بے دودھ کی بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آنا

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

قصه ام معبد
بے دودھ کی بکری کے تھنوں میں دودھ اتر آنا
ہجرت کے موقعہ پر بے دودھ والی بکری کے تھنوں میں دودھ پیدا ہو جانے کا مشہور ترین معجزه ام معبد کے خیمے کا ہے۔ کہتے ہیں کہ مکہ اور مدینہ کی راہ میں قبیلہ خزانہ کے ایک خاندان کا میدان میں خیمہ تھا۔ ام معبد اور ابو معبد میاں بیوی اس خیمے میں رہتے تھے۔ اور مسافروں کو آرام پہنچایا کرتے تھے۔ بکریوں کی پرورش پر ان کا گزارا تھا۔ صبح کو ام معبد تمام اچھی اور دودھ والی بکریاں لے کر چراگاہ کو نکل گیا تھا۔ صرف بے دودھ والی بکریاں خیمے میں رہ گئی تھیں۔ اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا۔ کھانے پینے کی کچھ چیزیں آپ نے بہ قیمت طلب کیں۔ جو نہیں ملیں۔ خیمہ کے ایک گوشہ میں ایک بکری نظر آئی۔ آپ نے پوچھا : ام معبد یہ بکری کیسی ہے؟ اس نے کہا یہ لاغری کے سبب بکریوں کے ساتھ نہ جا سکی۔ پھر فرمایا کہ اس کے کچھ دودھ ہے؟ اس نے جواب دیا یہ دودھ سے معذور ہے۔
راوی کا بیان ہے کہ امسال خشک سالی تھی۔ اور لوگ قحط میں مبتلا تھے۔ فرمایا کہ مجھے اس کا دودھ دہنے کی اجازت ہے۔ عرض کی میرے ماں باپ قربان اگر اس کے دودھ ہو تو دوہ لیئجے۔ آپ نے دعا فرمائی۔ اور بسم اللہ کہہ کر تھن کو ہاتھ لگایا۔ فوراً اس کے تھنوں میں دودھ اتر آیا۔ دودھ سب نے پی لیا۔ اور کچھ بچ گیا اور قافلہ نبوی آگے روانہ ہوا۔ کچھ دیر کے بعد ابو معبد آیا۔ دیکھا کہ گھر میں دودھ رکھا ہے۔ تعجب سے پوچھا یہ دودھ کہاں سے آیا؟ بکریاں تو سب میرے ساتھ تھیں۔ ام معبد نے سارا قصہ بیان کیا۔ ابو معبد نے کہا ذرا اس شخص کی صورت و شکل بیان کرو؟ ام معبد نے نہایت تفصیل سے آپ کے حسن و جمال اور شکل و شمال کی تصویر کھینچی۔ جسے سن کر ابو معبد نے کہا یہ تو اللہ کی قسم قریش والا آدمی معلوم ہوتا
ہے۔ جس کا کچھ حال میں سن چکا ہوں میری آرزو ہے کہ مجھے اس کی صحبت میسر ہوتی۔ اور جب ان شاء اللہ موقعہ مل گیا تو میں یہ کروں گا۔
اسی وقت مکہ میں کچھ اشعار سنے گئے۔ ان اشعار میں ام معید کے واقعہ کا بیان تھا۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ نے جب ہاتف کی یہ آواز سنی تو ان اشعار کے جواب میں یہ اشعار کہے۔ یہ جوابی اشعار بھی روایت میں مذکور ہیں۔
تحقیق الحدیث :
سید سلیمان ندوی مرحوم اسی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
یہ روایت بغوی، ابن شاہین، ابن سکن، ابن منده، ابونعیم، طبرانی، بیہقی اور حاکم میں ام معبد کے بھائی حبیش بن خالد کی زبانی منقول ہے۔ حاکم نے نہ صرف یہ کہ اسے صحیح کہا ہے۔ بلکہ اور دیگر طریقوں سے اسے ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ مگر حاکم کے صحیح کہنے کی علماء کی نگاہ میں کوئی قدرو قیمت نہیں۔ چنانچہ حافظ ذہبی نے اس روایت پر تنقید کرتے ہوئے تصریح کر دی ہے کہ ان میں سے کوئی طریقہ سند صحیح کی شرائط کے مطابق نہیں۔
حافظ ذہبی نے مجملاً اسی قدر لکھا ہے۔ اگر واقعہ یہ ہے کہ یہ روایت حاکم کے علاوہ اور کتابوں میں بھی اسی سلسلہ سند سے مذکور ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ حزام اپنے باپ ہشام سے۔ اور ہشام اپنے باپ حیبش بن خالد خزاعی سے ناقل ہیں۔ حزام مجہول ہے۔ حبیش بن خالد سے صرف یہی ایک روایت کتب حدیث میں مذکور ہے۔ حبیش اصل واقعہ کے وقت موجود نہ تھے۔ معلوم نہیں انہوں نے کس سے سنا۔ اس لئے اگر یہ روایت ثابت بھی ہو تو مرسل ہے۔
حاکم نے دو طریقوں سے اس واقعہ کو نقل کیا ہے۔ ایک ان ہی حزام اور ہشام بن حبیش کے ذریعہ سے اور دوسرے حر بن صباح سے اور وہ ام معبد کے شوہر ابو معبد سے راوی ہیں۔ پہلے طریقہ میں حاکم نے یہ کمال کیا ہے کہ حبیش کے بجائے اس کے بیٹے ہشام بن حبیش کو اصل راوی اور صحابی قرار دے دیا۔ ظاہر ہے کہ اس طریق سے روایت کا ارسال اور بڑھ گیا (یعنی اب درمیان سے دو راوی چھوٹ گئے )۔ ہشام کا صحابی ہونا ثابت نہیں۔
دوسرے طریقے میں حر بن صباح گو ثقہ ہیں مگر ابومعبد سے ان کی سماعت ثابت نہیں۔ چنانچہ ابن حجر نے تہذیب میں لکھا ہے کہ حر ابو معبد سے مرسل روایتیں کرتے ہیں ( یعنی درمیان سے راوی غائب کر دیتے ہیں)۔
یہ تو ان تمام روایتوں کے اوپر کے راویوں کا حال ہے۔ نیچے کے راویوں میں اکثر مجہول لوگ ہیں۔ حر بن صباح والی روایت میں نیچے ایک شخص محمد بن بشر سکری ہے۔ جس کو ازدی نے منکر الحدیث اور ابن عدی نے واہی کہا ہے۔
ابونعیم نے دلائل میں ایک اور صحابی سليط ابو سلیمان انصاری بدری سے اس کی روایت کی ہے۔ سلیط سے ان کے بیٹے سلیمان اور ان سے ان کے بیٹے محمد بن سلیمان بن سليط انصاری روایت کرتے ہیں۔ لیکن ان سلیط کا نام صرف اسی روایت کی رو سے بعض مؤلفین سیر صحابہ نے صحابہ میں داخل کر لیا ہے۔ ورنہ ان کا کوئی حال ہم کو معلوم نہیں۔
سلیط انصاری جو بدری صحابی ہیں۔ وہ سلیط بن قیس انصاری خزرجی ہیں۔ ان کے بیٹے کا نام عبداللہ تھا۔ جس سے نسل نہیں چلی۔ ان کی روایت سنن نسائی میں موجود ہے۔ مگر ابو سلیمان سلیط انصاری بدری سے اس کے علاوہ کوئی روایت موجود نہیں۔ اسی لئے اسماء الرجال اور مؤلفين رجال صحابہ میں سے بعض نے ان کو اور سلیط بن قیس انصاری کو ایک سمجھا ہے۔ اگر ایسا ہے تو سلیمان ان کے بیٹے اور نہ ان کے پوتے کا ہرگز نام نہ تھا۔ اگر یہ دو شخص ہیں تو اصحاب بدر کے نام سب گنے ہوئے ہیں۔ ان میں سلیط بن قیس رضی اللہ عنہ خزرجی کے سوا کوئی دوسرا سليط نامی نہیں۔ پھر یہ مدینہ کے باشندہ تھے اور ام معبد قبیلہ خزاعہ کی تھیں جو مکہ اور مدینہ کے ان بیچ میں آباد تھا۔ معلوم نہیں کہ سلیط انصاری رضی اللہ نے کسی سے سنا۔ پھر ان کے
بیٹے سلیمان اور پوتے محمد سے کوئی واقف نہیں۔
حافظ ابن حجر لسان المیزان میں محمد بن سلیمان بن سلیط انصاری کے حال میں لکھتے ہیں :
قال العقيلي مجهول بالنقل روي عن أبيه عن جده فذكر قصة ام معبد وهو واه وقال ليس هذا الطريق محفوظا فى حديث ام معبد قال ابن مندة و هو مجهول .
”عقیلی کہتے ہیں یہ نقل میں مجہول ہے۔ یہ اپنے باپ کے ذریعہ دادا سے نقل کرتا ہے۔ اس نے ام معبد کا قصہ ذکر کیا ہے جو واہی ہے۔ اور ام معبد کے قصہ میں یہ سند محفوظ نہیں۔ ابن مندہ کہتے ہیں یہ مجہول ہے۔“
علاوہ ازیں ان روایتوں کے الفاظ ام معبد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے باہم طرز تخاطب اور اشعار کی زبان اور ابو معبد کی گفتگو میں ایک خاص قسم کی غرابت ہے۔ اس کو ناقدین حد بیت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ ہاتف غیب نے اشعار تو مکہ میں لوگوں کو بنانے اور حسان رضی اللہ عنہ نے جو ابھی مسلمان نہ ہوئے تھے۔ مدینہ میں بیٹھے بیٹھے ان کا جواب کہا۔ ہجرت کے سال مکہ کے آس پاس قحط کا پڑنا اور خشک سالی ہونا بھی ثابت نہیں۔
مجھے ہجرت کے موقع پر ان دودھ والی روایتوں سے تسلیم کرنے میں اس لئے بھی پس پیش ہے۔ کہ ہجرت کے رفیق سفر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے واقعات ہجرت کی جو روایت صحیح بخاری میں مذکور ہے اس میں ایک جگہ ایک چرواہے سے دودھ مانگ کر پینے کا ذکر موجود ہے۔ مگر اس معجزہ د کا مطلق ذکر موجود نہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زبانی یہ قصہ ان الفاظ میں مذکور ہے۔
دفعۃ ایک چرواہا نظر آیا۔ جو اپنی بکریوں کو ہانکے لئے جا رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا تم کسی کے غلام ہو؟ اس نے قریش کے ایک آدمی کا نام لیا جس کو میں جانتا تھا۔ پھر میں نے کہا تمہاری بکریوں کے دودھ ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ میں نے کہا اپنے ہاتھ اور بکری سے تھن جھاڑ کر پیالہ میں دودھ دوہو۔ اس نے دوہا۔ تو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک برتن میں رکھ کر اور تھوڑا پانی ملا کر تاکہ ٹھنڈا ہو جائے آپ کے پاس لایا۔ آپ نے نوش فرمایا۔ [سيرت النبى ص 770 ج3 ]

اس تحریر کو اب تک 11 بار پڑھا جا چکا ہے۔