روزہ افطار کرتے وقت کون کون سی دعائیں پڑھنی چاہیے؟

قاری اسامہ بن عبد السلام حفظہ اللہ

سوال:اسلام و علیکم، روزہ افطار کرتے وقت کون کون سی دعائیں پڑھنی چاہیے قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں ؟

جواب: وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکتہ
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اکرم   صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کی رو سے کھانا کھاتے وقت یا وضو وغیرہ کرتے وقت صرف بسم اللہ ہی پڑھنا ثابت ہے۔ مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا آپ کے قول و عمل سے ثابت نہیں۔

پھر اس کے بعد یہ دعا پڑھتے

عمر رضي اللہ تعالی فرماتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی روزہ افطار کرتے تو مندرجہ ذيل دعا پڑھا کرتے تھے

(( ذَهَبَ الظَّمَأُ، وَابْتَلَّتِ الْعُرُوقُ، وَثَبَتَ الْأَجْرُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ))

ترجمہ: پیاس جاتی رہی ، اوررگیں تر ہوگئيں ، اوران شاء اللہ اجرثابت ہوگيا ۔

سنن ابوداود حدیث ( 2357 ) سنن الدار قطنی حدیث ( 25 ) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے التلخيص الحبیر ( 2 / 202 ) میں کہا ہے کہ دارقطنی نے اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔

عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ` رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی“۔ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کو سنا کہ جب وہ افطار کرتے تو یہ دعا پڑھتے:

((اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُك بِرَحْمَتِكَ الَّتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ، أَنْ تَغْفِرَ لِي))

ترجمہ: اے اللہ! میں تیری رحمت کے ذریعہ سوال کرتا ہوں جو ہر چیز کو وسیع ہے کہ مجھے بخش دے

أخرجه ابنُ ماجه: أبواب الصِّيام، بابٌ في الصَّائم لا تُردّ دعوته، برقم (1753)، “إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل” (4/41)، برقم (921).

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

تنبیہ

لیکن وہ دعا جو اس وقت لوگوں میں عام ہے اورافطاری کے وقت مندرجہ ذيل دعا پڑھی جاتی ہے وہ صحیح نہیں وہ حدیث مرسل اور ضعیف ہے : جیسا جو حدیث پیش کی جاتی ھے حضرت معاذ بن زہرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے تھے :
((اَللَّهُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ))

ترجمہ: اے اﷲ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے ہی دیے ہوئے رزق پر افطار کی۔‘

أبو داؤد، السنن، کتاب الصوم، باب القول عند الإفطار، 2 :  294، رقم :  2358 )’

نوٹ اس روایت میں جو وجہ ضعف ھیں
(1)اس کے راوی معاذ ایک تو لین الحدیث ہیں،

(2)دوسرے ارسال کئے ہوئے ہیں

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
السند مرسل
معاذ بن زھرة من التابعين
وجاء في تقريب التهذيب (6731): ”مجهول“ ووثقه ابن حبان وحده

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔