فضائل صیام و قیام رمضان امور جن سے بعض لوگ ناواقف ہیں

تحریر: ابوصادق عاشق علی اثری حفظ اللہ

⑬ وہ امور جن سے بعض لوگ ناواقف ہیں :
مسلمان پر واجب ہے کہ وہ صوم ایما ن کے تقاضے اور طلب ثواب کی نیت سے رکھے، ریا کاری، شہرت طلبی، لوگوں کی تقلید یا اپنے گھر یا محلہ والوں کے اتباع میں نہ رکھے۔ اس بات کو اپنے اوپر ضروری قرار دے کہ اس کے صوم کا حامل ا س کا یہ ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر یہ صوم فرض کیا ہے۔ اور اس کی یہ نیت ہو کہ اس صوم کا اجر و ثواب وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں پائے گا۔ اسی طرح قیامِ رمضان کے سلسلہ میں ضروری ہے کہ مسلمان ایمان کے تقاضے اور ثواب حاصل کرنے کی نیت سے اسے انجام دے، کسی اور غرض و مقصد سے نہ کرے، اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام رمضان إيما نا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه، ومن قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه
جس شخص نے رمضان کا صوم ایما ن و یقین کے ساتھ اجر و ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رکھا اس سے اس کے پچھلے گنا ہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جس شخص نے ماہِ رمضان کا قیا م ایما ن و یقین کے ساتھ اجر و ثواب کی نیت سے کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جس شخص نے شبِ قدر کا قیام ایمان کے تقاضے اور اجر و ثواب کی نیت سے کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔
⑭۔ درج ذیل امور کے حکم سے بھی بعض لوگ ناواقف ہیں :
صائم کو زخم لگ گیا، یا نکسیر پھوٹی، یا قے ہو ئی، یا غیر اختیا ری طور پر اس کے حلق میں پانی یا تیل کا قطرہ چلا گیا تو ان چیزوں سے صوم فاسد نہیں ہوتا ہے، البتہ اگر قصداً اور شعوری طور پر قے کرے تو صوم فاسد ہو جائے گا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
من ذرعه القئ فلا قضاء عليه، ومن استقاء فعليه القضاء [صحيح : صحيح سنن ترمذي، أبواب الصوم باب من استقاء عمداً 15 رقم 577۔ 723 بروايت ابوهر يره رضى الله عنه، صحيح سنن أبى داؤد، الصوم باب الصائم يستقي عامداً 32 رقم 2084۔ 2380، صحيح سنن ابن ماجه، الصيام 7 باب ما جا ء فى الصائم يقئي رقم 1359۔ 1676، صحيح الجامع، رقم 6243، إرواء الغليل رقم 930 ]
’’جسے خود بخود قے ہو جائے تو اس پر قضا نہیں، اور جو قصداً قے کرے تو اس پر قضا لازم ہے۔ “
صائم کو جنابت لاحق ہو جائے اور وہ طلوع صبحِ صادق تک غسل نہ کرے یا حائضہ اور نفاس والی عورت صبحِ صادق سے پہلے پاک ہو جائے اور وہ صبحِ صادق تک غسل نہ کرے، تو ایسی صورت میں ان کے لئے صوم رکھنا ضروری ہے، طلوع صبحِ صادق کے بعد تک غسل کو مؤخر کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن غسل کو سورج نکلنے تک مؤخر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ اس پر ضروری ہے کہ غسل کر کے سور ج نکلنے سے پہلے صلاۃِ فجر ادا کرے۔ اسی طرح جنبی (مرد و عورت) کے لئے جائز نہیں کہ وہ غسل کو سورج نکلنے تک مؤخر کرے۔ اس پر بھی ضروری ہے کہ غسل کر کے سورج نکلنے سے پہلے صلاۃِ فجر ادا کرے۔
اور مر د پر یہ بھی ضروری ہے کہ غسل کرنے میں اتنی جلدی کرے کہ وہ صلاۃِ فجر جماعت کے ساتھ اد ا کر سکے۔
⑮ ان امور سے صوم فاسد نہیں ہوتا ہے :
خون ٹسٹ کرانا اور ایسا انجکشن لگوانا جو غذا کا کام نہ دے، لیکن اگر ممکن ہو تو اسے رات کے لئے مؤخر کر دینا افضل اور زیادہ مناسب ہے۔ اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
دع ما يريبك إلى ما لا يريبك [صحيح : صحيح بخاري، البيوع 34 باب تفسير المشبهات 3 كے ترجمة الباب ميں، صحيح سنن ترمذي، أبواب صفة القيامة باب 22 بروايت حسن بن على رضي الله عنهما رقم 2045۔ 2650، صحيح سنن نسائي، الأشربة 51 باب الحث على ترك الشبهات 50 رقم 5269 ]
’’مشکوک چیز کو چھوڑ کر غیر مشکوک چیز کو لے لو“۔
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
من اتقي الشبهات فقد استبرأ لدينه وعرضه [صحيح : صحيح بخاري، الإيمان 2 باب فضل من استبرأ لدينه 39 رقم 52 بروايت نعمان بن بشير رضى الله عنه، صحيح مسلم، المساقاة 22 باب أخذ الحلا ل وترك الشبهات 20 رقم 107۔ 1599 ]
’’ جو شبہات سے بچ گیا تو یقیناًً اس نے اپنے دین اور اپنی عزت و آبرو کو محفوظ کر لیا۔ “
⑯ صلاۃ میں اطمینا ن و سکون واجب ہے :
جن امور سے بعض لو گ ناواقف ہیں ان میں سے صلاۃ میں اطمینا ن و سکون کا نہ ہونا ہے، خواہ صلاۃ فرض ہو یا نفل۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح احا دیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ’’اطمینا ن“ صلاۃ کے ارکا ن میں سے ایک رکن ہے۔ اس کے بغیر صلاۃ صحیح ہی نہیں ہوتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ آدمی ٹھہر ٹھہر کر اور خشوع و خضوع کے ساتھ صلاۃ ادا کرے، جلد بازی نہ کرے، یہاں تک کہ تمام ہڈیاں اپنی اپنی جگہ لوٹ جایا کریں۔ بہت سے لوگ رمضان میں صلاۃِ تراویح اس طرح ادا کر تے ہیں جسے وہ خود نہیں سمجھتے ہیں، اطمینا ن و سکون بالکل نہیں ہوتا ہے۔ بلکہ وہ کوّے کے زمین پر ٹھو نگ مارنے کی طرح سر پٹکتے چلے جاتے ہیں۔ اس طریقہ پر ادا کی جانے والی صلاۃ باطل ہے۔ اور ایسی صلاۃ ادا کرنے والا شخص گنہگا ر اور اجر و ثواب سے محروم ہوتا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply