سجدہ سہو کا حکم

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : اگر نمازی بھول کر رکعات میں کمی بیشی کر بیٹھے تو اس کا حل کیا ہے ؟ نیز سجدہ سہو کا مسنون طریقہ بتا دیں۔

جواب : اگر کوئی آدمی بھول کر ایک رکعت کم پڑھ بیٹھے، پھر اسے یاد آ جائے کہ میں نے ایک رکعت کم پڑھی ہے تو اسے پوری نماز دہرانے کی بجائے ایک رکعت ہی ادا کر لینی چاہئیے، جیسا کہ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عصر پڑھائی اور تین رکعت ادا کر کے سلام پھیر دیا پھر اپنے گھر چلے گئے پھر ایک شخص جسے خرباق کہا جاتا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جا کر بتایا کہ نماز میں سہو واقع ہوا ہے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں اپنی چادر کھینچتے ہوئے لوگوں کے پاس آئے اور پوچھا:

اَصَدَقَ هٰذَا ؟ قَالُوْا نَعَمْ فَصَلّٰي رَكْعَةً ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ سَجَدَ سَجْدَتَيْنِ ثُمَّ سَلَّمَ [ مسلم، كتاب المساجد : باب السهو فى الصلاة والسجود له 574 ]
”کیا اس نے سچ کہا: ہے ؟“ صحابہ نے عرض کیا : ”ہاں !“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت نماز ادا کی، پھر سلام پھیرا، پھر دو سجدے کیے اور پھر سلام پھیرا“۔

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کی نماز ایک رکعت کم ہو گئی اور اس نے تین رکعت ادا کر لی ہوں اگرچہ اس دوران کچھ باتیں بھی ہو چکی ہوں تو وہ باقی ایک رکعت ہی ادا کر کے سلام پھیرے اور سجدہ سہو کر لے۔ سجدہ سہو کے بارے میں دو قسم کی احادیث مروی ہیں۔ ایک حدیث میں سلام سے پہلے سجدہ سہو کا ذکر ہے اور ایک حدیث میں سلام کے بعد سجدہ سہو کا ذکر ہے۔ جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک روایت میں آتا ہے :

ثُمَّ يَسْجُدُ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ اَنْ يُّسَلِّمَ [مسلم، كتاب المساجد : باب السهو فى الصلاة 571 ]
”پھر سلام سے قبل دو سہو کے سجدے کیے۔“

اس کا طریقہ یہ ہے کہ آخری قعدے میں تشہد، درود اور دعا کے بعد اللہ اکبر کہہ کر سجدے میں جائے، پھر اٹھ کر بیٹھ جائے، پھر سجدہ کر کے سلام پھیر دے۔ سلام سے پہلے سجدہ سہو کا جو طریقہ ہے وہ متفق علیہ ہے اور جو سجدہ سہو سلام کے بعد مذکور ہے وہ متفق علیہ تو نہیں لیکن صحیح حدیث سے ثابت ہے اور جائز عمل ہے۔

احناف کے ہاں جو سجدہ سہو کا طریقہ معروف ہے کہ التحیات عبده ورسوله تک پڑھ کر ایک طرف سلام پھیرا جائے پھر پورا تشہد پڑھ کر سلام پھیر دیا جائے، یہ طریقہ کسی صحیح حدیث میں موجود نہیں ہے، اس کی کوئی اصل نہیں۔

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔