مساجد میں عورتوں کے اجتماعات کا کیا حکم ہے ؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا خواتین مساجد میں تبلیغی اجتماعات منعقد کر سکتی ہیں ؟ قرآن و سنت کی رو سے جواب دیں۔

جواب : دعوت وتبلیغ ہر مسلمان کا حق ہے خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اللہ وحدہ لا شریک لہ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر جس طرح مردوں کا وظیفہ ذکر کیا ہے اسی طرح عورتوں کے بارے میں بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُوْنَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكَاةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهُ أُوْلٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ اللهُ إِنَّ اللهَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ﴾ [ التوبة : 71 ]
”مومن مرد و زن آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اچھی بات کا حکم کرتے ہیں اور بری بات سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ تعالیٰ غلبے والا اور حکمت والا ہے۔ “

اس آیت کریمہ میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ مومن مرد اور مومنہ عورت کی صفات و خوبیوں میں سے ایک خوبی اور صفت امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے، جس طرح مرد کو اچھی بات کہنے اور بری بات سے روکنے کا حکم ہے اسی طرح عورت کو بھی یہ حق ہے کہ وہ اچھی بات کا حکم دے اور بری بات سے منع کرے۔ یاد رہے صدرِ اول میں مردوں کے اجتماعات شکل و صورت کے اعتبار سے ہمارے آج کے جلسوں اور کانفرنسوں کی طرح نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کا جواز دعوت و تبلیغ کی عمومی آیات و احادیث سے ماخوذ ہے۔ اسی طرح عورتوں کا معاملہ بھی سمجھ لینا چاہئیے کہ ان کے لیے بھی دعوت و تبلیغ کا ہر وہ طریقہ درست ہو گا جس میں وہ شرعی حدود کا خیال رکھتے ہوئے اپنے گھر سے نکلیں، مثلاً عورت باپردہ ہو، مہکنے والی خوشبو لگا کر نہ نکلے، فیشن ایبل ہو کر نہ نکلے اور مردوں سے اختلاط نہ ہو۔ اس طرح اجتماعات میں شریک نہ ہوں جیسے آج کل گلوکارائیں اور اداکارائیں فیشن ایبل ہو کر اسٹیج پر نمودار ہوتی ہیں۔ یوں معلوم نہ ہو کہ وہ کسی فیشن شو یا حسن و آرائش کے مقابلہ کے لیے آئی ہیں بلکہ مکمل طور پر شرعی لباس میں ملبوس اور آرائش ونمائش سے مبرا ہو کر دعوت و تبلیغ کے اجتماعات میں آئیں اور اگر تبلیغی اجتماع گھر سے دور ہو تو ایسے سفر پر نکلنے کے لیے اپنے محرم کو ساتھ لے کر جائیں۔ محرم کے بغیر بالکل سفر نہ کریں۔ ان تمام شرعی حدود کو مدنظر رکھ کر عورتیں مساجد میں اپنا دعوت و تبلیغ کا پروگرام منعقد کر سکتی ہیں۔ مساجد دینِ اسلام کا شعائر ہیں اور ان
کا مقصد انہیں آباد کرنا ہے اور مساجد کی آبادی نماز، روزہ، تلاوت، ذکر و اذکار، قرآن و سنت کی تعلیم و تبلیغ اور عبادات ہی سے ممکن ہے۔ جس طرح مسجد کو آباد کرنے کا مرد کو حق ہے، بالکل اسی طرح عورت کا بھی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

لَا تَمْنَعُوْا النِّسَاءَ حُظُوْظَهُنَّ مِنَ الْمَسَاجِدِ ‏‏‏‏‏‏إِذَا اسْتَأْذَنَّكُمْ [ مسلم، كتاب الصلاة : باب خروج النساء إلى المساجد 442 ]
” جب عورتیں تم سے اجازت طلب کریں تو ان کو مساجد کے حصے سے منع نہ کرو۔ “

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ مساجد میں عورتوں کا بھی حصہ ہے اور اس عموم میں تبلیغی و اصلاحی اور اسلامی اجتماعات بھی شامل ہیں۔ اسی طرح عورتوں کا مسجد میں اعتکاف بیٹھنا اور مردوں کے پیچھے آ کر نماز پڑھنا اور عیدگاہ جو مسجد کے حکم میں ہے وہاں عورتوں کو حاضر ہونے کی تاکید کرنا اور بعض بے سہارا خواتین کا مسجدِ نبوی میں قیام کرنا وغیرہ جیسے امور اس بات کے مؤید ہیں کہ عورت کو بھی مسجد میں قیام کی اجازت ہے اور مسجد میں قیام کا مقصد مسجد میں ذکر اللہ، عبادات اور وعظ و نصیحت ہے۔ لہٰذا عورتیں شرعی حدود میں رہتے ہوئے مردوں کے اختلاط سے اجتناب کرتے ہوئے مسجد میں تبلیغی اجتماع اور دعوت واصلاح کے پروگرام منعقد کر سکتی ہیں۔ اس میں کوئی شرعی مانع موجود نہیں۔

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply