سورج سے مخاطب ہونا

تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

”سورج گدھے کا دانت لے جا !“
سوال: جو شخص دانت اکھاڑنے کے بعد سورج سے مخاطب ہو کر کہے کہ گدھے کا دانت لے جا اور اس کے بدلے ہرنی کا دانت دے جا تو اس قسم کے جملے کا کیا حکم ہے؟
جواب: اس طرح کی بات بے بنیاد ہوتی ہے اور نہ اس کا کوئی فائدہ ہے ۔
ممکن ہے کہ یہ شرکیہ جملہ بن جائے کیونکہ یہ سورج سے دعاء مانگنے یا اس کو پکارنے کے مترادف ہے ، حالانکہ سورج خود مخلوق ہے اور ایک ڈیوٹی انجام دے رہا ہے ۔ جو شخص سورج سے دعا مانگتا ہے تو سورج نہ اس کے لیے نفع و نقصان کا مالک ہے اور نہ کسی دوسرے کے لیے ۔ لہٰذا سورج کو مخاطب کرنا گویا اس سے دعا مانگنا اور اس کی عبادت کرنا ہے ۔ اور بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے سورج کو سجدہ کرنے والے مشرکین کے بارے میں بیان کیا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿وَجَدتُّهَا وَقَوْمَهَا يَسْجُدُونَ لِلشَّمْسِ مِن دُونِ اللَّهِ . . .﴾ [النمل: 24]
”میں نے اسے اور اس کی قوم کو اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر سورج کو سجدہ کرتے ہوئے پایا ۔ ۔ ۔ “
نیزارشاد باری ہے:
﴿لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ . . .﴾ [فصلت/ حمَ السَّحْدَة: 37]
”تم نہ تو سورج کو سجدہ کرو نہ چاند کو بلکہ سجدہ اُس اللہ کے لیے کرو جس نے ان سب کو پیدا کیا ہے ۔ ۔ ۔“
اور اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ سورج سے دعا مانگنا اور اس کو پکارنا گویا اس کی عبادت کرنا اس کے سامنے جھکنا اور اس سے تعلق خاطر کا اظہار کرنا اور اس کی تعظیم و تقدیس کرنا بعینہ اس کو سجدہ کرنا ہے ۔ پھر اس میں یہ بات بھی ہے کہ یہ شخص جو سورج کو پکارتا ہے تو یہ بے فائدہ کام ہے کیونکہ سورج سن تو نہیں سکتا اور نہ ہی جواب دے سکتا ہے اور نہ وہ پکارنے والے کو کچھ دے سکتا ہے ۔
انسان کی خاطر اللہ تعالیٰ نے دانتوں کو پیدا کیا اور اکثر حیوانات کے لیے بھی دانتوں کو پیدا کیا ہے ۔ اس کا فائدہ خوراک کو اچھی طرح چبانا ہے اور اسے نوچ کر کھانا ہے ۔ اور یہ مہربانی صرف اللہ کی طرف سے ہے جو نفع و نقصان دینے اور نہ دینے کا تن تنہا مالک ہے ۔ چنانچہ مسلمان صرف اسی ایک اللہ وحدہ سے درخواست کرتا ہے اور اس کے ماسوا کی طرف متوجہ نہیں ہوتا
۔
چوپایوں کے دانتوں کے بارے میں غور و فکر کیا جائے تو ان میں بھی کوئی فرق نہیں ۔ گدھا خواہ جنگلی ہو یا پالتو اللہ نے اس کے لیے مناسب حال دانت بنائے ہیں اور اس کے دانت اس کے ساتھ پوری زندگی یا اکثر زندگی تک باقی رہتے ہیں اور بالکل یہی بات ہرن کے دانتوں کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے اور ہرن کے مؤنث کو عربی میں ”غزال“ (ہرنی) کہتے ہیں ۔ یہی حال دوسرے حیوانات کا ہے ، جیسے کہ اونٹ ، بکری اور ان کے مثل دوسرے جانور ۔ تو اللہ ربّ العزت نے مذکورہ حیوانات کے لیے حسب ضرورت دانت پیدا کیے ہیں اور یہ دانت صرف استعمال کرنے سے اپنی آخری حد تک پہنچتے ہیں ۔
لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ گدھا نا پسندیدہ مخلوق ہے اور اس کے دانت بھی بد ترین ہیں جن سے طبیعت متنفر ہوتی ہے ، حالانکہ حقیقت یوں نہیں ہے ۔ اسی طرح غزال (ہرنی) کا دانت انسان کے لیے مناسب نہیں ، اس لیے کہ یہ دانت اسی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔ ہاں اگر کسی کا خیال ہو کہ مذکورہ بالا جملہ انسان کو بھلا لگتا ہے تو استعمال میں کوئی حرج نہیں ، لیکن اس سے کیا فائدہ؟ اس لیے کہ اللہ کا بندہ تو اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس پاک ذات کے علاوہ کسی دوسری مخلوق کی جانب متوجہ نہیں ہوتا واللہ اعلم !

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔