خاوندکا انتخاب اور شادی سے قبل تعلقات

خاوند کا انتخاب

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : وہ اہم امور کون سے ہیں جن کی بنا پر ایک دوشیزہ کو اپنے رفیق حیات کا انتخاب کرنا چاہئیے ؟ اور کیا دنیوی اغراض کیلئے ایک نیک خاوند کو ٹھکرا دینا عذاب الٰہی کا پیش خیمہ ہے ؟
جواب : جن اہم امور کی بنا پر ایک خاتون کو اپنے لئے رفیق حیات کا انتخاب کرنا چاہئیے ان میں سے سرفہرست یہ ہیں کہ وہ دین دار اور صاحب اخلاق ہو۔ جہاں تک مال اور حسب و نسب کا تعلق ہے، تو یہ ثانوی چیزیں ہیں۔ اہم ترین بات یہ ہے کہ منگنی کا پیغام دینے والا شخص بااخلاق اور دین دار ہو، کیونکہ ایسے شوہر سے عورت کچھ بھی گم نہیں پاتی، اگر وہ اسے بیوی بنا کر رکھے گا تو اچھے طریقے سے رکھے گا اور اگر چھوڑے گا تو احسان کے ساتھ چھوڑے گا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ دین و اخلاق سے متصف خاوند، عورت اور اس کی اولاو کے لئے باعث برکت ہوتا ہے کہ جو اس سے دین و اخلاق کا درس لے گی۔
اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو ایسے خاوند سے بچنا ہی بہتر ہے، خاص طور پر ایسے لوگوں سے جو نماز میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا شراب نوشی میں بدنام ہیں۔ نعوذ باالله من ذلك
جہاں تک ایسے لوگوں کا تعلق ہے جو سرے سے نماز نہیں پڑھتے، تو وہ کافر ہیں۔ ان کے لئے مومن عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ وہ مومن عورتوں کے لئے حلال ہیں۔ الغرض رفیق حیات کے انتخاب کے لئے عورت کو دین و اخلاق پر پوری توجہ دینی چاہئیے۔ رہا نسب کا معاملہ، تو اگر وہ حاصل ہو سکے تو بہت بہتر ہے کیونکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار ہے :
اذا اتاكم من ترضون خلقه ودينه فزوجوه [ ابن ماجه كتاب النكاح باب 46 ]
”جب تمہارے پاس ایسا شخص شادی کا پیغام سے کر آئے جس کے دین اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کر دو۔ “ لیکن تمام اوصاف میں برابر والا اگر میسر آ جائے تو وہ افضل ہے۔ “

شادی سے قبل تعلقات

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : شادی سے پہلے تعلقات کے متعلق دین کیا کہتا ہے؟
جواب : شادی سے پہلے والے تعلقات سے سائل کی مراد اگر نکاح کے بعد اور دخول سے قبل کے تعلقات ہیں تو ان میں کوئی حرج نہیں، کیوں کہ عورت عقد نکاح سے بیوی بن جاتی ہے اگرچہ دخول کے مراسم ادا نہ ہوئے ہوں۔ اور اگر تعلقات سے مراد عقد نکاح سے قبل، منگنی کے بعد کے تعلقات ہیں تو ایسے تعلقات حرام ہیں۔ کسی انسان کے لئے ہرگز یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کسی غیر محرم عورت سے گفتگو، نظر یا خلوت وغیرہ کے ذریعے لطف اندوز ہو۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشار ہے :
لا يخلون رجل بامرأة إلأ مع ذى محرم، ولا تسافر امرأة إلأ مع ذي محرم [ صحيح البخاري و صحيح مسلم ]
” کوئی آدمی کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر خلوت نہ اپنائے، اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔ “
حاصل کلام یہ ہے کہ عقد نکاح کے بعد والے تعلقات میں کوئی حرج نہیں ہے، جبکہ عقد سے پہلے کے تعلقات ناجائز اور حرام ہیں چاہے وہ منگنی کے بعد ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ عورت نکاح ہوئے تک ان کے لئے بیگانی ہے۔

دوران مجامعت عزل کرنا

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : عورت کے لئے مانع حمل گولیاں استعمال کرنا کب جائز اور کب حرام ہیں ؟ کیا تحدید نسل (خاندانی منصوبہ بندی) کے بارے میں کوئی صریح نص یا فقہی رائے موجود ہے ؟ اور کیا بغیر کسی (معقول) سبب کے کوئی مسلمان خاوند دوران جماع بیوی سے عزل کر سکتا ہے ؟
جواب : جہاں تک ہو سکے مسلمانوں کو اپنی نسل بڑھانی چاہیے، اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جانب ہماری توجہ مبذول کرائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
تزوجوا الولود الودود فإنى مكاثر بكم الأمم [ مسند أحمد و صحيح ابن حبان]
”محبت کرنے والی، زیادہ بچے جننے والی عورتوں سے شادی کرو۔ میں تمہاری کثرت کی وجہ سے فخر کروں گا۔ “
نیز اس لئے بھی کہ کثرت نسل کثرت امت ہے اور امت کی کثرت اس کی ایک قوت ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل پر احسان جتلاتے ہوئے فرمایا:
وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا [ 17-الإسراء:6]
”اور ہم نے تمہیں بہت بڑی جماعت بنا دیا۔ “
حضرت شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے (اللہ تعالیٰٰ کا احسان جتلاتے ہوئے) فرمایا تھا :
وَاذْكُرُوا إِذْ كُنْتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ [7-الأعراف:1]
”اور وہ وقت یاد کرو جب تم تھوڑے تھے پس اس نے تمہیں زیادہ کر دیا۔ “
اس امر سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ امت کی کثرت اس کی طاقت اور عزت کا سبب ہے، بعض بدگمان اور کج فہم لوگوں کے اس دعوی کے برعکس کہ کثرت امت اس کے فقر و فاقہ اور بھوک و افلاس کا سبب ہے۔ جب امت زیادہ تعداد میں ہو گی اور اس کا ذات باری تعالیٰ پر ایمان ہو گا اور اس کے اس وعدہ پر یقین ہو گا:
وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللَّـهِ رِزْقُهَا [ 11-هود:6]
”اور زمین پر چلنے پھرنے والے جتنے جاندار ہیں ان کی روزیاں اللہ تعالیٰٰ کے ذ مے ہیں۔ “
تو اللہ تعالٰی اس کا معاملہ آسان فرما دے گا اور اپنے فضل و کرم سے اسے غیروں کا دست نگر بننے سے بے نیاز فرما دے گا۔ اس تفصیل سے مذکورہ بالا سوال کا جواب واضح ہو گیا۔ پس دو شرطوں کے بغیر مانع حمل گولیوں کا استعمال کسی عورت کے لئے جائز نہیں :
پہلی شرط یہ ہے کہ عورت کو اس کی ضرورت ہو، مثلاً وہ مریضہ ہے اور ہر سال حمل کی طاقت نہیں رکھتی۔ وہ جسمانی طور پر کمزور ہو یا ایسی کوئی اور رکاوٹیں ہیں جو ہر سال حمل کی صورت میں اس کے لئے باعث نقصان ہیں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ اس بات کی اجازت اس کا خاوند بھی دے کیونکہ بچے اور ان کی پیدائش کا حق خاوند کو حاصل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مانع حمل گولیوں کے استعمال کے لئے ڈاکٹر سے مشورہ کرنا ضروری ہے کہ آیا ان کا استعمال نقصان دہ تو نہیں۔
مذکورہ بالا دونوں شرطیں پوری ہونے پر عورت مائع حمل گولیوں کا استعمال کر سکتی ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ ان گولیوں کا استعمال ہمیشہ کے لئے، عمل تولید کو روکنے کی خاطر نہ کرے، کیوں کہ اس میں قطع نسل کا خطرہ موجود ہے۔ جہاں تک سوال کے دوسرے حصے کا تعلق ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ فی الواقع خاندانی منصوبہ بندی ناممکن ہے اس لئے کہ حمل یا عدم اللہ تعالیٰٰ کے قبضہ قدرت میں ہے۔
پھر جب کوئی انسان بچوں کے لئے کوئی عددی حد مقرر کر لے تو اس تعداد کا ایک ہی سال میں کسی وباء یا حادثے کی بناء پر خاتمہ بھی ممکن ہے، اس صورت میں تو آدمی اولاد اور نسل کے بغیر رہ جائے گا۔ شریعت اسلامیہ میں خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی حکم موجود نہیں سے ہاں ضرورت کے پیش نظر وقتی طور پر حمل کو روکنا جائز ہے، جیسا کہ ہم نے ابھی ذکر کیا ہے۔
رہا معاملہ دوران جماع بلا سبب عزل کرنے کا تو علماء کےصحیح قول کی رو سے اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
كنا نعزل والقرآن ينزل [ صحيح البخاري، كتاب النكاح باب 97 و صحيح مسلم، كتاب الطلاق باب 26 ]
”ہم نزول قرآن کے زمانے میں عزل کیا کرے تھے۔ “ ( یعنی عہد نبوی میں ہم یہ کام کرتے تھے )۔
اگر یہ فعل حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس سے منع فرما دیتے لیکن علماء کا کہنا ہے کہ خاوند آزاد عورت کی مرضی کے بغیر اس سے عزل نہیں کر سکتا کیونکہ بچوں میں عورت کا بھی حق ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ عزل کرنے سے اس کے لطف اندوزی والے حق میں کمی آ جاتی ہے جو کہ انزال کے بعد ہی مکمل ہوتی ہے۔ اس بنا پر اس سے اجازت نہ لینا، اس کے لطف اندوزی کے حق کو نقصان پہنچاتا ہے اس سے بچوں کا نقصان بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ہم نے اس کی اجازت کی شرط لگائی ہے۔

بے نماز خاوند کے ساتھ رہنا

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میرا خاوند دین کے بارے میں بے پر وائی کا مظاہرہ کرتا ہے، وہ نہ تو نماز پڑھتا ہے اور نہ رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے بلکہ الٹا مجھے بھی ہر اچھے کام سے روکتا ہے، علاوہ ازیں وہ مجھ پر شک بھی کرنے لگا ہے، تمام کام کاج چھوڑ کر گھر بیٹھا رہتا ہے تاکہ وہ میری نگرانی کر سکے۔ دریں حالات مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟
جواب : ایسے خاوند کے پاس نہیں رہنا چاہئیے، کیونکہ وہ نماز چھوڑنے کی بنا پر کافر ہو چکا ہے اور کافر آدمی کے ساتھ مسلمان عورت کا رہنا حلال نہیں ہے۔
قرآن کہتا ہے :
فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ لَا هُنَّ حِلٌّ لَهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ [60-الممتحنة:10]
”اگر تمہیں ان کے مومن ہونے کا یقین ہو جائے تو انہیں کافروں کی طرف نہ لوٹاؤ۔ وہ (مومن عورتیں) کافروں کے لئے حلال نہیں اور نہ (وہ کافر) مومن عورتوں کے لئے حلال ہیں۔“
لہٰذا تمہارا نکا ح ٹوٹ چکا ہے، تمہارے درمیان کوئی نکا ح نہیں تاوقتیکہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت عطا فرما دے، اور وہ تائب ہو کر اسلام کی طرف لوٹ آئے، صرف اسی صورت میں رشتہ ازدواج باقی رہ سکتا ہے۔ جہاں تک آپ کے خاوند کے رویے کا تعلق ہے تو شک پر مبنی اس کا یہ طرز عمل ناروا ہے۔ میرے خیال میں وہ شک اور وسواس کی بیماری میں مبتلا ہے جو کہ بعض لوگوں کو عبادات اور دوسروں کے ساتھ معاملات کے دوران لاحق ہو جاتی ہے۔ یہ ایسی بیماری ہے کہ اسے ذکر الہیٰ انابت الی اللہ اور توکل علی اللہ کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ الغرض آپ کو ایسے خاوند سے الگ ہو جانا چاہئیے۔ وہ کافر ہے اور آپ مومنہ۔ آپ کے خاوند کو ہماری نصیحت ہے کہ وہ دین کی طرف پلٹ آئے اور شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آئے ایسے ذکر و اذکار کا اہتمام کرے جو اس کے دل سے شکوک و وساوس کو باہر نکال دے۔ ہم اس کے لئے اللہ تعالیٰ سے توفیق کی استدعا کرتے ہیں۔ والله اعلم

گمشدہ آدمی کی بیوی کا نکا ح

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : ایک شخص عرصہ دراز تک اپنی بیوی سے غائب رہا یہاں تک کہ اس کے بارے میں یقین ہو گیا کہ وہ گم ہو گیا ہے ‘ لہٰذا اس کی بیوی نے ایک دوسرے شخص سے شادی کر لی اور اس سے ایک بچہ پیدا ہوا کئی سال کے بعد پہلا خاوند واپس لوٹ آیا، کیا دوسرے خاوند سے اس کا نکا ح برقرار رہے گا یا فسخ ہو جائے گا اور کیا پہلے خاوند کو اپنی یہ بیوی واپس لینے کا حق حاصل ہے اگر ہے تو کیا نیا نکا ح کرنا ہو گا ؟
جواب : یہ مسئلہ فقہی زبان میں ”گم شدہ آدمی کی بیوی کا نکا ح“ کہلاتا ہے۔ اگر کسی عورت کا خاوند گم ہو گیا اور اس کی تلاش کی مدت گذر گئی۔ پھر اس کی موت کا فیصلہ ہو گیا اور عورت نےعدت گزار کر کسی اور آدمی سے شادی کر لی، بعد ازاں پھر گمشدہ خاوند بھی آ گیا، تو اس صورت میں پہلے خاوند کو اختیار حاصل ہے کہ وہ اس دوسرے نکاح کو اپنی حالت پر برقرار رہنے دے یا بیوی واپس لے لے۔ اگر یہ دوسرا نکاح باقی رہتا ہے تو معاملہ واضع ہے اور نکاح بھی درست ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتا،( بلکہ) اپنی بیوی واپس لینا چاہتا ہے تو وہ واپس آ جائے گی مگر وہ اس سے مجامعت نہیں کر سکتا تاوقتیکہ وہ دوسرے خاوند کی عدت نہ گزارے۔ پہلے خاوند کو نیا نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی ؟ کیونکہ پہلا نکاح کسی بھی وجہ سے باطل نہیں ہوا کہ جس کی بنا پر نیا نکاح کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ جہاں تک عورت سے دوسرے خاوند کے بچے کا تعلق ہے تو وہ قانونی بچہ ہے، اجازت شدہ نکاح شرعی کا نتیجہ ہے، لہٰذا اپنے باپ کی طرف منسوب ہو گا۔

غیر محدود نظر

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : کیا استمتاع بالحلال کی نیت سے میاں بیوی کا ایک دوسرے کو مکمل طور پر دیکھنا شرعاًحلال ہے ؟
جواب : میاں بیوی کیلئے ایک دوسرے کے سارے بدن کو دیکھنا جائز ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ٭ إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ٭ فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَـئِكَ هُمُ الْعَادُونَ [70-المعارج:29]
”اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، ہاں اگر اپنی بیویوں اور باندیوں سے حفاظت نہ کریں تو ان پر کوئی ملامت نہیں البتہ جو کوئی اس کے علاوہ اور ڈھونڈیں تو یہ لوگ شرعی حد سے نکلنے والے ہیں۔ “

تعلیم کی تکمیل تک کسی دوشیزہ کی شادی کو مؤخر کرنا

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : ایک عام عادت ہے کہ لڑکی یا اس کا باپ لڑکے کی طرف سے شادی کے پیغام کو اس لئے رد کر دیتے ہیں کہ لڑکی نے ابھی کالج یا یونیورسٹی تعلیم مکمل کرنی ہے، یا اسے چند سال تک مزید زیر تعلیم رہنا ہے، اس کا کیا حکم ہے ؟ اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں انہیں آپ کیا نصیحت کرنا چاہیں گے : یہ بات قابل ذکر ہے کہ اکثر لڑکیاں شادی کئے بغیر تیس سال یا اس سے بھی زیادہ عمر کی ہو جاتی ہیں۔
جواب : ایسا رویہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کی صریح خلاف ورزی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
اذا أتاكم من ترضون خلقه و دينهٔ فزوجوه [ابن ماجه، كتاب النكاح باب 46 ]
”جب تمہارے پاس کوئی ایسا شخص نکاح کا پیغام لے کر آئے جس کے دین اور خلق کو تم پسند کرتے ہو تو اس سے نکاح کرا دو۔“
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
يامعشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج فإنه أغض للبصر واحصن للفرج [ متفق عليه ]
”اے نوجوانو ! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہو وہ شادی کر لے۔ شادی نگاہوں کو جھکا دینے والی اور شرم گاہ کو انتہائی محفوظ رکھنے والی ہے۔“
شادی سے انکار شادی کے مقاصد و مصالح کو فوت کر دیتا ہے۔
مسلمان لڑکیوں اور ان کے سرپرستوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ درس و تدریس کو بہانہ بنا کر شادی سے انکار نہ کریں، البتہ یہ ممکن ہے کہ لڑکی بوقت نکاح لڑکے سے۔ تعلیم مکمل کرنے کی شرط طے کر لے۔ اسی طرح جب تک وہ بچوں کی مصروفیت میں نہیں پڑتی سال دو سال کیلئے تدریس کا سلسلہ جاری رکھنے کی شرط عائد کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔ رہا یونیورسٹی کی سطح تک اعلیٰ تعلیم میں عورت کی ترقی کا مسئلہ، تو ہمارے معاشرے کو اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ میں جو کچھ سمجھ پایا ہوں وہ یہ ہے کہ اگر عورت ابتدائی تعلیمی مرحلہ مکمل کر کے لکھنا پڑھنا جان لے، قرآن مجید، اس کی تفسیر، احادیث نبویہ اور ان کی تشریحات سے فائدہ اٹھانے کے قابل ہو جائے تو یہی کافی ہے۔ ہاں ایسے علوم میں ترقی کرنا جو لوگوں کے لئے اشد ضروری ہیں مثلاً ڈاکٹری یا دیگر علوم تو ان کے حصول میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اس مرحلے میں مخلوط تعلیم جیسی قباحتیں نہ ہوں۔

حائضہ سے نکاح کا حکم

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : میں ایک نوجوان لڑکی ہوں، کچھ عرصہ قبل ایک نوجوان کے ساتھ شادی کا پروگرام طے ہوا، اگر اتفاقًا اس دوران میں حیض سے دوچار تھی۔ میں نے نکاح خواں سے دریافت کیا : کیا ان ایام میں نکاح ہو سکتا ہے ؟ اس نے تو جواز کا فیصلہ دے دیا مگر اس پر میں خود مطمئن نہ ہوئی۔ آپ سے یہ دریافت کرنا ہے کہ کیا یہ نکاح صحیح ہے ؟ اور اگر صحیح نہیں تو کیا دوبارہ کرنا ہو گا ؟
جواب : دوران حیض عورت سے نکاح جائز اور درست ہے۔ اس میں قطعاً کوئی حرج نہیں ہے، اس لئے کہ عقود نکاح میں اصل چیز اس کا حلال اور صحیح ہونا ہے۔ جبکہ حالت حیض میں تحریم نکاح کی کوئی دلیل نہیں۔ اگر صورت حال اس طرح کی ہو تو نکاح درست ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔ یہاں نکاح اور طلاق کے مابین فرق کو سمجھنا ضروری ہے۔ دوران حیض طلاق دینا ناجائز بلکہ حرام ہے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پہنچی کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو ایام حیض کے دوران طلاق دی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور اسے حکم دیا کہ وہ بیوی سے رجوع کرے، پھر آئندہ طہر تک اسے چھوڑے رکھے، پھر چاہے تو اسے طلاق دے دے اور اگر چاہے تو روک لے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّـهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّـهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ [64-الطلاق:1 ]
”اے نبی ! (لوگوں سے کہ دیجئے کہ) جب تم اپنی بیویوں کو طلاق دینا چاہو تو ان کی عدت میں انہیں طلاق دو اور عدت کا حساب رکھو اور اپنے اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا پروردگار ہے، نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں۔ بجز اس صورت میں کہ وہ کھلی بےحیائی کر بیٹھٰیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی حدود سے تجاوز کرے گا یقیناً وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا۔ “
لہٰذا دوران حیض طلاق دینا یا اس طہر میں طلاق دینا جس میں اس نے بیوی سے جماع کیا ہو جائز نہیں ہے، سوائے اس صورت میں کہ حمل ظاہر ہو جائے۔ اور اگر حمل ظاہر ہو جائے تو جب چاہے طلاق دے سکتا ہے، یہ طلاق واقع ہو جائے گی۔ عام لوگوں میں ایک عجیب و غریب بات مشہور ہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق واقع نہیں ہوتی، یہ بات درست نہیں ہے حاملہ عورت کو دی گئی طلاقی مؤثر ہو جاتی ہے اور تمام طلاقوں میں مدت کے اعتبار سے یہ زیادہ وسیع طلاق سے، لہٰذا حاملہ عورت کو طلاق دینا آدمی کے لئے حلال ہے۔ اگر اس نے غیر حاملہ عورت سے کچھ ہی عرصہ قبل جماع کیا ہو تو پھر اس پر انتظار کرنا ضروری ہے حتیٰ کہ عورت حائضہ ہو جائے اور پھر پاک ہو یا یہ کہ حمل واضح ہو جائے۔ سورۂ طلاق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَنْ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ [64-الطلاق:1 ]
”اور حاملہ عورتوں کی عدت وضح حمل ہے۔ “
یہ اس امر کی واضح دلیل ہے کہ دوران حمل دی گئی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں یوں بھی ہے :
مرهٔ فلير اجعها ثم ليطلقها طاهرا او حاملا
”اسے حکم دو کہ وہ اس سے رجوع کرے پھر طہر یا حمل کی حالت میں اسے طلاق دے۔ “
جب یہ بات واضح ہو گئی کہ دوران حیض عورت سے نکاح کرنا جائز اور صحیح ہے تو میری رائے میں خاوند کو طہر تک بیوی کے پاس نہیں جانا چاہیے، اس لئے کہ اگر وہ طہر سے پہلے اس کے پاس جائے گا تو اس بات کا خطرہ ہے کہ وہ کہیں دوران حیض ممنورع کام کا ارتکاب نہ کر بیٹھے، شاید وہ اپنے آپ پر کنٹرول نہ کر سکے، خاص طور پر جب وہ جوان ہو تو اسے طہر تک انتظار کرنا چاہئیے تب وہ بیوی کے ساتھ اس وقت مجامعت کرے جب وہ شرمگاہ سے لطف اندوز ہونے پر قادر ہو۔ والله اعلم

بیوی کے دبر میں جماع کرنے کا حکم

————–

فتویٰ : شیخ محمد بن صالح عثیمین حفظ اللہ

سوال : ایک شخص نے اپنی بیوی سے اس کی دبر میں اپنی خواہش پوری کرنے کا مطالبہ کیا۔ کیا دینی نقطہ نظر سے اس کا یہ عمل درست ہے ؟
جواب : یہ عمل منکر ہے۔ تحقیق ابوداؤد اور نسائی وغیرہ سے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
ملعون من اتي امر اته فى دبرها
”اپنی بیوی کی دبر میں جماع کرنے والا لعنتی ہے۔ “

اس تحریر کو اب تک 15 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply