سید کسے کہتے ہیں

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا سید کوئی مخصوص ذات ہے یا ہر شخص کو سید کہا جا سکتا ہے ؟
جواب۔ موجودہ دور میں لفظ ’’ سید“ ایک مخصوص ذات کے لیے لوگ استعمال کرتے ہیں حالانکہ ”سید“ کوئی ذات نہیں ہے بلکہ کتاب و سنت کی رو سے شرافت و بزرگی اور سرداری کے لیے یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام کلمات استغفار پر اللهم انت ربي لا اله الا انت خلقتني کو فضیلت دیتے ہوئے اسے سیدالاستغفار قرار دیا ہے۔ [بخاري الدعوات : باب الاستغفار : 6306]
جمعتہ المبارک کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
سيد الايام يوم الجمعة فيه خلق آدم و فيه ادخل الجنة وفيه اخرج منها ولا تقوم الساعة الا يوم الجمعة
’’ تمام دنوں کا سردار جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن آدم علیہ السلام علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن جنت میں داخل کیے گئے اور اسی دن جنت سے نکالے گئے اور قیامت بھی اسی دن قائم ہو گی۔“ [ مستدرك حاكم : 277/1، صحيح ابن خزيمة : 115/3]
سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ سیدالشہداء“ کہا۔ [مستدرك حاكم : 2/ 120، 3/ 195، فتح الباري : 7/ 368، سلسلة الاحاديث الصحيحة : 374]
ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ لفظ ”سید“ سرداری، شرافت اور بزرگی ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے لیے فرمایا :
ان ابني هذا سيد ’’ میرا یہ بیٹا سردار ہے۔“ [بخاري، كتاب الصلح : باب قول النبى للحسن بن على …… : 2704]
ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
انا سيد الناس يوم القيامة ’’ قیامت کے دن میں سب انسانوں کا سردار ہوں گا۔“ [بخاري الانبياء : باب قول الله عزوجل ….. الخ : 3340]
الغرض بے شمار صحیح احادیث میں یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے لیکن کہیں بھی یہ کسی مخصوس ذات پر نہیں بولا گیا، ہر مومن موحد اپنے اپنے مقام پر بزرگ و سید ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 28 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply