مردوں کا ٹیلی ویژن پر اداکار عورتوں کو دیکھنے کا حکم

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

سوال : مردوں کے لیے اداکار اور گلوکار عورتوں کو ٹیلی ویژن یا سینما یا ویڈیو کی سکرینوں پر یا کاغذ پر بنی ہوا ، عورت کی تصویر کو دیکھنے کا کیا حکم ہے ؟
جواب : مذکورہ تمام صورتوں میں بت کو دیکھنا حرام ہے ، کیونکہ اس سے فتنہ برپا ہوتا ہے اور اس لیے بھی سورہ نور میں موجود آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان : قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُونَ [النور : 30 ]
”مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے ، بے شک اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے جو وہ کرتے ہیں ۔“
تمام عورتوں کو شامل ہے ، چاہے وہ تصاویر کی شکل میں ہوں یا کسی اور صورت میں ، اوراق پر بنی ہوئی ہوں یا ٹیلی ویژن کی سکرین پر یا اس کے علاوہ ، کسی حالت میں ہوں ۔ (عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ )

سوال : جو شخص سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حبشی مردوں کے کھیل کو دیکھنے سے دلیل پکڑ کر ٹیلی ویژن یا مجلہ میں عورت کو دیکھنے کے مباح اور جائز ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کا جواب کیا ہوگا ؟
جواب : کوئی شخص عورت کی تصویر کو دیکھنے کے مباح و جائز ہونے کا دعوی کرتا ہے اس بنا پر کہ بلاشبہ تصویر کو دیکھنا تو صرف خیال کو دیکھنا ہے ، لیکن عورت کی شخصیت کو دیکھنا حقیقت کو دیکھنا ہے ۔
در حقیقت یہ (گناہ کے) سبب کے سدباب سے غفلت کا نتیجہ ہے ، ورنہ ( تو ٹیلی ویژن یا مجلہ پر عورت کی تصویر دیکھنے اور عورت کو حقیقتا دیکھنے میں کیا فرق ہے ؟ فقہاء نے آخر عورت کی تصویر دیکھناکیوں حرام قرار دیا ہے ؟ فقہاء کا کہنا ہے فتنے کے ڈر سے (تصویر دیکھنا حرام ہے ) اور فتنہ کا یہ ڈر اور خوف عورت کی تصویر اور خود عورت کو دیکھنے میں پایا جاتا ہے ۔
رہا عائشہ رضی اللہ عنہا کا حبشیوں (کے کھیل) کو دیکھنا تو یہ ان کے لیے رخصت تھی ان کے علاوہ کسی اور عورت کو اس کی رخصت نہیں ہے ، کیونکہ وہ کھیل دیکھ رہی تھیں نہ کہ کھلاڑیوں کے اشخاص کو ۔ گویا کہ جب عورت معرکہ جنگ کو دیکھے گی تو اس وقت عورت کے دل میں یہ خیال نہیں گزرے گا کہ شیطان اس خیال کے ذریعہ اس عورت کے دل میں وسوسہ ڈالے اور وہ اس لڑنے والے آدمی کو دیکھے ۔ بہر حال اس معاملہ میں چھوٹ اور اجازت ہے ، کیونکہ فتنہ کا ڈر نہیں ہے ۔
لہٰذا یہ حدیث اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مخالف نہ ہو گی ۔ ‏ قُل لِّلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ [النور : 30]
” مومن مردوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شر مگاہوں کی حفاظت کریں ۔“
اور نہ ہی اس فرمان باری تعالیٰ کے ساتھ اس کا ٹکراؤ ہو گا :
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ النور : 31
اور مومن عورتوں سے کہہ دے اپنی کچھ نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ۔“
پس نظر سے مراد قصد و ارادہ کے ساتھ دیکھنا ہے ، لہٰذا جب برے ارادے کے ساتھ دیکھا جائے تو یہی دیکھنا اس آیت میں مقصود ہے ، لیکن اچھے ارادے کے ساتھ دیکھنا مذکورہ دونوں آیتوں کی نہی میں داخل ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو کہا:
يا على لا تتبع النظرة النظرة فإن النظرة الأولى لك والثانية عليك [حسن سنن أبى داود ، رقم الحديث 2149 ]
”اے علی ! پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ دیکھ ، پس بے شک پہلی نظر تیرے لیے گناہ نہیں ہے اور دوسری تیرے لیے گناہ ہے ۔“
یعنی جس شخص نے پہلی اچانک نظر پڑ جانے کے بعد دوبارہ عورت کو دیکھا تو یہ دیکھنا شیطان کی طرف سے (وسوسہ ) ہے ۔
صحیح بخاری میں خثعم قبیلے کی عورت کا ذکر ہے کہ جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کے متعلق سوال پوچھنے کے لیے کھڑی ہوئی کہ اس کے باپ پر ایسی حالت میں حج فرض ہوا ہے کہ وہ اتنا بوڑھا کھوسٹ ہو چکا ہے کہ وہ سواری پر بیٹھ بھی نہیں سکتا ، تو کیا میں اس کی طرح سے حج کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو جواب دیا : حجي عنه [صحيح سنن الترمذي ، رقم الحديث 928 ]
”(ہاں) تم اپنے باپ کی طرف سے حج کرو“ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر فضل بن عباس رضی اللہ عنہا سوار تھے ، فضل اس عورت کی طرف اور وہ عورت فضل کی طرف دیکھنے لگی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فضل کی نظر کو دوسری طرف پھیر رہے تھے تاکہ کہیں ان دونوں کے درمیان شیطان (وسوسہ ڈالنے کے لیے ) نہ آ جائے ۔
لہٰذا عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ بار بار مرد کی طرف دیکھے ، جیسا کہ مرد کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ عورت کو بار بار دیکھے ۔ ہاں ایک حالت میں عورت کو دیکھنا جائز ہے ، وہ یہ کہ جب اس عورت سے منگنی کرنے کا ارادہ ہو ۔ ( محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔