جنت میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داڑھی ہو گی؟

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

والدین کی خدمت کی وجہ سے ایک قصاب کو جنت میں موسیٰ علیہ السلام کی ہمسائیگی مل گئی
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے درخواست کی، اے اللہ ! مجھے میرا جنت کا رفیق دکھا دے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : اے موسیٰ ! تو فلاں شہر میں چلا جا وہاں ایک قصاب سے جو جنت میں تیرا رفیق اور ساتھی ہو گا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس شہر میں پہنچے اور قصاب کا گھر پوچھ کر اس کے پاس تشریف لے گئے وہ اپنی دکان میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے پاس ایک زنبیل لٹکی ہوئی تھی (یعنی چمڑے کی جھولی) قصاب نے آپ کی دعوت کرنے کی درخواست کی موسیٰ علیہ السلام نے درخواست قبول کر لی وہ قصاب آپ کو لے کر گھر گیا اور کھانا آپ کے سامنے پیش کیا جب کھانا کھانے لگے تو قصاب ایک لقمہ کھاتا اور دو لقمے زنبیل میں ڈال دیتا، اسی اثناء میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا قصاب اٹھا اور زنبیل چھوڑ کر چلا گیا۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے زنبیل کو دیکھا تو اس میں ایک مرد اور ایک عورت نہایت ہی ضعیف و ناتواں ہیں۔ جب انہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیکھا تو مسکرائے اور آپ کی رسالت کی شہادت دی اور دونوں وفات پا گئے۔ جب قصاب آیا اور زنبیل دیکھی تو موسیٰ علیہ السلام کا ہاتھ چوم کر کہا:۔ کیا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول موسیٰ علیہ السلام ہیں ؟ آپ نے دریافت کیا کہ تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں موسیٰ ہوں ؟ قصاب نے بتایا کہ اس زنبیل میں میرے والدیں تھے، جو بہت ہی بوڑھے ہو گئے تھے اور میں نے انہیں زنبیل میں ڈال رکھا تھا اور میری عادت تھی کہ میں اپنے والدین سے پہلے کھاتا پیتا نہیں تھا اور وہ دونوں ہمیشہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ ! ہماری جان اس وقت نکالنا جبکہ ہم موسیٰ علیہ السلام کی زیارت سے مشرف ہوئیں۔ اب جبکہ میں نے انہیں مرا ہوا دیکھا تو جان لیا کہ آپ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے تیری ماں کو دیکھا تو اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ وہ کیا کہتی تھی ؟ قصاب نے کہا کہ میری والد محترمہ کی یہ عادت شریف تھی کہ جب میں اسے کھانا کھلاتا تو وہ یہ دعا مانگا کرتی تھی۔ اے میرے اللہ ! میرے بچے کو موسیٰ علیہ السلام کا جنت میں ساتھی بنا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا : اے قصاب تجھے مبارک ہو میں جنت میں تیرا رفیق ہوں گا۔
تحقیق الحدیث :
یہ من گھڑت اور خود ساختہ واقعہ ہے۔
اس کو نزہتہ المجالس کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے۔
مسلم خطباء اور عوام الناس میں اس واقع کو بڑی شہرت حاصل ہے۔ جبکہ یہ مردو داور باطل ہے۔
——————

جنت میں صرف حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داڑھی ہو گی
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمام اہل جنت، جنت میں اپنے ناموں سے پکارے جائیں گے سوائے حضرت آدم علیہ السلام کے۔ ان کو ابومحمد کنیت سے پکارا جائے گا اور جنتی تمام مجرد ہوں گے (یعنی کسی کی داڑھی نہیں ہو گی) لیکن جنت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی داڑھی ناف تک ہو گی۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ موضوع۔
اس کی سند من گھڑت ہے۔
اس میں وہب بن حفص متہم بالوضع ہے۔ دیکھیں : [ميزان الاعتدال 4/ 351، البدايه و النهاية 1201، ذكره العجلوني فى كشف الخفا 271/1، و عزاء لابن أبى شيبة و ابن عساكر، وذكره ابن القيسراني فى تذكرة الموضوعات 620]
——————

بی بی اپنے بیٹے کو معاف کر دے ورنہ ہم جلا دیتے ہیں، قصہ علقمہ اس کی والدہ اور بیوی کا
ابان سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نوجوان علقمہ نامی تھا بڑا عبادت گزار تھا، بکثرت صدقہ کرتا تھا اچانک وہ سخت بیمار ہوا، اس کی بیوی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا کہ میرا خاوند نزع کے عالم میں ہے میں نے سوچا کہ آپ کو اطلاع کر دوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال، حضرت علی، حضرت سلمان اور عمار رضی اللہ عنہم سے فرمایا کہ علقمہ کی خیریت معلوم کرو یہ حضرات وہاں پہنچے اور اسے لا الہ الا اللہ پڑھنے کی تلقین کی مگر علقمہ کی زبان نہ چل سکی قریب المرگ ہوا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضرت بلال رضی اللہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں بھیجا کہ اس کے حالات سے آپ کو اطلاع دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس کے والدین زندہ ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ والد تو فوت ہو چکا ہے البتہ بوڑھی ماں زندہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال علقمہ کی والدہ کے پاس جاؤ اسے میرا سلام کہو کہ اگر وہ چل سکتی ہے تو میرے پاس آئے ورنہ انتظار کرے میں اس کے پاس جاتا ہوں۔ بلال رضی اللہ عنہ نے جا کر پیغام پہنچایا تو کہنے لگی، میری جان آپ پر قربان میرا حق ہے کہ خدمت عالیہ میں حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ لاٹھی ٹیکتی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، سلام عرض کیا آپ نے سلام کا جواب دیا، وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: سچ سچ بتا اگر تو نہیں بتائے گی تو مجھے وحی سے معلوم ہو جائے گا، یہ بتاؤ علقمہ کیا عمل کرتا تھا کہنے لگی اتنی نماز پڑھتا تھا، اتنے روزے رکھتا تھا اور جو درہم پاس ہوتے صدقہ کر دیتا تھا نہ ان کا وزن معلوم ہوتا نہ شمار۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تیرے ساتھ اس کا کیا معاملہ تھا، کہنے لگی یا رسول اللہ ! میں اس سے ناراض ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیوں ؟ کہنے لگی وہ میری بجائے اپنی بیوی کو ترجیح دیتا اور میری نافرمانی کرتا تھا اس کا کہنا مانتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ماں کی ناراضگی نے اس کی زبان کو کلمہ شہادت سے روک رکھا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا : بہت سی لکڑیاں جمع کرو کہ میں اسے آگ میں جلا دو، بڑھیا کہنے لگی یا رسول الله ! کیا میرے لخت جگر کو میرے سامنے جلائیں گے مجھے کیسے برداشت ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے علقمہ کی ماں ! اللہ تعالیٰ کا عذاب اس آگ سے کہیں زیادہ سخت اور دیرپا ہے۔ اگر تجھے یہ پسند ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیں، تو تو اس سے راضی ہو جا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اسے نماز اور صدقہ فائدہ نہیں دے گا جب تک تو اس پر ناراض رہی۔ بڑھیا دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے کی یا رسول اللہ ! میں آسمان والے خدا کو، آپ کو، حاضرین مجلس کو گواہ بناتی ہوں کہ میں علقمہ سے راضی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بلال ذرا جا کر دیکھو علقمہ لا الہ الا اللہ پڑھنے لگا ہے، ممکن ہے اس کی ماں نے میری شرم کی وجہ سے ایسا کیا ہو اور دل سے نہ کہا ہو۔ بلال دروازے پر پہنچے تو علقمہ کو لا الہ الا اللہ پڑھتے سنا، اندر جا کر بتانے لگے کہ علقمہ سے والدہ کی ناراضی نے اس کی زبان کو شہادت توحید سے روک رکھا تھا اور اس کی رضامندی سے زبان کو جاری کر دیا۔ چنانچہ علقمہ اسی دن فوت ہو گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اس کے غسل اور کفن کا انتظام کیا، نماز جنازہ پڑھائی، پھر قبر کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : اے مہاجرین و انصار ! جو تم اپنی بیوی کو اپنی والدہ پر ترجیح دیتا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور اس کے فرائض و نوافل کچھ بھی قبول نہیں ہوتے۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ موضوع۔
من گھڑت روایت ہے۔
[الفوائد المحموعه فى الأحاديث الضعيفه والموضوعه۔ كتاب الادب 686/38، رواه العقلي عن عبدالله بن ابي اوفي فى اضعفاء461/3]
اس قصے کا دارومدار فائد بن عبدالرحمن ابوا لورقاء العطاء پر ہے اور یہ متروک اور کذاب ہے۔ [ابن جوزي فى الموضوعات 87/3]
ابن جوزی کہتے ہیں : یہ قصہ ثابت نہیں ہے۔
احمد بن حنبل کہتے ہیں : فائد راوی متروک۔
یحییٰ کہتے ہیں : لیس بشیء۔ یہ کچھ نہیں۔
ابن حبان کہتے ہیں : یہ قابل حجت نہیں۔
عقیلی کہتے ہیں : اس کی روایت کی کوئی متابعت نہیں کرتا۔
ابوحاتم کہتے ہیں : فائد راوی ذاہب الحدیث ہے۔ اس کی حدیث نہ لکھی جائے۔
نیز اس کی سند میں داؤد بن ابراہیم ہے ابوحاتم کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے۔
——————

بلال کو خواب میں زیارت رسول، سفر مدینہ، قبر پر حاضری اور اذان
اگرچہ یہ واقعہ مختصر ہے مگر اس میں بعض خطباء، قصہ گو واعظین نے خوب اپنی خطابت کے جوہر دکھائے ہیں اور مصنفین نے خوب طبع آزمائی کی ہے اور اسے اپنے اپنے اسلوب سے بیان اور نقل کیا ہے۔ ایک خاکہ نگار مصنف نے تو اسے اس انداز سے لکھا ہے کہ گویا یہ سو فیصد حقیقت ہو اور سچا ترین واقعہ ہو، ہم اس کو اس کے الفاظ میں نقل کرتے ہیں پھر اس پر محدثین کی، محققین کی تحقیق پیش کریں گے۔
لکھتے ہیں : عمواس شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے بستر کا رخ کیا، اپنی پلکیں بند کیں، جلد ہی نیند کی پری نے انہیں آغوش میں لے لیا وہ گہری نیند سو گئے۔ پوری کائنات پر خاموشی طاری تھی یوں معلوم ہوتا تھا کہ پوری کائنات سو گئی ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ خراٹے لینے لگے، پھر نیند ہی میں ان کے جسم نے حرکت کی ان کا چہرہ مسرت سے دمکا، ان کے ہونٹوں پر ایک خفیف سا تبسم ابھرا۔ انہوں نے خواب میں نبی حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفید لباس زیب تن فرما رکھا ہے، بلال رضی اللہ عنہ لپک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھے، سلام عرض کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑے ہوئے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ بہت خوشی محسوس کر رہے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس لبوں کو حرکت ہوئی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے کان لگا کر غور سے سننا چاہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے شکایتاً فرمایا : بلال ! یہ کتنی سخت دلی ہے، کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم ہمیں ملنے کے لیے آ جاتے۔“ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آنکھ کھل گئی تو انہیں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ کی صدائے بازگشت سنائی دینے لگی۔ بلال یہ کتنی سخت دلی ہے، بلال یہ کتنی سخت دلی ہے۔ اس وقت بلال رضی اللہ عنہ کو بہت دکھ اور افسوس ہوا، دل میں گہرا صدمہ محسوس کیا۔ پھر وہ پکار اٹھے، سخت دلی، سنگ دلی، نہیں یا رسول اللہ ! کئی سال گزر گئے اور میں نے آپ کی مسجد کی زیارت نہیں کی۔ میں آپ کو ایک لمحہ کے لیے بھی نہیں بھولا۔ میرے ہونٹ آپ کے اسم مبارک کے ورد سے بھی نہیں رکے میری زبان آپ پر درود بھیجنے سے کبھی قاصر نہیں رہی۔ میں ابھی کوچ کرتا ہوں، میں آپ کے شہر کی طرف چلتا ہوں آپ کی مسجد کی زیارت کے لیے۔
حضرت بلال دروازہ کی طرف بڑھے، دروازہ کھولا تو دیکھا کہ تاریکی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھا تو ستارے نظر آئے جو اپنی مدھم سی روشنی زمین پر بھیج رہے تھے، مگر اس روشنی سے گھمبیر اندھیرے میں کچھ کمی نہیں ہو رہی تھی۔ یہ رات بہت ہی تاریک و سیاه تھی۔ دن نکلنے سے پہلے سفر کے لیے نکلنا ممکن نہ تھا مگر صبح کب ہو گی؟ کیا بلال صبح تک انتظار کر سکیں گے ؟ ان کے سینے میں شوق کی آگ بھڑک رہی تھی وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا، بلال رضی اللہ عنہ اپنے گھر میں گھوم رہے تھے، وہ دروازے کی طرف جاتے، پھر واپس آتے، پھر انہیں خیال آیا کہ انہوں نے سامان سفر یعنی زادراہ تیار کرنا ہے، اور اب تک اس کا انتظام نہیں کیا۔ اب انہوں نے زادراہ کی تیاری شروع کر دی، تیاری ہو بھی چکی لیکن ابھی تک رات ختم نہیں ہوئی تھی حضرت بلال رضی اللہ عنہ اب رات کی طوالت سے اکتا چکے تھے۔ وہ سوچتے کہ کاش میرے پر ہوتے کہ میں اڑ کر ابھی مدینہ الرسول جا پہنچتا، اپنی محبو ب کی مسجد میں۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی بیوی کی آنکھلی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ اس کے خاوند گھر میں چل پھر رہے ہیں اور کچھ پریشان معلوم ہوتے ہیں۔ اس نے پوچھا: آپ کو کیا ہوا ہے ؟ میں یثرب جانا چاہتا ہوں۔ مگر کیوں؟
تاکہ میں نبی انور حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کی زیارت کر سکوں۔
اگر آپ طلوع فجر تک سوئے رہتے توبہتر نہ ہوتا۔
میری آنکھوں سے نیند اڑ چکی ہے۔
آخر کار فخر کے آثار نمایاں ہونے لگے، دور افق میں رو شنی کی کچھ چمک نمودار ہوئی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ تیزی سے گھر سے نکلے، اپنی سواری کی طرف بڑھے، اس پر سوار ہوئے، اسے ڈانٹا تو وہ تیزی سے مدینہ الرسول کی طرف چل پڑی۔ آپ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سواری کو تیز چلنے پر آمادہ کرتے تاکہ آپ اس قافلے سے جا میں جو ایک دن پہلے مدینہ کے لیے روانہ ہوا تھا۔ آپ کی سواری برابر بڑھتی چلی جا رہی تھی۔ ایک لمباسفر کرنے کے بعد آخر کار آپ قافلے سے جا ملے، اس لمبے سفر میں وہ خود کلامی سے دو چار ہے۔ آپ کے دل میں و دماغ اور نفس و ذہن پر رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی چھائی ہوئی تھی اور آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عتاب کے بارے میں ہی سوچتے رہے، آخر کار قافلہ مدینہ کے قریب جا پہنچا، مدینہ طیبہ کے مضافات آئے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا دل بے تاب ہو کر چلنے لگا۔ آپ نے اپنی سواری کو تیزی سے ہانکا اور قافلے سے علیحدہ ہو گئے، شہر نبوت میں داخل ہوئے تو آپ کا دل، آپ کے سینے میں شدت سے دھڑک رہا تھا، آپ خوف اور امید کے مابین کی کیفیت میں مبتلا تھے، امیدوار اشتیاق مسجدد حبیب میں جلد پہنچنے کا خوف اور ڈر آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ عالیہ میں طویل غیر حاضری کے بعد حاضر ہونے کا۔ مسجد نبوی قریب آئی تو حضرت بلال کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی، بے قراری بڑھ گئی، ذوق و شوق میں اضافہ ہوا، سواری کو تیز کیا اور آخرکار مسجد نبوی کے دروازے پر پہنچ گئے، سواری کو بٹھایا، نیچے اترے، بڑے ادب و احترام سے آگے بڑھے، دروازہ سے اندر داخل ہوئے، جب قبر مبارک کے سامنے کھڑے ہوئے تو بے قراری بڑھ گئی، آنسو بہنے لگے، شدت جذبات سے رندھی ہور آواز میں «السلام عليك يا رسول الله»۔
آپ کو اپنا گلا بند ہوتا ہوا محسوس ہوا، آنسو رکنے کا نام نہیں لیتے تھے، آنسو آپ کے رخساروں پر بہہ رہے تھے، خاموشی سے سر جھکا لیا، آپ کی روح، یادوں کے اکاش میں پرواز کرنے لگی، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم یاد آئے۔ جنگ دامن، آسانی و دشواری، جنگ و جدال صلح و صفائی اور دکھ سکھ آپ کی شرکت یاد آئی تو یہ سب کچھ سوچ کر آپ کی بے پناہ بے قراری، بے چینی اور بے تابی کو قدرے سکون محسوس ہوا، راحت و اطمینان کا ادراک ہوا، آپ یہیں کھڑے رہے اور وقت گزرتا ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو وقت گزرنے کا احساس نہیں ہو رہا تھا، ان کی روح، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک کے ساتھ متصل تھی۔ یادوں کا سفر جاری رہا۔ رات شروع ہو چکی تھی۔ اس نے کائنات کو اپنے پردہ سے ڈھانپ لیا تھا، بلال اپنی جگہ کھڑے تھے وہ اپنے اردگرد سے بالکل بے نیاز تھے، اتنے میں ایک آواز آئی : بلال ! بلال ! آپ اپنی اس بے خبری و وارفتگی کی کیفیت سے باہر آئے سر اٹھایا اور جدھر سے آواز آ رہی تھی ادھر متوجہ ہوئے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ نظر آئے آپ کے غم و اندوہ میں اضافہ ہو گیا، آنکھوں سے آنسو بہہ پڑے، آپ تیزی سے ان دونوں حضرات کی طرف بڑھے، انہیں اپنے سینے سے لگایا، چوما اور کہا: جب بھی میں آپ دونوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ جاتے ہیں۔
تھوڑی دیر خاموش رہے پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ”آپ کب آئے ؟“ جب سورج افق کی طرف جھک رہا تھا تو کاروان، مدینہ میں داخل ہوا تھا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لئے فوراً یہاں چلا آیا۔
آج رات آپ کہاں قیام فرمائیں گے ؟ مسجد نبوی میں۔
آج رات آپ ہمارے یہاں ٹھہریں گے۔ ہمارے ساتھ تشریف لائیے۔ مزار اقدس سے چلے تو حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے راستے میں مختلف باتیں ہوتی رہیں، حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا: بلال ! جب سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی ہے آپ نے ہمیں اپنی آواز سے محروم کر رکھا ہے، ہماری خواہش ہے کہ کل فجر کی اذان آپ دیں۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں، بلال۔ آپ نے ہمیں اپنی شریں آواز سے محروم کر دیا ہے کیا آپ ‏ کل اذان فجر نہیں دیں گے ؟
کیوں نہیں !
سب گھر میں داخل ہو گئے، کسی نے ان کو نہ دیکھا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے رات قیام کیا۔ جب تاریکی کے نام سے فجر کے تلوار باہر آئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ مسجد نبوی کی طرف چل پڑے۔ مسجد کی چھت پر چڑھے آپ نے فخر و رشک محسوس کیا۔ نسیم سحر اٹکھیلیاں کر رہی تھی آپ کے جسم کو باد صبا کے جھونکے لگے تو آپ تازہ دم ہو گئے۔ آپ نے آواز بلند کی تو مدینہ منورہ کی فضاؤں میں یہ آواز گونجی۔
«الله اكبر الله اكبر . الله اكبر الله اكبر . »
اس آواز سے مدینہ کانپ اٹھا۔ لوگوں نے سمجھا کہ وہ ایک خوبصورت خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے۔ کیا یہ بلال کی آواز ہے ؟ حضرت بلال پکار اٹھے۔
«اشهد ان لا اله الا الله، اشهد ان لا اله الا الله»
لوگ اپنی نیند سے اٹھ بیٹھے ایک دوسرے سے کہنے لگے، یہ بلال رضی اللہ عنہ ہیں، یقیناً مگر وہ تو شام تھے۔ شام سے کب واپس آئے اور کیوں ؟ لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے کھول دیے، وہ مسجد نبوی کی طرف یوں جا رہے تھے جیسے ان پر کسی نے جادو کر دیا ہو۔ وہ بلال کی آواز کی گرفت میں تھے، حضرت بلال پکارے۔
«اشهد ان محمد رسول الله، اشهد ان محمد رسول الله»
لوگوں نے سر جھکا لیے۔ آواز حق، ان کے دلوں کے تاروں کو چھیڑ رہی تھی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ عورتیں پردہ سے باہر نکلیں اور مسجد کی طرف بڑھیں۔ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عہد سعادت یاد آ گیا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کا غم تازہ ہو گیا، آنسو بہہ پڑے سر جھک گئے، ہر طرف خاموشی تھی، قبرستان کی سی خاموشی۔ اتنے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آواز بلند ہوئی وہ نماز کے لیے بلا رہے تھے۔
«حي على الصلاة، حي على الصلاة»
مدینہ النبی بیک زبان اس دعوت پر لبیک کہہ رہا تھا۔ لوگوں کی زبانوں پر «لاحول ولا قوة الابالله» کے کلمات تھے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آواز پر ابھری۔
«حي على الفلاح، حي على الفلاح»
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اذان مکمل کی تو لوگ اپنی جگہ پر ساکت و صامت کھڑے تھے، بلال رضی اللہ عنہ چھت سے اتر کر ان میں شامل ہو چکے تھے، مگر لوگ اپنے ارد گرد سے بیگانہ ابھی تک، ان کی آواز کے سحر میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پھر لوگ آہستہ آہستہ آپ کے گرد اکٹھے ہونے لگے وہ آپ کو سلام کرتے اور خیر و عافیت دریافت کرتے، امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو آپ سے بغل گیر ہوئے، پھر نماز کھڑی ہوئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ اللہ اکبر کہا: تو سب لوگوں نے اللہ اکبر کہا:، پھر وہ سب اللہ رب العالمین کے حضور محو عبادت ہو گئے۔
تحقیق الحدیث :
اسناده موضوع۔
اس کی سند من گھٹرت ہے۔
یہ ہے وہ داستان جو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، اس سے مبتدعین کئی قسم کے استدلال کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی امت کا حال پوشیدہ نہیں آپ محبت کرنے والوں کو مدینہ میں بلاتے ہیں نیز قبر مبارک پر اپنا چہرہ رگڑنا وغیرہ۔ حوالہ جات کے لیے ہیں۔ [شفاء السقام : 52 الصار م المنكني ص 314 سير اعلام النبلاءا/ 357، 358 لسان اميزان 107/1، 108 الفوائد المجموعهص : 40المصنوع فى معرفة الموضوع۔]
حافظ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں : «اسناده —— وهو منكر .» اس کی سند کمزور ہے اور یہ روایت منکر ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لسان المیزان میں کہتے ہیں : « وهى قصه نسه الوضع .» یہ قصہ واضح طور پر من گھٹرت ہے۔
علامہ شوکانی کہتے ہیں : «لا أصل له .» اس کی کوئی اصل نہیں۔
ملا علی قاری نے اس واقعہ پر موضوع کا حکم لگایا ہے۔
حافظ ابن عبدالہا دی کہتے ہیں : یہ اثر غریب و منکر ہے۔ «واسناده مجهول و فيه انقطاع .» اس کی سند مجہول ہے اور اس میں انقطاع ہے۔
اس میں ابراہیم بن محمد مجہول راوی ہے اور اس سے صرف محمد بن فیض نے یہ منکر اثر نقل کیا ہے۔
——————

اس تحریر کو اب تک 70 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply