عقلی فتور میں مبتلا شخص کے روزہ نماز کا کیا حکم ہے؟

سوال : میری بیٹی تیس سال کی ہو چکی ہے اور اس کے پاس کئی بچے ہیں اور وہ چودہ سال سے عقلی فتور میں مبتلا ہے۔ اور اس سے پہلے کچھ مدت تک اسے یہ بیماری لاحق رہتی اور کچھ مدت تک ختم ہو جاتی تھی۔ لیکن اس بار اسے یہ بیماری خلاف عادت لاحق ہے کیوں کہ اس وقت تقریباً تین مہینے سے وہ اس میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے وہ ٹھیک سے نہ وضو کر سکتی ہے اور نہ صلاۃ ادا کر پاتی ہے۔ الا یہ کہ کوئی آدمی اسے یہ رہنمائی کرتا رہے کہ وہ کس طرح وضو کرے اور کتنی رکعت پڑھے۔ اس وقت ماہِ رمضان کی آمد پر اس نے صرف ایک دن صوم رکھا، وہ بھی ٹھیک سے نہیں رکھ سکی۔ باقی دنوں میں کوئی صوم نہیں رکھا۔ براہ کرم آپ اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں کہ مجھ پر کیا لازم ہے اور اس پر کیا واجب ہے ؟ یہ خیال رہے کہ میں ہی اس کا سرپرست ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا اجر عطا فرمائے۔
جواب : اگر واقعی اس کا حال وہی ہے جو آپ نے ذکر کیا ہے تو اس پر صوم و صلاۃ کچھ بھی واجب نہیں ہے۔ جب تک اس کی یہ حالت برقرار رہے، نہ ادا کے اعتبار سے اور نہ قضا کے اعتبار سے۔ اور بحیثیت ولی ہونے کے آپ پر بھی اس کی نگرانی کے علاوہ کچھ واجب نہیں ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ثابت ہے :
كلكم راع وكلكم مسؤل عن رعيته . . . . . الحديث
’’ تم میں سے ہر شخص نگراں اور ذمہ دار ہے اور ہر شخص سے اس کے ماتحت لوگوں کے با رے میں پوچھاجائے گا “۔
افاقہ ہونے کی صورت میں اس پر صرف افاقہ کی مدت کی صلوات واجب ہوں گی، اسی طرح ماہِ رمضان میں ایک دن یا کئی دن افاقہ ہونے کی صورت میں اس پر صرف افاقہ کے ایام کے صیام واجب ہیں۔
’’ اللجنۃ الدائمۃ “
اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔