سفر کی وجہ سے روزہ ترک کرنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ


بحری، بری اور فضائی سفر میں روزہ کی رخصت

سوال : ایسا شخص جس نے ہوائی جہاز یا گاڑی میں سفر کرنا ہے اور اسے مشقت کا کوئی احساس بھی نہیں ہوتا تو کیا وہ روزہ ترک کر سکتا ہے؟

جواب : ایسے شخص کے لیے سفر میں روزہ ترک کرنا جائز ہے، خواہ سفر ہوائی جہاز میں ہو۔ اس لیے کہ روزہ ترک کرنے کی وجہ سفر میں مشقت نہیں بلکہ سفر ہی ہے، خواہ اسے سفر میں مشقت حاصل ہو یا نہ ہو۔ روزہ ترک کرنا اس کے لیے جائز ہے، اور قرآن وحدیث کے عمومی دلائل اس پر موجود ہیں۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

«وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ» [البقرة : 185]
”پس تم میں جو مریض ہو یا مسافر ہو تو وہ دیگر ایام میں روزوں کی گنتی مکمل کرے۔“

اس آیتِ کریمہ میں سفر کی وجہ سے روزہ ترک کرنے کا جواز ملتا ہے، اس میں مشقت کا ذکر نہیں ہے۔ نیز ایک حدیث ہے کہ محمد بن کعب رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے پاس رمضان میں آیا تو وہ سفر کی تیاری کر رہے تھے اور ان کی سواری اور ساز و سامان تیار ہو چکا تھا۔ اسی اثنا میں انہوں نے کھانا منگوا کر کھایا تو میں نے ان سے پوچھا: ”کیا یہ عمل سنت ہے ؟“ تو انہوں نے کہا: ”ہاں ! سنت ہے۔“ پھر سواری پر سوار ہو گئے۔“ [ترمذي، كتاب الصوم : باب ما جآء فيمن أكل ثم خرج يريد سفرا 799، 800، بيهقي 248/4]

اس حدیثِ مبارکہ کو امام ترمذی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے [صحيح الترمذي 799] میں ذکر کیا ہے۔

اب انس رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں کوچ کرنے سے قبل ہی روزہ نہیں رکھ رہے۔ حالانکہ انہیں ابھی کوئی مشقت بھی نہیں پہنچی اور اس عمل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے ہیں۔

امام ترمذی رحمہ اللہ یہ حدیث درج کرنے کے بعد رقمطراز ہیں کہ اکثر اہل علم نے اس حدیث کو دلیل بنا کر یہ فرمایا ہے کہ مسافر کے لیے درست ہے کہ وہ گھر سے نکلنے سے پہلے ہی روزہ افطار کرے، مگر نماز اپنے شہر یا بستی سے نکلنے سے قبل قصر نہیں کر سکتا۔ یہی مذہب اسحاق بن ابراہیم الحنظلی یعنی اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔

عبید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ”میں صحابی رسول ابوبصرہ غفاری رضی اللہ عنہ کے ساتھ ماہِ رمضان میں کشتی میں سوار تھا کہ انہوں نے کشتی روکی پھر ان کے لیے کھانا لایا گیا حالانکہ ابھی ہم گھروں سے زیادہ دور نہیں گئے تھے۔ ابوبصرہ رضی اللہ عنہ نے دسترخوان منگوا کر کہا: ”قریب آ جاؤ۔“ میں نے کہا: ”آپ گھروں کو نہیں دیکھ رہے (یعنی ہم ابھی زیادہ دور نہیں آئے) ؟“ تو ابوبصرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ”کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت سے بےرغبتی کرتا ہے۔“ پھر انہوں نے کھانا کھا لیا۔“ [مسند أحمد 488/18، بيهقي 246/4]
اب ابوبصرہ رضی اللہ عنہ نے کشتی میں سوار ہوتے ہی روزہ افطار کر لیا اور سفر کی مشقت کا انتظار نہیں کیا۔ پس ان دلائل سے ثابت ہوا کہ سفر میں مشقت و تکلیف کا کوئی اعتبار نہیں اور شارع نے سفر میں افطار کر۔۔۔ کا یہ وصف بیان نہیں کیا۔

نیز صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سفر کرتے تو ان میں سے بعض کا روزہ ہوتا اور بعض روزہ نہیں رکھتے تھے لیکن کوئی دوسرے پر نکتہ چینی نہیں کرتا تھا۔ کیونکہ سفر میں روزہ سے رخصت ہے۔ اب جس نے روزہ رکھ لیا تو اس نے بھی درست کام کیا اور اللہ تعالیٰ اپنی عطا کردہ رخصت قبول کرنے کو پسند کرتا ہے، جس طرح کہ وہ دیگر عطا کردہ امور پر عمل کو پسند کرتا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 5 بار پڑھا جا چکا ہے۔