دوران جماعت صف بندی

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

أَقِيمُوا الصُّفُوفَ فَإِنِّي أَرَاكُمْ خَلْفَ ظَهْرِي
”دوران جماعت اپنی صفوں کو سیدھا رکھا کرو میں تمہیں اپنے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔ “ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 718]
فوائد :
صفوں کو کیسے سیدھا کیا جائے۔ اس کے متعلق سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
ہم میں سے ہر ایک اپنا کندھا اپنے ساتھی کے کندھے کے ساتھ اور اپنا پاؤں اپنے ساتھی کے پاؤں سے ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 725]
سیدنا نعمان بن بشیر نے صف بندی کی کیفیت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے۔ ہم میں سے ہر آدمی اپنے ٹخنے کو دوسرے ساتھی کے ٹخنے کے ساتھ ملا کر کھڑا ہوتا تھا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 725]
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ نے صف بندی کی مذکورہ کیفیت اس وقت بیان کی جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا : ”صفوں کو سیدھا کرو“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ ان الفاظ کو دہرایا، اللہ کی قسم ! صفوں کو سیدھا رکھو، بصورت دیگر اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں ٹیڑھ پن پیدا کر دے گا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف : 662]
بعض روایات میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ اگر میں آج اپنے ساتھی کے قدم سے قدم اور ٹخنے سے ٹخنا ملانے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ سرکش خچر کی طرح بدکتا اور دور بھاگتا ہے۔ [فتح الباري : 274/2 ]
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کا عہد ختم ہوتے ہی مسلمان اس سنت سے غافل ہو گئے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق صفوں کو سیدھا کرنے اور قدم سے قدم ملانے کا عمل ایک اجنبی عمل بن گیا تھا۔ جس پر سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو اظہار افسوس کرنا پڑا۔ امام محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ صف میں کوئی شگاف نہیں چھوڑنا چاہئے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔ [كتاب الآثار : 192/1]
افسوس کہ آج یہ عمل متروک ہو گیا ہے حالانکہ یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے۔

اس تحریر کو اب تک 5 بار پڑھا جا چکا ہے۔