عاشوراء کے روزے

عبید اللہ طاہر حفظ اللہ

عاشوراء 10 محرم کے دن کو کہتے ہیں۔
عاشوراء کے روزے کی فضیلت:
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أفضل الصيام بعد رمضان شهر الله المحرم، وأفضل اللاة بعد الفريضة، صلاة الليل.
»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رمضان کے روزوں کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والے روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں، اور فرض نماز کے بعد سب سے زیادہ فضیلت والی نماز رات کی نماز (تہجد) ہے۔“ [صحيح مسلم 1163: 202]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، فقه، قال: سئل: أى الصلاة أفضل بعد المكتوبة؟ وأي الصيام أفضل بعد شهر رمضان؟ فقال: أفضل الصلاة بعد الصلاة المكتوبة، الصلاه فى جوف الليل، وأفضل الصيام بعد شهر رمضان، صيام شهر الله المحرم.»
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کون سی نماز سب سے افضل ہے ؟ اور رمضان کے مہینے کے بعد کون سے روزے سب سے افضل ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز درمیانی رات کی نماز (تہجد) ہے، اور رمضان کے مہینے کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں۔“ [صحيح مسلم 1163: 203]

❀ «عن أبى قتادة الأنصاري رضى الله عنه قال: وسئل (يعني النبى صلى الله عليه وسلم) عن صوم يوم عاشوراء؟ فقال: يكفر السنة الماضية.
وفي رواية: أحتسب على الله أن يكفر السنة التى قبله .
»
حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشوراء کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔“ [صحيح مسلم 1162: 197]
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اللہ سے امید ہے کہ وہ پچھلے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔“ [صحيح مسلم 1162: 196]

❀ «عن سلمة بن الأكوع رضي الله عنه: أن النبى صلى الله عليه وسلم بعث رجلا ينادي فى الناس يوم عاشوراء: إن من أكل فليتم أو فليصم ومن لم يأكل فلا ياكل.»
حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن لوگوں میں اعلان کرنے کے لیے ایک شخص کو بھیجا کہ جس نے کچھ کھا لیا ہو تو وہ مکمل کرے یار وزه رکھے، اور جس نے نہ کھایا ہو وہ نہ کھائے۔ [صحيح بخاري 1924 صحيح مسلم 1135]
نوٹ: اس مضمون کی اور بھی احادیث آئی ہیں۔ اور ان احادیث سے ایسا لگتا ہے کہ پہلے پہل عاشوراء کا روزہ فرض تھا، اسی وجہ سے اگر کسی نے فجر کے بعد کچھ کھا لیا ہو تو اسے بھی بقیہ دن کھانے پینے سے رکے رہنے کا حکم دیا گیا، اور یہ حکم نفل کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ پھر رمضان کی فرضیت کے بعد یہ حکم منسوخ ہو گیا اور اس کا استحباب باقی رہا۔

عاشوراء کے روزے کی فرضیت منسوخ ہو گئی:
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان يوم عاشوراء تصومه قريش فى الجاهلية، وكان رسول الله صل الله عليه يصومه، فلما قدم المدينة صامه، وأمر بصيامه، فلما فرض رمضان ترك يوم عاشوراء، فمن شاء صامه، ومن شاء تركه»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش عاشوراء کے دن کا روزہ رکھا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو اس دن کا روزہ رکھا اور دوسرے لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا، البتہ جب رمضان کے روزے فرض کیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن کو چھوڑ دیا، تو جو چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔“ [صحيح بخاري 2002، صحيح مسلم 1125]

عاشوراء کے روزے کا سبب:
❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: قدم النبى صلى الله عليه وسلم المدينة، فرأى اليهود تصوم يوم عاشوراء، فقال: ما هذا؟، قالوا: هذا يوم صالح، هذا يوم نجي الله بني إسرائيل من عدوهم، فصامه موسي عليه السلام، قال: فأنا أحق بموسى عليه السلام منكم، فصامه، وأمر بصيامه .»
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے، دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، پو چھا: ”یہ کیا ہے؟“ یہودیوں نے کہا کہ یہ ایک مبارک اور اچھا دن ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی دن بنی اسرائیل کو ان کے دشمن سے نجات دی تھی، اس لیے حضرت موسی نے اس دن روزہ رکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا: ”میں تم سے زیادہ موسی سے تعلق رکھتا ہوں۔“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کا روزہ رکھا اور دوسرے لوگوں کو بھی رکھنے کا حکم دیا۔ [صحيح بخاري 2004، صحيح مسلم 1130]

يوم عاشوراء کے ساتھ 9 محرم کا روزہ رکھنا:
❀ «عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إنه يوم تعظمه اليهود والبخاري، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع، قال: فلم يأتي العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم . »
«وفي رواية لئن بقيت إلى قابل لأصوم من التاسع. »
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عاشوراء کا روزہ رکھا اور رکھنے کا حکم دیا، تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ یہود اور نصاری اس دن کی تعظیم کرتے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان شاءاللہ آئندہ سال ہم 9 محرم کا روزہ رکھیں گے لیکن اس سے پہلے ہی آپ کی وفات ہو گئی۔“ [صحيح مسلم 1134: 133]
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میں آئندہ سال رہا تو 9 محرم کا صوم رکھوں گا۔“ [صحيح مسلم 1134: 134]
نوٹ: یعنی یوم عاشوراء 10 محرم کے ساتھ 9 محرم کا بھی روزہ رکھوں گا، 10 محرم کا اس وجہ سے کہ وہ یوم عاشوراء ہے، اور 9 محرم کا یہود کی مخالفت میں۔ اور جو 9 محرم کو روزہ نہ رکھ سکے تو 10 محرم کے ساتھ 11 محرم کا روزہ رکھ لے، کیونکہ اس سے بھی مخالفت ہو جاتی ہے۔
علمائے کرام نے عاشوراء کے تین درجے بیان کیے ہیں:
➊ پہلا درجہ نو، دس اور گیارہ کا روزہ۔
➋ دوسرا درجہ نو اور دس کاروزہ۔
➌ تیسرا درجہ صرف دس کاروزہ۔

——————

روزوں کے عموی احکام
بھول کر کھانے پینے کا حکم
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم، قال: إذا نسي فأكل وشرب، فليتمم صومه، إنما أطعمه الله وسقاه. »
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی بھول کر روزے کی حالت میں کچھ کھا پی لے تو وہ اپنے روزے کو مکمل کرے، کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔“ [صحيح بخاري 1933، صحيح مسلم 1155]

❀ «عن أبى هريرة رضى الله عنه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أفطر فى شهر رمضان ناسيا، لا قضاء عليه ولا كفارة.»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کے مہینے میں بھول کر روزہ توڑ دیا تو اس پرنہ قضا ہے اور نہ کفارہ۔“ [صحيح ابن خزيمه 1990، صحيح ابن حبان 3521، سنن الدار قطني 2243، المعجم الأوسط للطبراني 5352، حسن]

روزے دار کے لیے بوسہ لینے کی رخصت
❀ « عن عائشة رضي الله عنها، قالت: إن كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لقبل بعض أزواجه وهو صائم، ثم ضحكت .»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی کسی بیوی کا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔ پھر وہ ہنس پڑیں۔ [صحيح بخاري 1928، صحيح مسلم 1102: 63]

❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلني وهو صائم، وايكم يملك إربه، كما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يملك إربه؟ »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں میرا بوسہ لیا کرتے، لیکن تم میں کا کون اپنی خواہش پر اس طرح قابو رکھتا ہے جس طرح آپ اپنی خواہش پر قابو رکھتے تھے ؟ [صحيح مسلم 1106 : 64]

❀ «عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبلني، وهو صائم، وأنا صائمة.
»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میر ابوسہ لیتے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی روزے سے ہوتے اور میں بھی۔ [سنن ابو داود 2384، صحيح]

❀ «عن عائشة رضي الله عنها، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل بعض نسائه وهو صائم، قلت عائشة رضي الله عنها: فى الفريضة والتطوع؟، قالت عائشة: فى كل ذلك، فى الفريضة والتطوع. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں اپنی کسی بیوی کا بوسہ لیتے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرض روزے میں ایسا کرتے یا نفل روزے میں ؟ تو انہوں نے فرمایا: ”فرض اور نفل ہر ایک میں۔“ [صحيح ابن حبان 3545 صحيح]

❀ «عن جابر بن عبد الله رضى الله عنه قال: قال عمر بن الخطاب الله عنه : هششت، قبل وأنا صائم، فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، صنعت اليوم أمرا عظيما قبلت وأنا صائم، قال: أرأيت لو مضمضت من الماء، وأنت صائم؟ قلت: لا بأس به، قال: فمه »
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں نے سرمستی کے عالم میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی کا بوسہ لے لیا، پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آج مجھ سے بہت بڑی غلطی ہو گئی ہے، میں نے روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا ہے، رسول اللہ مل صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم روزے کی حالت میں پانی سے کلی کرو تو کیا ہوگا؟“ میں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو چھوڑو۔“ (یعنی پھر بوسہ لینے کی وجہ سے گھبرانے کی کیا بات ہے؟)۔ [سنن ابو داود 2385، صحيح]

نوجوان کے لیے حالت روزہ میں بوسہ لینے کی کراہیت
❀ « عن عائشة رضي الله عنها، أن النبى صلى الله عليه وسلم رخص فى القبلة للشيخ وهو صائم، ونهى عنها الشاب، وقال: الشيخ يملك إربه، والشاب يفسد صومه.»
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بوڑھے شخص کو روزے کی حالت میں بوسہ لینے کی اجازت دی، اور نوجوان کو اس سے روکا اور فرمایا: ”بوڑھا آدمی اپنی خواہش پر قابو رکھے گا، جبکہ نوجوان اپنار وزہ خراب کر دے گا۔“ [السنن الكبري ليتي 8084، حسن]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، أن رجلا سأل النبى صلى الله عليه وسلم عن المباشرة للصائم، فرخص له، وأتاه آخر، فسأله، فنهاه، فإذا الذى رخص له شيخ، والذي نهاه شاب. »
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے دار کے لیے بوسہ لینے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی، اور ایک دوسرا شخص آیا اور اس کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جسے اجازت دی وہ بوڑھا تھا، اور جسے منع کیا وہ نوجوان تھا۔ [سنن ابو داود 2387، حسن]

جنابت کی حالت میں صبح کرنے والا روزہ رکھ سکتا ہے
❀ «عن عائشة رضي الله عنها، ان رجلا جاء إلى النبى صلى الله عليه وسلم يستفتيه، وهى تسمع من وراء الباب، فقال: يا رسول الله تدركني الصلاة وانا جنب افاصوم؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ” وانا تدركني الصلاة وانا جنب فاصوم، فقال: لست مثلنا يا رسول الله قد غفر الله لك ما تقدم من ذنبك وما تاخر، فقال: والله إني لارجو ان اكون اخشاكم لله، واعلمكم بما اتقي. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کوئی مسئلہ پوچھنے کے لیے آیا، اور وہ دروازے کے پیچھے سے سن رہی تھیں، اس آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں جنابت کی حالت میں ہوتا ہوں کہ نماز کا وقت ہو جاتا ہے، تو کیا میں اس وقت روزہ رکھ سکتا ہوں؟ تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے کہ میں جنابت کی حالت میں ہوتا ہوں کہ نماز کا وقت ہو جاتا ہے، اور پھر روزہ رکھ لیتا ہوں“۔ تو اس آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! آپ ہماری طرح تو نہیں ہیں، اللہ نے تو آپ کے اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرما دیے ہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم !مجھے امید ہے کہ میں تم میں سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں، اور میں تم میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ان چیزوں کو جن سے بچنا چاہیے۔“ [صحيح مسلم 1110]

❀ «عن عائشة و أم سلمة رضي الله عنهما : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يدركه الفجر وهو جنب من أهله، ثم يغتسل، ويصوم. »
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیوی سے ہم بستری کی وجہ سے جنابت کی حالت میں صبح کیا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل فرماتے اور روزہ رکھتے۔ [صحيح بخاري 1926ء صحيح مسلم 1109]

جان بوجھ کر قے کرنا
❀ «عن أبى هريرة رضى الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من ذرعه قى وهو صائم، فليس عليه قضاء، وإن استقاء فليقض.»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جسے روزے کی حالت میں خود بخود قے ہو جائے اس پر قضا نہیں ہے، اور جو جان بوجھ کر قے کرے تو وہ قضا کرے۔“ [سنن ابو داود 2380، سنن ترمذي 720، سنن ابن ماجه 1676، حسن]

اگر روزے دار یہ سمجھ کر روزہ کھول دے کہ سورج ڈوب گیا ہے پھر سورج نکل آئے
❀ «عن أسماء ابنة أبى بكر الصديق رضي الله عنهما، قالت: أفطرنا على عهد النبى صلى الله عليه وسلم يوم غيم، ثم طلعت الشمس قيل لهشام: فأمروا بالقضاء؟ قال: لا بد من قضاء. وقال عمر: سمعت هشاما: لا أدري أقضوا أم لا»
حضرت اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک بدلی کے دن میں ہم نے افطار کر لیا، پھر (بادلوں کی اوٹ سے) سورج نکل آیا۔ ہشام سے پوچھا گیا کہ کیا لوگوں کو روزہ قضا کرنے کا حکم دیا گیا ؟ تو انہوں نے کہا کہ قضا تو ضروری ہے۔ معمر فرماتے ہیں کہ میں نے ہشام کو کہتے ہوئے سنا کہ مجھے معلوم نہیں کہ لوگوں نے قضا کیا یا نہیں۔ [صحيح بخاري 1959]
نوٹ: اکثر اہل علم ایسے شخص پر قضا کو واجب قرار دیتے ہیں، جبکہ اسحاق بن راہویہ اور اہل ظاہر کہتے ہیں کہ قضا واجب نہیں ہے، بلکہ صرف اس دن سورج ڈوبنے تک کھانے پینے سے رکا رہے گا، علامہ ابن تیمیه رحمہ اللہ اور علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔ لیکن احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ قضا کر لی جائے۔

روزے دار کے لیے غیبت، فحش گفتگو اور جھوٹ سے بچنا
❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : قال الله: كل عمل ابن آدم له إلا الصيام، فإنه لي وأنا أجزي به. والصيام جنة، وإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولا يصخب، فإن سابه أحد أو قاتله، فليقل انى امرؤ صائم»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انسان کا ہر عمل اس کے اپنے لیے ہوتا ہے، سوائے روزے کے، کہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ روزہ ایک ڈھال ہے، لہٰذاجب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو نہ وہ بدکلامی کرے اور نہ شور شرابہ، اور اگر کوئی گالم گلوج یا لڑائی کرے تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔“ [صحيح بخاري 1904، صحيح مسلم 151 : 163]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، عن النبى صلى الله عليه وسلم : لا تساب وأنت صائم، فإن سابك أحد فقل: إني صائم، وإن كنت قائما فاجلس.»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”روزے کی حالت میں رہو تو گالی نہ دو، اور اگر کوئی تمہیں گالی دے تو کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں، اور اگر تم کھڑے ہو تو بیٹھ جاؤ۔“ [صحيح ابن خزيمه 1994، حسن]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : من لم يدع قول الزور والعمل به، فليس لله حاجة فى أن يدع طعامه
وشرابه.
»
«وفي رواية: من لم يدع قول الزور والعمل به والجهل، فليس لله حاجة أن يدع طعامه وشرابه»
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو الله تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري 1903]
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی جھوٹ بولنا، اس پر عمل کرنا اور جہالت نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔“ [صحيح بخاري 2057]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : رب صائم ليس له من صيامه إلا الجوع، ورب قائم ليس له من قيامه إلا السهر. »
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بہت سے روزے داروں کو ان کے روزے سے صرف بھوک نصیب ہوتی ہے، اور بہت سے عبادت گزاروں کو ان کی راتوں کی عبادت سے صرف رات کا جاگنا نصیب ہوتا ہے۔“ [سنن ابن ماجه 1690، حسن]

❀ «عن أبى هريرة رضي الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إن الصيام ليس من الأكل والشرب فقط، إنما الصيام من اللغو والرفث، فإن سابك أحد، أو جهل عليك، فقل: إني صائم”. »
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”روزه صرف کھانے پینے کو چھوڑ دینے کا نام نہیں ہے، بلکہ روزہ فضول اور فحش باتوں کو چھوڑ دینا ہے، اور اگر کوئی تمہیں گالی دے یا تمہارے ساتھ جہالت سے پیش آئے تو کہہ دو کہ میں روزے سے ہوں“۔ [صحيح ابن حبان 3479، صحيح ابن خزيمه 1996، حسن]

گرمی اور پیاس کی شدت کی وجہ سے روزے دار کے اوپر پانی گرانا
❀ «عن أبى بكر بن عبد الرحمن، عن بعض أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر الناس فى سفره عام الفتح بالفطر، وقال: تقووا لعدوكم، وصام رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال أبو بكر: قال الذى حدثني: لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم بالعرج يصب الماء على رأسه من العطش أو من الحر. ثم قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم : يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، إن طائفة من الناس قد صاموا حين صمت . قال: فلما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بالكديد دعا بقدح، فشرب، فأفطر الناس. »
ابو بکر بن عبد الرحمن بعض صحابہ رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے سال لوگوں کو سفر میں روزہ نہ رکھنے کا حکم دیا، اور فرمایا: ”اپنے دشمن کے مقابلے کے لیے طاقتور بنو۔“
ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جس نے مجھ سے یہ حدیث بیان کی اس نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ عرج کے مقام پر پیاس یا گرمی کی وجہ سے اپنے سر پر پانی ڈال رہے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: اے اللہ کے رسول ! آپ نے روزہ رکھا تو بعض لوگوں نے بھی روزہ رکھ لیا ہے۔ تو جب رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کدید کے مقام پر پہنچے تو ایک پیالہ پانی منگوایا اور پی لیا تب لوگوں نے بھی روزہ کھول دیا۔ [موطا امام مالك، كتاب الصيام، 22]

روزے دار کے لیے ناک میں پانی ڈالنے میں مبالغہ کرنے کی کراہیت
❀ «عن لقيط بن صبرة الله عنه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :بالغ فى الإستنشاق، إلا أن تكون صائما. »
حضرت لقیط بن صبر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ناک میں پانی ڈالو تو خوب اوپر تک پہنچا دو، الا یہ کہ تم روزے میں حالت میں ہو (تو ایسا مت کرو)۔“ [سنن ابو داود 2366، سنن ترمذي 788، سنن نسائي 87، سنن ابن ماجه 407، صحيح]

اس تحریر کو اب تک 8 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply