ایک ضمیر میں اللہ اور رسول اللہ کو جمع کرنا

تحریر: مولانا ابوالحسن مبشر احمد ربانی

سوال : کیا ترمذی میں ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے خطبہ دیا اور کہا: من يطع الله ورسوله فقد رشد، ‏‏‏‏‏‏ومن يعصهما فقد غوى ’’ جس نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ ہدایت پا گیا اور جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمرا ہ ہو گیا۔“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بئس الخطيب انت، ‏‏‏‏‏‏قل ومن يعص الله ورسوله ’’ تو برا خطیب ہے تو کہہ جس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی۔“ نیز اس ممانعت کی وجہ کیا ہے ؟
جواب : یہ حدیث کئی ایک کتب احادیث [ صحيح مسلم، كتاب الجمعة، باب تخيف الصلاة والخطبة : 870۔ نسائي، كتاب النكاح، باب ما يكره من الخطبة : 3281۔ ابوداؤد، كتاب الصلاة، باب الرجل يخطب على قوس : 1099۔ كتاب الادب : 4981۔ مسند احمد : 4/ 256۔ بيهقي : 1/ 86، 3/ 216۔ مستدرك حاكم : 1/ 289] میں مطول و مختصر مروی ہے۔ ترمذی شریف میں مجھے یہ روایت نہیں ملی۔
اس روایت میں جو من يعصهما فقد غوي ”جس نے ان دونوں کی نافرمانی کی وہ گمراہ ہوا“ کے الفاظ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہنے والے کو جو کہا کہ ’’ تو برا خطیب ہے، اس کی شارحین حدیث کئی وجوہات بیان کر تے ہیں : بعض نے کہا: کہ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضی کا اظہار کیا کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ضمیر میں جمع کر دیا۔ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کہ کیونکہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سکھایا اس میں مذکور ہے :
من يطع الله ورسوله فقد رشد، ‏‏‏‏‏‏ومن يعصهما فإنه لا يضر إلا نفسه ولا يضر الله شيئا [سنن ابي داود : 1097]

اسی طرح قرآن کریم میں بھی ہے :
إِنَّ اللَّـهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ [ 33-الأحزاب:56]

↰ اس آیت میں يصلون کی ضمیر میں اللہ اور ملائکہ کو جمع کیا گیا ہے۔

◈ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ درست بات یہی ہے کہ منع اس لیے کیا گیا ہے کہ خطبوں کی شان یہ ہے کہ ان میں تفصیل اور وضاحت ہو اور اشارات و رموز سے اجتناب ہو۔ اسی لیے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بات کرتے تو اسے تین بار دہراتے تاکہ اسے سمجھا جا سکے۔“ [شرح النودی 6/ 139، طبع بیروت]
مزید تفصیل کے لیے حاشیہ سیوطی علی النسائی وغیرہ ملاحظہ کریں۔

خطیب کو چاہیے کہ وہ اشارات و رموز سے کام نہ لے تاکہ سامعین کو کسی قسم کا ابہام نہ رہے۔ ایک ضمیر میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک ہیں۔ اس لیے بات کھول کر تفصیل سے عوام الناس کے سامنے بیان کر دینی چاہیے۔

 

اس تحریر کو اب تک 44 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply