ناجائز امور پر مشتمل شادی میں شرکت

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

ناجائز امور پر مشتمل شادی میں شرکت
سوال : بدقسمتی سے آج کل شادیوں میں اللہ اور رسول کے احکامات کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں ہیں اور دوسری طرف دعوت قبول کرنے کا حکم نبوی ہے تو ایسی شادیوں میں شرکت شرعی طور پر ضروری ہے ؟
جواب : ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ إِنَّكُمْ إِذًا مِثْلُهُمْ إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا » [النساء : 140]
”اور اللہ تعالیٰ تمہارے پاس اپنی کتاب میں یہ حکم اتار چکا ہے کہ جب تم کسی مجلس والوں کو اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھہ کفر کرتے اور مذاق اڑاتے ہوئے سنو تو اس مجمع میں ان کی ساتھ نہ بیٹھو جب تک اس کے علاوہ اور باتیں نہ کرنے لگیں۔ ورنہ تم بھی اس وقت انہی جیسے ہو یقیناً اللہ تعالیٰ تمام کافروں اور سب منافقوں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح کر دیا کہ اگر تم ایسی مجالس و محافل اور پروگراموں میں شرکت کرو گے جہاں احکامات الہٰیہ کا مذاق اڑایا جا رہا ہو اور تم اس پر نکیر نہیں کرو گے تو تم بھی گناہ میں ان کے برابر کے شریک رہو گے۔
ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي آيَاتِنَا فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ وَإِمَّا يُنسِيَنَّكَ الشَّيْطَانُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ» [سورة الأنعام 68]
اور جب آپ ان لوگوں کو دیکھیں جو ہماری آیات میں عیب جوئی کر رہے ہیں تو ان لوگوں سے کنارہ کش ہو جائیں یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں لگ جائیں اور اگر آپ کو شیطان بھلا دے تو یاد آنے کے بعد ایسے ظالم لوگوں کے ساتھ مت بیٹھیں۔“
تفسیر احسن البیان میں ہے : آیت میں خطاب اگرچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے لیکن مخاطب امت مسلمہ کا ہر فرد ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔ اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہے یا عملاََ ان کا استخفاف کیا جا رہا ہو یا اہلِ بدعت و اہلِ زیغ اپنی تاویلات رکیکہ اور توجیہات خفیہ کے ذریعے آیات الہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔ ایسی مجالس میں غلط باتوں پر تنقید کرنے اور کلمہ حق بلند کرنے کی نیت سے تو شرکت جائز ہے، بصورت دیگر سخت گناہ اور غضب الہی کا باعث ہے۔“ [تفسير احسن البيان ص /177]
ایسی مجالس جہاں منکرات و منہیات ہوں یا ایسی دعوتیں جہاں احکام خداوندی کی قولاً یا فعلاً خلاف ورزی ہو رہی ہو ان میں شرکت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاں نا پسندیدہ اور قابل نفرت تھا۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے :
«عن على رضى الله عنه، قال: صنعت طعاما , فدعوت النبى صلى الله عليه وسلم فجاء، فدخل فراى سترا فيه تصاوير فخرج , وقال:” إن الملائكة لا تدخل بيتا فيه تصاوير» [نسائي، كتاب الذينة : باب التصاوير 5353]
”سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے کھانا تیار کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، گھر میں داخل ہوئے تو ایک تصویروں والا پردہ دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل گئے اور فرمایا : فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے، جہاں تصویرں ہوں۔“
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جس دعوت میں آپ کو شریک ہونے کے لیے کہا: جائے، اگر آپ کے علم میں ہو کہ وہاں منکرات و منہیات ہیں تو ایسی دعوت پر نہ جائیں اور اگر وہاں پہنچنے پر علم ہو تو وہاں سے واپس آ جائیں کیونکہ اس مجلس میں حاضر وشریک رہنا جائز نہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : ”میں ایک چھوٹا گدا خریدا، اس میں تصاویر تھیں (نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر سے تشریف لائے) تو آپ دروازے پر کھڑے ہو گئے، اندر داخل نہ ہوئے۔ میں نے کہا: ”میں اپنے جرم کی اللہ کی طرف توبہ کرتی ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: ”یہ گدا کیا ہے ؟“ میں نے کہا: ”میں نے یہ اس لئے بنایا ہے کہ آپ اس پر بیٹھیں، اس کو اپنے نیچے رکھیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”ان تصویروں کو بنانے والے قیامت کے دن عذاب دیے جائیں گے۔ انہیں کہا: جائے گا جو تم نے پیدا کیا ہے اس میں روح ڈالو اور یقیناًً فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں تصویریں ہوں۔“” [بخاري، كتاب اللباس : باب من كره القعود على الصور 5957، مسلم 6107، مسند احمد 46/6، موطا746]
اس صحیح حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ جہاں احکامات شرعیہ کی خلاف ورزی ہو، وہاں آپ شرکت نہ کریں، اگر جائیں تو ان منکرات سے لوگوں کو روکیں اور انہیں دعوت دے کر سمجھائیں۔ ایک اور حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
« من كان يوءمن بالله و اليوم الاخر فلا يقعدن على مائدة يدار عليها الخمر» [مسند احمد 1/ 126، مسند ابي يعلي1925، مسترك حاكم4/ 288، ترمذي2801]
”جو آدمی اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ ایسے دستر خوان پر ہرگز نہ بیٹھے جہاں شراب پیش کی جا رہی ہو۔“
امام حاکم رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ علیہم نے اسے صحیح کہا: ہے، علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔ [ارواء الغيل1939]
ملک شام کے ایک عیسائی چودھری نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعوت کی تو انہوں نے کہا:
« انا لا ندخل كناءسكم من اجل لصورالتي فيها» [بيهقي7/ 268، فتح الباري 1/ 531، الادب المفرد 1248]
”ہم تمہارے معبد خانوں میں تصویروں کی وجہ سے داخل نہیں ہوتے۔“
ابومسعود رضی اللہ عنہ کی ایک شخص نے دعوت کی تو انہوں نے دریافت کیا : «افي البيت صورة؟» کیا گھر میں تصویر ہے ؟“ اس نے کہا: ”ہاں“ تو انہوں نے داخل ہونے سے انکار کر دیا حتی کہ اس نے تصویر کو توڑا پھر آپ داخل ہوئے۔ [بيهقي 268/7، فتح الباري 249/9]
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا :
«لا ندخل وليمة فيها طبل و لا معزاف» [اداب الزفاف للالبانيص/ 166]
”ہم ایسے ولیمے میں داخل نہیں ہوتے جس میں طبلے سارنگیاں ہوں۔“

اس تحریر کو اب تک 26 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply