وسعت کے مطابق ہی پابند بناتے ہیں۔ میں نہیں کہوں گا کہ تم اپنے مال سے کچھ دو جبکہ تم کسی چیز کے مالک نہیں ہو، لیکن تمہارے ساتھ تمھاری استطاعت کی حدود میں رہتے ہوئے نرمی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ واللہ المستعان [مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله]
——————

عقد نکاح میں ولایت کاحکم

سوال: ایک عورت نے شادی کی، عقد نکاح میں اس کا ماموں اس کا ولی تھا، وہ اس عقد کی صحت کے متعلق سوال کرتی ہے۔
جواب: یہ نکاح ولی کے نہ ہونے کی وجہ سے صحیح نہیں ہے، کیونکہ ولی کا ہونا نکاح کی شرطوں میں سے ایک شرط ہے، رہا ماموں تو وہ نکاح میں ولی نہیں بن سکتا۔ اور جب ولی نہ ہو تو نکاح فاسد ہوتا ہے، جمہور اہل علم کا یہی قول ہے اور (امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے) مذہب میں بھی مشہور قول یہی ہے۔
اہل علم نے اپنے اس قول کی دلیل اس حدیث سے لی ہے جو ابو موسی اشعری نے روایت کی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لانکاح إلا بولی» [صحيح۔ سنن أبى داود 2085 سنن الترمذي، رقم الحديث 1101]
’’ ولی کے بغیر نکاح (صحیح) نہیں ہے“
اس کو احمد اور اصحاب سنن نے روایت کیا ہے اور ابن مدینی نے اس کو صحیح کہا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«أيما امرأة نكحت نفسها بغير إذن وليها فنكا حها باطل، باطل، باطل، فإن دخل بها، فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا فالسلطان ولي من لا ولي له»
[صحيح سنن أبى داود، رقم الحديث 2083]
”جو عورت اپنے ولی کی ا جازت کے بغیر خود اپنا نکاح کر لے تو اس کا نکاح باطل ہے، باطل ہے، باطل ہے۔ پس اگر مرد نے (ولی کی ا جازت کے بغیر کیے جانے والے نکاح کے ذریعہ) اس عورت سے دخول کیا تو مرد کے اس کی شرمگاہ کو حلال کرنے کی وجہ سے عورت حق مہر کی مستحق ہوگی، اور اگر ان کا ولی کے متعلق اختلاف ہو جائے تو جس کا کوئی ولی نہ ہو بادشاہ اس کا ولی ہے۔“
اس کو احمد، ابوداود اور ترمذی نے روایت کیا ہے اور ترمذی نے اس کو صحیح کہا ہے۔ اگر ان میں سے کوئی یہ دعوی کرے کہ اس سے دھوکا ہوا ہے تو اس کی سماعت کرنے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر ان دونوں میں سے ہر ایک (ولی کے بغیر کیے گئے) نکاح کو باقی رکھنا چاہتا ہو تو (ولی کی اجازت سے) ان کانیا نکاح کیا جائے گا اور عورت کو عدت گزارنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس عورت کے حرم میں اسی مرد کا پانی داخل ہوا ہے۔ اور اگر وہ اس نکاح کو جاری نہیں رکھنا چاہتے تو ان کے درمیان جدائی کرادی جائے گی، اور مرد پر لازم ہوگا کہ وہ اس عورت کو طلاق دے، کیونکہ فاسد نکاح طلاق کا محتاج ہوتا ہے، پھر اگر مرد طلاق دینے سے انکار کرے تو قاضی اس نکا ح کو فسخ کر دے گا۔ (محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ)
——————

سوال: اس عورت کے متعلق کیا حکم ہے جو ایک شہر میں تھی اور اس کا ولی کسی دوسرے شہر میں، اس عورت نے ولی سے رابطہ ممکن ہونے کے باوجود اس کی ا جازت کے بغیر نکاح کر لیا۔ کیا اس کا ایسے نکاح کرنا درست ہے؟
جواب: یہ نکاح باطل ہے، اس لیے کہ سنن اربعہ میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ جلد کی روایت موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لانكا ح إلا بولي» [صحيح سنن أبى داود، رقم الحديث 2085] ولی کے بغیر نکاح (صحیح) نہیں ہے۔“
لیکن جب عورت کسی شخص سے جھوٹ بولتے ہوئے کہے کہ وہ نہیں جانتی کہ اس کا ولی کہاں ہے؟ تو وہ شخص اس سے شادی کر لے، پھر بعد میں یہ عورت اس کو (صحیح) خبر دے دے تو یہ عقد بظاہر صحیح اور درست ہے۔ اور یہ صحیح صورت حال واضح ہونے تک عقد شبہہ ہوگا۔ جب صورت حال واضح ہو جائے تو مذکورہ شخص کو تجدید عقد کیے بغیر اس عورت کے پاس آنا جائز نہیں ہوگا، الا یہ کہ ولی آ جائے اور نکا ح سے روک دے تو عورت اس مسئلہ کو قاضی کے پاس لے جائے گی اور قاضی اس کا عقد کرے گا۔ اگر اس نکا ح کے نتیجہ میں اولاد بھی ہو تو اولاد اپنے باپ کے تابع ہو گی، کیونکہ یہ عقد شبہ ہے۔ [مقبل بن ہادي الوادعی رحمہ اللہ]
——————

عورت كے ليے اپنے ولی كی ا جازت كے بغير شادی كرنا جائز نہيں ہے
سوال: کیا کنواری لڑکی کے لیے اپنے باپ کی ا جازت کے بغیر شادی کرنا جائز ہے؟ اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا بابر کی آڑ میں ٹیلی فون پر مکالمات کرنے اور ایک دوسرے کو ”میسج““ (SMS) کرنے کا شرعی حکم کیا ہے؟
جواب: عورت کے لیے اپنے باپ کی اجازت کے بغیر شادی کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس کا ولی ہے اور وہ اس سے بہتر نظر و فکر کا مالک ہے، لیکن باپ کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو نیک اور ہمسر آدمی کے ساتھ شادی کرنے سے روکے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
«إذا أتا كم من ترضون دينه و أمانته فزوجوه، إلا تفعلوا تكن فتنة فى الأرض وفساد كبيرة» [حسن۔ سنن الترمذي، رقم الحديث 1084]
”جب ایسا شخص تمہیں پیغام نکاح دے جس کا دین و امانت تم کو پسند ہے تو اس سے نکاح کر دو، اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنا بر پا ہو گا اور بڑا فساد پھیلے گا۔“
لڑکی کے لیے بھی ایسے شخص سے شادی کرنے کے لیے اصرار نہیں کرنا چاہیے جس کو اس کا باپ پسند نہ کرتا ہو، کیونکہ اس کا باپ اس معاملے میں اس سے زیادہ گہری نظر رکھتا ہے، اور اس لیے بھی کہ یہ نہیں جانتی کہ شاید اس کی بہتری اس شخص سے شادی نہ کرنے میں ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَعَسَىٰ أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ وَعَسَىٰ أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ» [2-البقرة: 216]
”اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمہارے لیے بری ہو، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔“
اور اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ سے دعا کرتی رہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس کو نیک خاوند عطا کرے۔ بہرحال کسی لڑکی کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے اور کسی لڑکے کے ساتھ مکالمات اور پیغامات کا تبادلہ ہو، کیونکہ اس طرح نوجوان لڑکے اس لڑکی کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے لگیں گے اور اس کا انجام قابل ستائش نہیں ہوگا۔ نیز ایسا کرنا لڑکی کو بےحیا بنا دے گا، لہٰذا اس طرح کے کاموں سے انتہائی زیادہ پرہیز کرنا چاہیے۔ [صالح بن فوزان بن عبدالله ]
——————

بیوی کے حقوق و فرائض
سوال: بیوی کے حقوق و فرائض کیا ہیں؟
جواب: شریعت میں بیوی کے حقوق و فرائض کی تعین نہیں ہے، بلکہ ان کے لیے عرف عام کی طرف رجوع کیا جائے گا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان تو
صرف یہ ہے:
«وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [4-النساء: 19]
”ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو“
نیز ارشاد ہے:
«وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [2-البقرة: 228]
”اور معروف کے مطابق ان (عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے۔“
عرف عام میں بیوی کے جو حقوق ہیں وہی مرد پر واجب ہوں گے، اور جو حقوق عرف عام سے ثابت نہیں ہیں وہ مرد پر واجب نہیں ہوں گے، الا یہ کہ عرف عام شریعت کے مخالف ہو کیونکہ عرف عام میں بھی تریعتت معتبر ہو گی، مثلاً اگر عرف عام میں عورت کا یہ حق ہو کہ مرد اپنے گھر والوں کو نماز اور حسن خلق کا حکم نہیں دے سکتا تو یہ عرف باطل ہوگا، لیکن جب عرف عام شریعت کے مخالف نہ ہو تو مذکورہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ نے حقوق کے معاملے کو عرف عام کی طرف ہی رد کیا ہے۔
لہٰذا گھروں کے سربراہوں پر واجب ہے کہ اللہ نے ان کو جن کا ذمہ دار بنایا ہے وہ ان کے معاملے میں اللہ سے ڈریں اور ان کو آزاد نہ چھوڑ دیں۔ ہم
کئی آدمیوں کو دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی مذکر و مؤنث اولاد کو آزاد چھوڑ دیتے ہیں، وہ ان کے متعلق دریافت تک نہیں کرتے کہ کون گھر میں موجود ہے اور کون موجود نہیں ہے، اور نہ ہی وہ اپنی اولاد کے ساتھ مجلس کرتے ہیں۔ ایک آدمی کو اپنے بیوی بچوں سے میل ملاقات کے بغیر مہینہ مہینہ اور دو دو مہینے گزر جاتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔ بلکہ ہم اپنے بھائیوں کو نصحیت کرتے ہیں کہ وہ گھرانے کی شیرازہ بندی اور اس کے اتحاد و اجتماع کے حریص بن جائیں اور اس کے لیے وہ صبح و شام کا کھانا ا کٹھے کھایا کریں۔ لیکن عورت اجنبی مردوں کے ساتھ میل ملاقات نہ رکھے۔ اب لوگوں کے ہاں یہ ایک منکر خلاف شریعت رواج چل پڑا ہے کہ غیر محرم مرد اور عورتیں اجتماعی طور پر مل جل کر کھانا کھاتے ہیں، ہم اللہ سے سب کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں۔ [محمد بن صالح الثعیميں رحمہ اللہ]
——————

ذمي (نصراني)عورت كے حقوق

سوال: مسلمان بیوی کے مقابلے میں نصرانیہ بیوی کے کیا حقوق ہیں؟
جواب: لباس، نان و نفقہ، رہائش، حسن معاشرت، عدم ظلم اور اس کے ساتھ دوسری بیوی ہونے کی صورت میں عدل کرنا جیسے حقوق میں مسلمان اور نصرانیہ دونوں عورتیں یکساں ہیں۔ و باللہ التوفیق (سعودی فتوی کمیٹی)
——————

بیوی کے مالکانہ حقوق
سوال: میں نے اپنی وراثت اپنی ماں کو دے دی ہے تو کیا میرے خاوند کو مجھ پر اعتراض کرنے کا حق ہے؟ نیز کیا خاوند کو بیوی کے اموال اور تنخواہ میں تصرف کرنے کا حق حاصل ہے؟
جواب: بیوی اپنے مال کی مالک ہے اور اس کو اپنے مال میں تصرف کا حق ہے، وہ اس میں سے ہد یہ دے، صدقہ کرے، اپنے قرض دار کو قرضہ معاف کر دے اور اپنے قریبی یا دور کے رشتہ دار میں سے جس کے لیے چاہے قرض اور وراثت جیسے اپنے حق سے دست بردار ہو جائے، جب وہ عقلمند اور سمجھدار ہو اس کے خاوند کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ اور اس کا خاوند اس کی رضا کے بغیر اس کے مال میں تصرف کرنے کا بھی حق نہیں رکھتا۔ لیکن جب بیوی کوئی ایسا شغل اختیار کرے جس کی وجہ سے وہ اپنے خاوند کے کسی حق کو ادا کرنے سے قاصر ہو تو خاوند اس کو اس سے روک سکتا ہے۔ زوجین کا بیوی کی تنخواہ کو یوں تقسیم کرنا جائز ہے کہ خاوند اس سے بیوی کو نوکری کرنے کی اجازت دینے اور اس کو لانے اور لے جانے کے عوض میں اس کی تنخواہ سے کچھ لے سکتا ہے۔ [عبدالله بن عبد الرحمن الجبرين]
——————

بیوی کا خاوند کے مال سے حج کرنا
سوال: کیا میری فقیرہ بیوی کے لیے میرے خاص مال سے حج کرنا جائز ہے یا نہیں، جبکہ وہ اپنا فریضہ حج ادا کر چکی ہے؟
جواب: ہاں یہ جائز ہے، جبکہ اس نے اپنا فرض حج ادا کر لیا ہو، اور اللہ تعالیٰ تمہارے اس پر احسان کرنے کی وجہ سے تمہیں بہتر بدلہ عطا کرے گا۔ [سعودی فتوي كميٹی]
——————

خاوند کو بتائے بغیر اس کے مال سے خرچ کرنے کا حکم
سوال: میرا خاوند مجھے اور میرے بیٹوں کو خرچ نہیں دیتا، اور ہم بعض اوقات اس کو بتائے بغیر اس کا کچھ مال لے لیتے ہیں تو کیا ہمیں اس پر گناہ ہو گا؟
جواب: عورت کے لیے اپنے لیے اور اپنی اس اولاد کے لیے جو ابھی کام کا ج کر کے اپنی ضروریات زندگی فراہم کرنے سے قاصر ہے، معروف طریقے سے اپنے خاوند کا مال اسے بتائے بغیر لینا جائز ہے، بشرطیکہ وہ اس میں اسراف اور فضول خرچی کی مرتکب نہ ہو، اور ایسا کرنا اس وقت جائز ہے۔ جب اس کا خاوند اس کی جائز ضروریات پوری نہ کرتا ہو۔
دلیل اس کی بخاری و مسلم کی وہ روایت ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! بے شک ابوسفیان (میرا خاوند) میری اور میرے بیٹوں کی ضروریات کو پور ا کرنے کے لیے مال نہیں دیتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«خذي من ماله بالمعروف ما يكفياك ويكفي بنيك»
[صحيح مسلم، رقم الحديث 17141]
”تو اس کے مال سے اتنا لے لیا کر جتنا تیری اور تیرے بیٹوں کی ضروریات کے لیے کافی ہو۔“
[عبد العزيز بن عبدالله بن باز رحمہ اللہ]
——————

نکا ح میں جائز شرائط
سوال: عورت کے لیے پیغام نکا ح بھیجنے والے پر کون سی شرائط عائد کرنا مشروع ہے؟ کیا اس کے لیے جائز ہے کہ وہ شرط لگائے کہ وہ اس کو الگ گھر بنا کر دے تاکہ وہ اپنے خاوند کے بھائیوں کے ساتھ اختلاط سے بچ سکے اور اپنی اولاد کی اسلامی تربیت کرتے ہوئے ان کو بگاڑ سے بچا سکے؟
جواب: اگر تو اس کا اپنے خاوند کے قریبیوں سے دور رہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر وہ ان کے ساتھ رہے گی تو ان سے (ناجائز) اختلاط کا شکار ہو جائے گی تو اس کے الگ گھر کی شرط لگانے میں کوئی حرج نہیں، اور اگر یہ مقصد نہیں ہے تو وہ یاد رکھے کہ اللہ رب العزت اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:
«أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُجْدِكُمْ» [64-الطلاق: 6]
”انھیں وہاں سے رہائش دو جہاں تم رہتے ہو، اپنی طاقت کے مطابق۔“
لہٰذا اس کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ خاوند کو ایسا الگ گھر بنانے کی تکلیف دے جس کی وہ طاقت نہ رکھتا ہو، اور عورتوں میں سے بہتر عورتیں وہ ہیں جو کم خرچ کرنے والی ہوں۔ لہٰذا اس کو چاہے کہ وہ اپنے خاوند سے وہی مطالبے کرے جن کی وہ استطاعت رکھتا ہو۔
ام سلیم، کیا کہنے ام سلیم کے؟ جب ابوطلحہ نے (جو ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) ان سے شادی کرنے کی خواہش کی تو ام سلیم نے کہا: اے ابو طلحہ ! تیرے جیسے ذی وقار اور مالدار سردار کے پیغام نکاح کو رد نہیں کیا جاتا، لیکن رکاوٹ یہ ہے کہ تم کافر ہو اور میں مسلمان ہوں اور مسلمان عورت کا کافر آدمی سے نکا ح جائز نہیں ہے۔ ابوطلہ نے کہا: میں اس معاملے میں غور و فکر کروں گا۔ پھر ابوطلہ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کر لیا اور ام سلیم سے شادی کر لی اور ابو طلحہ کے اسلام قبول کرنے کو ہی ام سلیم کا حق مہر مقرر کیا گیا۔ اس وقت یہ بات مشہور تھی کہ مسلمانوں میں ام سلیم رضی اللہ عنہا سے بہتر کسی کا حق مہر نہیں ہے۔ لہٰذا عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے خاوند کی معاون و مددگار بن کر رہے جیسا کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت کیا کرتی تھی۔
رہی (مناسب اور لائق) شرطیں تو وہ اس پر شرط لگائے کہ وہ اس کو رہائش فراہم کرے، اور مفید علم کے حصول میں اس کی مدد کرے اور گھر میں ایسے آلات لہو و لعب اور آلات موسیقی نہ لائے جو اس کے اور اس کی اولاد کے بگاڑ کا سبب بنیں۔ ان تمام چیزوں سے قطع نظر اس کی اولین ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ وہ نیک آدمی کو اپنے نکا ح کے لیے منتخب کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک فاسق و فاجر آدمی جس سے وہ نکاح کرنا چاہتی ہے، بوقت نکاح اس کی شرطیں مان لے اور بعد میں ان کو پور انہ کرے۔ [مقبل بن ها دي الوادعي رحمه الله]
——————

تعدد ازواج عنوست (کنواری لڑکی کا بغیر شادی کے بوڑھی ہونا) کا بہترین حل
سوال: کیا یہ خیال کرنا صحیح ہے کہ عنوست (کنواری لڑکی کا بن شادی کے پڑی رہنا جو ہمارے معاشرے میں عام ہے) کا بہترین حل یہ ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کی جائیں؟
سوال: ہاں ! بلاشبہ عنوست کہ مسئلہ تعدد ازواج کے اسباب میں سے ہے، عورت کا کسی آدمی سے شادی کرنا جو اس کی کفالت کرے اور اس کی عزت و عصمت کی حفاظت کرے اور عورت کو اس آدمی سے اولاد بھی ہے تو بھلے وہ چھوتی جگہ پر ہو اس کے لیے بن شادی کے، شادی کے فوائد سے محروم اور فتنوں کی آما جگاہ بن کر رہنے سے کہیں بہتر ہے۔ اور یہ مشروعیت تعدد ازواج کی حکمتوں میں سے ایک بہت بڑی حکمت ہے۔ یہ مرد کی نسبت عورت کے حق میں زیادہ بہتر ہے، اور عورت کے لیے سوکناپے کی تکلیف و مشقت کو برداشت کرنا شادی کی یقنی مصلحتوں سے محروم رہنے سے بہتر اور افضل ہے۔ اور عقلمند ہمیشہ مصالح اور مفاسد، منافع اور مضرتوں کا تقابل کیا کرتا ہے اور جنسی چیز راجح ہوتی ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے، لہٰذا اس اصول کے تحت شادی کے فوائد تعدد ازواج کی مضرت سے راجح ہیں۔ واللہ اعلم
[مقبل بن ہادي الودعي رحمہ اللہ]
——————

بیوی کا اپنے خاوند کی خدمت بجا لانا
سوال: کیا بیوی کا اس کھانے کی تیاری پر اجرت لینا جائز ہے جو وہ اپنے لیے اور خاوند کے لیے تیار کرتی ہے؟
جواب: عورت پر واجب ہے کہ وہ اس مسئلہ میں بغیر اجرت کے اپنے گھر میں کام کرتے ہوئے ملک کے مروجہ طریقے پر عمل کرے، کیونکہ ملک کا رواج اور عرف شروط کے درجہ میں ہے، اور ہمارے ملک میں یہی عادت اور رواج ہے کہ عورت ہی کھانا پکانے کا کام اور دیگر گھر کے کام کاج کرتی ہے، لہٰذا یہ اس پر واجب ہے۔ [سعودي فتوي كميٹي]
——————

خاوند کی بدسلوکی کی وجہ سے بیوی کا خدمت سے رک جانا
سوال: کیا عورت کے لیے اپنے خاوند کی خدمت اور اس کے گھر کے کام کاج سے رکنا جائز ہے جبکہ اس کا خاوند اس سے بدسلوکی کرتا ہو؟
جواب: خاوند کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی سے بدسلوکی کرے، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [النساء: 19]
”ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔“
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
«وإن لزوجك عليك حقا» [صحيح البخاري، رقم الحديث 1873 صحيح مسلم، رقم الحديث 1159]
”بلاشبہ تیری بیوی کا تم پر حق ہے۔“
جب خاوند اپنی بیوی سے بدسلوکی کرے تو بیوی کو چاہیے کہ وہ اس کے مقابلے میں صبر کرے اور اس کے ذمہ جو خاوند کا وقت ہے اس کو ادا کرتی رہے، تاکہ اس کو اس کا اجر ملے، اور شاید اس کے اس عمل کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے خاوند کو ہدایت عطا فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ» [41-فصلت: 34]
”اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی، (برائی کو) اس (طریقے) کے ساتھ ہٹا جو سب سے اچھا ہے تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہو گا جیسے وہ دلی دوست ہے۔“
[صالح بن فوزان بن عبدالله ]
——————

بیوی کا اپنے خاوند کے والدین کے ساتھ رہنا
سوال: میری ایک بیوی ہے جو میرے والدین کے ساتھ رہنے پر آمادہ نہیں ہوتی، حالانکہ ان کے درمیان کوئی ایسی چیز بھی پیش نہیں آئی جو ان کی دوری کا باعث بن سکے، کیا میری بیوی کا ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع دیں۔
جواب: بیوی کے لائق یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند کے گھر والوں یعنی اس کی ماں، باپ، بھائی اور قریبیوں کے ساتھ نرمی کرے اور ان کے ساتھ قابل ستائیش زندگی بسر کرے، اس میں اس کی اور اس کے خاوند کی سعادت ہے۔ اور بعض دہ چیزیں جن کو وہ ناپسند کرتی ہے ان پر وہ صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھے۔ جب اس کو اس قسم کی کسی ناگوار بات کاسامنا ہو تو وہ صبر کو لازم پکڑے اور اپنے خاوند کے خاندان اور گھر والوں کو ناراض نہ کرے، کیونکہ اس بار بار کی مخالفت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غلط فہمی اس کے خاوند کو طلاق دینے پر آمادہ کر سکتی ہے، اور اس طرح شادی کا بندھن ٹوٹ جائے گا۔ ظاہر ہے ان کے بچے بھی ہوں گے تو ذرا تصور کیجیے کہ ان کی جدائی کے بعد بچوں کا کیا حال ہوگا؟ بلاشبہ وہ اپنی والدہ کے اپنے خاوند اور ان کے والد سے جدا ہونے کے بعد اچھی حالت میں نہیں ہوں گے، لہٰذا یہ عورت اپنا محاسبہ کرے اور رشد و بھلائی کی طرف لوٹ آئے۔ مگر جب اختلاف حد سے بڑھ جائے تو اس کے فیصلے کے لیے قاضی کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ کیا قاضی اس عورت کو مجبور کرے گا کہ وہ خاوند کے گھر والوں کے ساتھ ہی زندگی بسر کرے یا وہ ایسا نہیں کرے؟ یا اس معاملہ میں کوئی اور تفصیل ہو تو قاضی ہی اس کی وضاحت کرے گا، بہرحال میں عمومی طور پر اس عورت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اوپر اجر کرے تاکہ وہ زندگی کے معاملات میں اپنے خاوند کی معاون بن سکے۔ [محمد بن صالح العثيمين رحمه الله]
——————

حجرہ عروسی میں عورت کا مستقل قیام
سوال: کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے مخصوص کمرے میں ہی سویا کرے جبکہ وہ اپنے خاوند کو شرعی حق دینے سے محروم نہ کرے؟
جواب: جب خاوند ایسا کرنے پر راضی ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ اس کا وہ مخصوص کمرہ پرامن ہو۔ اور اگر اس کا خاوند ایسا کرنے پر راضی نہ ہو تو اس کو اس علیحدگی کا حق نہیں ہے، کیونکہ یہ عرف کے خلاف ہے۔ ہاں ایک صورت میں اس کی ا جازت ہے جب بیوی عقد نکاح کے وقت شرط لگا لے کہ وہ کسی وجہ سے یہ پسند نہیں کرتی کہ کوئی اس کے ساتھ کمرے میں رات گزارے، کیونکہ مسلمان اپنی شرطوں کو پورا کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔ [محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ]
——————

اس تحریر کو اب تک 29 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply