اسفار بالصبح سے مراد کہ قرآت اندھیرے میں شروع کی جائے

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ عَلَ: أَصْبِحُوا بِالصُّبْحِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لا جُورِكُمْ أَوْ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ۔ أخْرَجَهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَةَ
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہتے ہیں که رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”صبح کی نماز روشنی میں پڑھو یہ تمہارے لیے بڑے اجروں یا بڑے اجر وثواب کا باعث ہو گا ۔ [ابوداؤد، ابن ماجه]
تحقيق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ مسند امام احمد بن حنبل: 4/140، ابوداؤد : 424 ، نسائی : 1/ 272 ابن ماجه : 672
وَفِي رِوَايَةِ التَّرْمَذِي: أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ فَإِنَّهُ أَعْظَمُ لِلْأَجْرِ وَحَسَنَهُ
ترمذی کی روایت میں ہے” فجر کی نماز روشنی میں پڑھو یہ اجر و ثواب کے اعتبار سے بڑی نیکی ہے۔“ ترمذی نے اسے حسن قرار دیا ۔
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ ترمذی ، 154 اور کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے ۔
وَفِي لَفْظُ لِلطَّحَاوِيِّ: أَسْفِرُوا بِالْفَجْرِ، فَكَلَّمَا أَسْفَرْتُمْ بِالْفَجْرِ فَهُوَ أَعْظَمُ لِلْاجْرِ، أَوْ قَالَ: لأجُورِكُمْ
طحاوی میں الفاظ یہ ہیں : ” فجر کی نماز روشنی میں پڑھو جب بھی تم فجر کی نماز روشنی میں پڑھو گے تو وہ اجر و ثواب کے اعتبار سے یا تمہارے لیے بڑے اجر و ثواب کا باعث ہو گی ۔ “
تحقیق و تخریج :
یہ حدیث صحیح ہے ۔ معانی الآثار : 1/ 178، نسائی : 1/ 272؛ ابن حبان : 263۔
فوائد :
➊ ظاہر میں یہ احادیث مخالفت کر رہی ہیں اندھیرے میں نماز پڑھنے والی حدیث کی لیکن حقیقت میں دونوں طرح کی احادیث میں تعارض نہیں ہے ۔ ”اسفار بالصبح“ سے مراد یہ ہے کہ قرآت اندھیرے میں شروع کی جائے اور اتنی لمبی قرآت کی جائے کہ صبح رو شن ہو جائے (ابن قیم ، طحاوی) یہ ایک توجیہ ہے دوسری توجیہ یہ ہے کہ ”اسفار“ کا مطلب یہ ہے کہ صبح صادق ہونے میں کوئی ریب باقی نہ رہے (احمد، شافعی) پہلی وجہ زیادہ اچھی ہے ۔ کیونکہ اس بارے میں احادیث مرد یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ”غلس“ میں نماز پڑھنے کو بیان کرتی ہیں ۔
➋ صبح صبح نماز کا اہتمام کرنا اجر کے لحاظ کے عظیم عمل ہے ۔ اجر معاوضہ کا نام ہے ہر عامل کے عمل پر اجرت دینا اسلام نے متعارف کروایا ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔