صالحین کے بارے میں غلو

 

تالیف: الشیخ السلام محمد بن عبدالوھاب رحمہ اللہ، ترجمہ: مولانا مختار احمد ندوی حفظ اللہ

جاہلیت کا ایک طریقہ یہ بھی تھا کہ وہ علماء و صالحین کے بارے میں غلو کرتے تھے، جیسا کہ ارشاد ہے :
وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرٌ ابْنُ اللَّـهِ وَقَالَتِ النَّصَارَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللَّـهِ ذَلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمُ اللَّـهُ أَنَّى يُؤْفَكُونَ ٭ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـهًا وَاحِدًا لَا إِلَـهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ٭يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّـهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ [9-التوبة:30]
”اور یہود کہتے ہیں کہ اگر عزیز خدا کے بیٹے ہیں اور عیسائی کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے بیٹے ہیں، یہ ان کے منہ کی باتیں ہیں، پہلے کافر بھی اسی طرح کی باتیں کہا کرتے تھے، یہ بھی انہیں کی ایسی کہنے لگے ہیں، اللہ ان کو ہلاک کرے یہ کہاں بہکے پھرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے علماء، مشائخ اور مسیح ابن مریم کو اللہ کے سوا خدا بنا لیا۔ حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ واحد کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے نور کو اپنے منہ سے (پھونک مار) کر بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کیے بغیر رہنے کا نہیں اگرچہ کافروں کو برا ہی لگے۔ “
یعنی علماء کو رب بنانا جو حلال و حرام اور کائنات میں تصرف کے مالک سمجھے جائیں اور جنہیں مصیبت دور کرنے اور نفع حاصل کرنے کے لیے پکارا جائے۔ اہل کتاب کی رسم جاہلیت تھی جو رفتہ رفتہ دنیا بھر میں سرائیت کر گئی اور انہیں کے بقایا دنیا بھر میں اب بھی موجود ہیں، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرمائی تھی :
لتتبعن سنن من كان قبلكم
”تم اپنے پہلے والوں کے طریقوں کی ضرور پیروی کرو گے۔“
یہی وجہ ہے کہ آج ہم عوام کی اکثریت کو اللہ کے پسندیدہ دین سے ہٹا ہوا دیکھ رہے ہیں جو بدعات میں لت پت ہیں، ضلالت کی وادیوں میں بھٹک رہے ہیں، کتاب و سنت اور ان پر چلنے والوں کی دشمنی میں لگے ہوئے ہیں، دین ان پر ماتم کر رہا ہے اور اسلام ان کی وجہ سے مصائب کا شکار ہے بس اللہ ہی ہمارے لیے کافی ہے اور وہ بہتر کارساز ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 12 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply