روزہ دار اگر نماز میں سستی کرے تو کیا حکم ہے؟

سوال : بعض جوان۔ اللہ انہیں ہدایت دے۔ رمضان وغیرہ میں صلاۃ میں سستی اور کوتاہی کرتے ہیں، مگر صیام رمضان پابندی سے رکھتے ہیں اور بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں۔ ان کے صوم کا کیا حکم ہے ؟ اور آپ انہیں کیا نصیحت کرتے ہیں ؟
جواب : ایسے جوانوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنے معاملہ میں غور و فکر کریں اور وہ جان لیں کہ صلاۃ شھادتین کے بعد اسلا م کا اہم ترین رکن ہے۔ اور جو شخص صلاۃ ادا نہ کرے اور سستی اور کوتاہی سے اسے چھوڑ دے وہ میرے نزدیک راجح قول کی بنا پر جس کی تائید کتا ب و سنت کے دلائل سے ہوتی ہے کافر، ملت اسلامیہ سے خارج اور دین اسلام سے مرتد ہو جاتا ہے۔ یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے، کیوں کہ جو شخص کافر اور دین اسلام سے مر تد ہو جاتا ہے اس کا صوم، صدقہ اور کوئی بھی عمل مقبول نہیں ہوتا۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَمَا مَنَعَهُمْ أَنْ تُقْبَلَ مِنْهُمْ نَفَقَاتُهُمْ إِلَّا أَنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّـهِ وَبِرَسُولِهِ وَلَا يَأْتُونَ الصَّلَاةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَارِهُونَ [9-التوبة:54]
’’ کوئی سبب ان کے خرچ کی قبولیت کے نہ ہونے کا اس کے سوا نہیں کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہیں اور بڑی کاہلی سے ہی صلاۃ کو آتے ہیں اور برے دل سے ہی خرچ کرتے ہیں “۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت کے اندر بیان فرمایا ہے کہ ان کا خرچ کرنا نفع بخش اور دوسروں کے لئے مفید ہونے کے با وجود ان کے کفر کی وجہ سے اللہ کے یہاں قابلِ قبول نہیں ہو گا۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَقَدِمْنَا إِلَى مَا عَمِلُوا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاهُ هَبَاءً مَنْثُورًا [25-الفرقان:23]
’’ اور انہوں نے جو جو اعمال کئے تھے ہم نے ان کی طرف بڑھ کر انہیں پراگندہ ذروں کی طرح کر دیا “۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو صوم رکھتے ہیں مگر صلاۃ نہیں ادا کرتے اور صلاۃ کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہوتے ہیں جیسا کہ کتاب و سنت دونوں اس پر دلالت کرتے ہیں، ان کا صوم مقبول نہیں ہو گا بلکہ مردود ہو جا ئے گا۔ ایسے لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ عزوجل کا تقویٰ اختیا ر کریں اور صلاۃ پر محافظت و مداومت کریں اور وقت پر جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی کا اہتمام کریں۔ میں اللہ کی قدرت کاملہ پر امید رکھتے ہوئے اس کی ضمانت دیتا ہوں کہ جب یہ لوگ ایسا کریں گے تو رمضان اور غیر رمضان سب میں وقت پر صلوات با جماعت کی ادائیگی کی زبر دست رغبت و خواہش اپنے دلوں میں پائیں گے۔ اس لئے کہ جب انسان اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس سے سچی توبہ کر لیتا ہے تو وہ توبہ کے پہلے سے بہتر انسان بن جاتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے ممنوعہ درخت کے پھل کھانے کے بعد کی زندگی کا ذکر فرمایا ہے :
ثُمَّ اجْتَبَاهُ رَبُّهُ فَتَابَ عَلَيْهِ وَهَدَى [20-طه:122]
’’ پھر اس کے رب نے نوازا، اس کی توبہ قبول کی اور ا س کی رہنمائی کی “۔
’’ شیخ ابن عثیمین۔ رحمۃ اللہ علیہ۔ “
اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔