کیا حافظ قرآن اپنے خاندان کے دس افراد کی سفارش کرےگا؟

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی زرہ یہودی کے ہاتھ لگ گئی فیصلہ قاضی شریح کے پاس یہودی کا قبول اسلام
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ایک زرہ اونٹ سے گر گئی تھی، آپ نے اسے ایک یہودی کے پاس دیکھا تو اس سے کہا کہ یہ میری زرہ ہے۔ اس یہودی نے کہا : یہ میرے ہاتھ میں ہے میری ہے۔ پھر بولا کہ تمھارے میرے درمیان مسلمان قاضی فیصلہ کرے گا، چنانچہ یہ دونوں قاضی شریح کی عدالت میں آئے قاضی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو آتے دیکھے تو جگہ چھوڑ دی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ وہاں بیٹھ گئے اور پھر فرمایا کہ اگر میرا حریف مسلمانوں میں سے ہوتا تو میں مجلس کی برابری کرتا لیکن میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ کافروں سے مجلس میں برابری مت کرو اور انھیں تنگ راستے اختیار کرنے پر مجبور کرو، اگر وہ ہمیں گالی دیں تو ان کی پٹائی کرو اور اگر تمھاری پٹائی کریں تو ان کو قتل کر دو۔ قاضی شریح نے پوچھا : امیر المؤمنین آپ کیا چاہتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا کہ میری چاندی کی زره اونٹ سے گر گئی تھی یہ اس یہودی نے اٹھا لی۔ یہودی بولا کہ یہ میری زرہ ہے، میرے ہاتھ میں ہے۔ قاضی شریح نے کہا : اے امیر المومنین ! آپ سچ کہہ رہے ہیں یہ آپ ہی کی زرہ ہے لیکن اس کے گواہ درکار ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں میں اپنے غلام قنبر کو اور میرے بیٹے حسن کو گواہی کے لیے بلوا لیتا ہوں۔ قاضی شریح نے کہا کہ قنبر کی گواہی تو ہم مان لیں گے لیکن حسن رضی اللہ عنہ آپ کے بیٹے ہیں ان کی گواہی نہیں قبول کریں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تیری ماں تجھے گم کرے کیا تو نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے حوالے سے ارشاد نبوی نہیں سنا کہ حسن اور حسین رضی اللہ عنہما جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔ قاضی شریح نے کہا : ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کیا تم جنتی نوجوانوں کے سردار کی گواہی قبول نہیں کرتے واللہ ! میں تجھے بانقیا بھیج دوں گا جہاں چالیس دن تجھے ان کے فیصلے کرنے پڑیں گے۔ پھر یہودی کو کہا : زره اٹها لو، یہودی نے کہا : مسلمانوں کا امیر، مسلمانوں کے قاضی کے پاس میرے ساتھ آیا، فیصلہ امیر کے خلاف ہوا اور اس نے مان لیا۔ امیر المومنین ! آپ سچے ہیں، یہ زرہ آپ کی ہے جو آپ کے اونٹ سے گر گئی تھی۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وہ زرہ اس کو دے دی اور نو سو درہم میں حوالے کر دی۔ یہ شخص مسلمان ہونے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا اور صفین میں شہید ہوا۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [الحلية 140/4 الاباطيل والمناكير 198/2 السنن الكبري 136/10 العلل المتناهية 388/2]
اس میں حکیم بن خذام ابو سمیر ضعیف ہے۔
بخاری کہتے ہیں : منکر الحدیث۔
ابوعبدالله الجوزقانی کہتے ہیں : یہ روایت باطل ہے۔
ابن جوزی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح نہیں۔ اس کی ایک اور سند ہے اس میں عمرو بن شمر اور جابر جعفی دونوں ضعیف ہیں۔
——————

سیدنا یوسف علیہ السلام اور سلیمان بن یسار کا امتحان اور موازنہ
روایت ہے کہ سلیمان بن یسار بہت خوبصورت تھے ایک مرتبہ ایک عورت نے آپ کو گھر کے اندر غلط کاری پر مجبور کرنا چاہا تو آپ نے انکار کر دیا۔ عورت آپ کی قربت کے لیے التجا کرتی رہی لیکن آپ گھر سے نکل کر بھاگ گئے اور عورت کو وہیں چھوڑ دیا۔
سلیمان بن یسار کہتے ہیں اس فتنہ کے بعد میں نے خواب میں یوسف علیہ السلام کو دیکھا میں نے ان سے پوچھا کیا آپ یوسف علیہ السلام ہیں ؟ فرمایا : ہاں میں یوسف ہوں، جس نے ارادہ کر لیا تھا اور تو سلیمان ہے جو ارادے سے بھی محفوظ رہا۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ [الحلية 2/ 190-191]
امام ذہبی کہتے ہیں اس کی سند میں انقطاع ہے۔ [السير 447/4]
نیز اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ سلیمان بن یسار سیدنا یوسف علیہ السلام میلان سے اکمل ہیں جو کہ غلط ہے۔
——————

کیا عورت کسی جن سے نکاح کر سکتی ہے امام مالک رحمہ اللہ کے ایک فتوی کی حقیقت
ابوعثان سعید بن العیاس رازی کہتے ہیں ہمیں حضرت مقاتل نے بیان کیا وہ فرماتے ہیں مجھے سعید بن ابوداؤد نے بیان کیا کہ ان کے لوگوں نے امام مالک رحمہ اللہ سے جن کے ساتھ نکاح کے متعلق سوال لکھ کر بھیجا اور کہا کہ ہمارے یہاں ایک جن شخص ہے وہ ہماری ایک لڑکی کو نکاح کا پیغام دے رہا ہے وہ کہتا ہے میں حلال کا خواہش مند ہوں، تو امام مالک مالک رحمہ اللہ نے فتوی دیا کہ اس بارے دین میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، لیکن اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ جب کوئی عورت حاملہ پائی جائے اور اس سے پوچھا جائے تیرا خاوند کون ہے تو وہ کہے کہ میرا خاوند فلاں جن ہے اور اس طرح سے اسلام میں فساد پیدا ہو۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ اسی کو الدكتور خالد الحاج نے حقائق الايمان بالملايكة والجان ص (238) میں سیوطی نے لقط المرجان
(32) میں بیان کیا ہے اس قصہ کی سند سخت ضعیف ہے۔
نمبر ایک اس میں مقاتل ابن محمد کو دارقطنی نے مجہول کہا ہے اور اس کی روایت منکر ہوتی ہے۔ دیکھیں : [لسان الميزان 83/6]
نمبر دو سعید بن داؤد اس نے متعدد منکر روایات بیان کی ہیں۔
——————

قصہ ایک راہب کا جس کو شیطان نے بہلا کر زنا کروایا پھر لڑکی کو قتل کروایا
بنی اسرائیل میں ایک عابد تھے، ساٹھ سال اسے عبادت الٰہی میں گزر چکے تھے، شیطان نے اسے ورغلانا چاہا لیکن وہ قابو میں نہ آیا اس نے ایک عورت پر اپنا اثر ظاہر کیا کہ گویا اسے جنات ستا رہے ہیں اور اس عورت کے بھائیوں کو یہ وسوسہ ڈالا کہ اس کا علاج اس عابد سے ہو سکتا ہے یہ اس عورت کو اس عابد کے پاس لائے، اس نے علاج معالجہ یعنی دم کرنا شروع کیا اور یہ عورت یہیں رہے گی، ایک دن عابد اس کے پاس ہی تھا، جو شیطان نے اس کے خیالات خراب کرنے شروع کیے یہاں تک کہ وہ زنا کر بیٹھا اور وہ حاملہ ہو گئی، اب رسوائی کے خوف سے شیطان نے چھٹکارے کی صورت بتائی کہ اس عورت کو مار ڈال ورنہ راز کھل جائے گا۔
چنانچہ اس نے اسے قتل کر ڈالا، ادھر اس نے جا کر عورت کے بھائیوں کو شک دلوایا وہ دوڑے آئے، شیطان راہب کے پاس آیا اور کہا : وہ لوگ آ رہے ہیں، اب عزت بھی جائے گی اور جان بھی جائے گی۔ اگر مجھے خوش کر لے اور میرا کہا مان لے تو عزت اور جان دونوں بچ سکتی ہیں۔ اس نے کہا : جس طرح تو کہے میں تیار ہوں۔ شیطان نے کہا : مجھے سجدہ کر، عابہ نے سجدہ کر لیا، یہ کہنے لگا : تف ہے تجھ پر کم بخت، میں تو اب تجھ سے بیزار ہوں میں تو اللہ سے ڈرتا ہوں جو رب العالمین ہے۔ ایک اور روایت میں اس طرح ہے کہ ایک عورت بکریاں چرایا کرتی تھی اور ایک راہب کی خانقاہ تلے رات گزارا کرتی تھی اس کے چار بھائی تھے ایک دن شیطان نے راہب کو گدگدایا اور اس سے زنا کر بیٹھا، اسے حمل رہ گیا، شیطان نے راہب کے دل میں ڈالا کہ اب رسوائی ہو گی اس سے بہتر یہ ہے کہ اسے مار ڈال اور کہیں دفن کر دے تیرے تقدس کو دیکھتے ہوئے تیری طرف تو کسی کا خیال بھی نہ جائے گا اور اگر بالفرض پھر بھی کچھ پوچھ گچھ ہو تو جھوٹ موٹ کہہ دینا، بھلا کون ہے جو تیری بات کو غلط جانے ؟ اس کی سمجھ میں بھی یہ بات آ گئی، ایک روز رات کے وقت موقعہ پا کر اس عورت کو جان سے مار ڈالا اور کسی اجاڑ جگہ زمین میں دبا دیا۔ اب شیطان اس کے چاروں بھائیوں کے پاس پہنچا اور ہر ایک کے خواب میں اسے سارا واقعہ کہہ سنایا اور اس کے دفن کی جگہ بھی بتادی صبح جب یہ جاگے تو ایک نے کہا آج کی رات تو میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے، ہمت نہیں پڑتی کہ آپ سے بیان کروں دوسروں نے کہا : نہیں کہو تو سہی چنانچہ اس نے پورا خواب بیان کیا کہ اس طرح فلاں عابد نے اس سے بدکاری کی پھر جب حمل ٹھہر گیا تو اسے قتل کر دیا اور فلاں جگہ اس کی لاش دبا آیا ہے، ان تینوں میں سے ہر ایک نے کہا : مجھے بھی یہی خواب آیا ہے اب تو انھیں یقین ہو گیا کہ خواب سچا ہے، چنانچہ انھوں نے جا کر اطلاع دی اور بادشاہ کے حکم سے اسی راہب کو اس خانقاہ سے ساتھ لیا اور اس جگہ پہنچ کر اس کی لاش برآمد کی، کامل ثبوت کے بعد اب اسے شاہی دربار میں لے چلے اس وقت شیطان اس کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور کہتا ہے یہ سب میرے کرتوت ہیں اب بھی اگر تو مجھے راضی کر لے تو جان بچا دوں گا اس نے کہا جو تو کہے کروں گا کہ مجھے سجدہ کر لے اس نے یہ بھی کر دیا، پس پورا بے ایمان بنا کر شیطان کہتا ہے کہ میں تو تجھ سے بری ہوں میں تو اللہ تعالی سے جو تمام جہانوں کا رب ہے ڈرتا ہوں، چنانچہ بادشاہ نے حکم دیا اور پادری صاحب کو قتل کر دیا گیا، مشہور ہے کہ اس پادری کا نام برصیصا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ طاؤس رحمہ اللہ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ وغیرہ سے یہ قصہ مختلف الفاظ سے کی پیشی کے ساتھ مروی ہے۔
تحقیق الحدیث :
[مستدرك للحاكم 484/2 رقم الحديث 3801 كنز العمال 694/2 تفسير الطبري 47/12]
اگرچہ اس کو حاکم اور ذہبی نے صحیح کہا ہے بعض محققین کے نزدیک اس کی سند حسن درجے کی ہے مگر صحیح تلبیس ابلیس میں علامہ البانی کے شاگرد علی حسن علی عبدالحمید نے اس کو حذف کر دیا ہے۔ گویا ان کے نزدیک یہ قصہ سند سے ثابت نہیں ہے۔ «والله اعلم. »
——————

عزیٰ بت کی تباہی خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عزیٰ ایک شیطانیہ عورت تھی۔ جو بطن نخلہ کے تین درخت کیکر پر آیا کرتی تھی۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے فرمایا : تو بطن نخلہ میں جا وہاں تجھے کیکر کے تین درخت ملیں گے۔ ان میں سے اول درخت کو جڑ سے کاٹ ڈالنا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے وہاں جا کر ایک درخت کو جڑ سے کھود پھینکا اور واپس آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے کچھ دیکھا تھا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا : جی نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جا کر دوسرے کو جڑ سے کاٹ دے۔ خالد رضی اللہ عنہ نے حکم کی تعمیل کی۔ جب واپس آئے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جا کر تیسرے درخت کو بھی جڑ سے کاٹ دے۔ خالد رضی اللہ عنہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ بال بکھیرے اپنے دونوں ہاتھ کندھوں پر رکھے اپنے دانت کٹکٹاتی ہے اور اس کے پیچھے دبیہ السلمی کھڑا ہے جو اس کا دربان تھا۔ خالد رضی اللہ عنہ نے کہا:
«ياعز كفرانك لا سبحانك اني رايت الله قد اهانك»
”اے عزیٰ تجھ سے کفر ہے تیری تعریف نہیں۔ کیوں کہ میں نے دیکھ لیا کہ الله تعالیٰ نے تجھے خوار کیا ہے۔
پھر اس کو تلوار ماری تو اس کا سر دو ٹکڑے ہو گیا۔ دیکھا تو وہ کوئلہ ہے۔ پھر خالد رضی اللہ عنہ نے درخت مذکورہ کو کاٹ ڈالا اور دبیہ دربان کو بھی قتل کر ڈالا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہی عزیٰ تھی، اب آئندہ عرب کے واسطے عزیٰ نہ ہو گی۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [مجمع الزوائد 7/6 رقم الحديث 10255 ورواه أبو يعلى رقم 902 نساني فى التفسير 567 بهني 77/5]
ہیثمی کہتے ہیں اس کو طبرانی نے روایت کیا ہے اس میں یحییٰ بن المنذر راوی ضعیف ہے۔ [درمنشور 26/6 تفسير ابن كثير 432/7 تفسير قرطبي 100/17 تهذيب تاريخ دمشق لابن عساكر 101/5]
——————

اے عمران بن حصین کتنے خداؤں کی عبادت کرتے تھے ؟ کہا : سات کی چھ زمین میں ایک آسمان میں
عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے والد سے دریافت کیا : اے حصین ! ان دنوں تو کتنے خداؤں کی عبادت کرتا ہے؟ میرے والد نے جواب دیا، سات خداؤں کی عبادت کی کرتا ہوں (ان میں سے) چھ خدا زمین پر ہیں اور ایک آسمان پر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ان میں سے کسی کو تو اپنے فائدے اور خوف کے لیے خاص کرتا ہے؟ اس نے جواب دیا، اس خدا کو جو آسمان میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے حصین ! خبردار! اگر تو مسلمان ہو جائے تو میں تجھے دو دعائیں بتاؤں گا جو تجھے دونوں جہانوں میں فائدہ بخشیں گی۔ (راوی نے بیان کیا)، جب حصین ایمان لایا تو اس نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! مجھے وہ دونوں دعائیں بتائیں جن کا آپ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تو یہ دعا کر، (جس کا ترجمہ ہے) ”اے اللہ! مجھے استقامت کی رہنمائی عطا کر اور مجھے میرے نفس کے شر سے محفوظ فرما۔“
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [سنن ترمذي كتاب الدعوات، باب 70 حديث رقم 3483 مشكاة المصابيح 2476 التاريخ الكبير للبخاري 1/3]
شیخ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔
——————

حافظ قرآن اپنے خاندان کے دس افراد کی سفارش کرےگا
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے اس طرح قرآن پڑھا کہ اس پر حاوی ہو گیا (یعنی بکثرت پڑھا) اس (قرآن) کے حلال کو حلال جانا اور حرام کو حرام سمجھا الله تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا اور اس کے خاندان سے ایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی تھی۔ ترمذی کہتے ہیں، یہ حدیث غریب ہے، ہم اسے صرف اسی طریقے سے جانتے ہیں، اس کی سند صحیح نہیں۔ حفص بن سلیمان، ابوعمر براز کوفی کو حدیث میں ضعیف سمجھا گیا ہے۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعيف جدا۔
اس کی سند سخت ضعیف۔ [سنن ترمذي . كتاب ثواب القرآن باب 13 ما جاء فى فضل قارئ القرآن حديث رقم 2904 واخرجه ابن ماجه، كتاب السنة، باب فضل من تعلم القرآن علمه حديث رقم 216]
حفص بن سلیمان متروک الحدیث ہے اور اس کا شیخ مجہول ہے۔ [مشكاة المصابيح 2141 التعليق الرغيب 210/2]
——————

عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا سات سو اونٹوں پر مشتمل قافلہ تمام اسباب اللہ کی راہ میں خرچ
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے گھر میں بیٹھی تھی یکایک کچھ آواز سنی۔ پوچھا یہ کیا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا قافلہ شام سے آیا جو ہر قسم کا اسباب تجارت لایا ہے۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سات سو اونٹ تھے۔ تمام مدینہ آواز سے گونج اٹھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرماتے تھے : میں نے عبدالرحمن بن عوف کو خواب میں دیکھا ہے کہ جنت میں گھٹنوں کے بل چل کر داخل ہوتے ہیں۔
یہ خبر عبدالرحمن کو ملی کہنے لگے کہ اگر مجھ سے ہو سکا تو بہشت میں کھڑے ہو کر داخل ہوں گا۔ یہ کہہ کر وہ تمام اونٹ مع ان کے پالانوں کے اور اسباب کے خدا کی راہ میں دے دیے۔
تحقیق الحدیث :
إسناده منکر۔
اس کی سند منکر ہے۔ [مسند احمد 115/6 كنز العمال 33501 القول المسدد لا بن حجر 9 موضوعات لابن جوزي 13/2 تنوية الشريعة لابن عراق 14/2 اللالني المصنوعه للسيوطي 1/ 214]
اس میں عمارہ بن ذازان راوی ضعیف ہے۔
——————

طلع البدر علينا من ثنيات الوداع
علماء، خطباء، واعظین کے ہاں مشہور واقعہ ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا گیا تو انصار کی بچیاں خوشی اور مسرت سے ان اشعار کے نغمے بکھیر رہی تھیں۔
«طلع البدر علينا من ثنيات الوداع»
”ان پہاڑوں سے جو ہیں سوئے جنوب، چودھویں کا چاند ہم پر طلوع ہوا۔‘‘
«وجب الشكر علينا ما دعا لله داع »
”کیا عمدہ دین او تعلیم ہے شکر واجب ہے ہمیں اللہ کا۔“
«ايها المبعوث فينا جئت بالأمر المطاع »
”ہے اطاعت فرض تیرے حکم کی، بھیجنے والا ہے تیرا کبریا۔“
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ [السيرة الحلبيه]
یہ قصہ ابن عائشہ سے مروی ہے، ابن عائشہ سے مراد عبید اللہ بن محمد حفص التمیمی البصری ہیں جن کا سلسلہ عائشہ بنت طلحہ سے ملتا ہے، اسی بنا پر انھیں ابن عائشه العیشی اور العائشی بھی کہا گیا ہے۔ یہ امام احمد کے اساتذہ میں سے ہیں۔ 227 ہجری میں ان کا انتقال ہوا اور اکثر و بیشتر تبع تابعین سے روایت کرتے ہیں اس لیے ان کے اور اس واقعہ کے مابین روایت کرنے والے تین یا اس سے بھی زیادہ واسطے ہیں لہٰذا یہ روایت معضل ہے۔ شیخ البانی نے سلسلہ احادیث الضعیفہ رقم الحدیث(598) میں اسی بناء پر اسے ضعیف قرار دیا۔
——————

روضہ اقدس کے چور اور سلطان نورالدین زنگی کا خواب
مشہور واقعہ ہے کہ سلطان نور الدین محمود شہید بن عمادالدین زنگی نے ایک رات نماز تہجد کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی اور دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور گر بہ چشم (کرتجی آنکھوں والے) آدمیوں کی طرف اشارہ کر کے فرما رہے ہیں ”مجھے ان دونوں سے نجات دو۔‘‘
سلطان گھبرا کر اٹھ بیٹھے اور وضو کیا نوافل پڑھے اور لیٹ گئے ابھی لیٹے ہی تھے کہ آنکھ لگ گئی اور پھر یہی خواب دیکھا وہ پھر اٹھے وضو کیا اور نوافل پڑھے اور لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی پھر یہی خواب دیکھا اور پھر تیسری بار بھی یہی خواب دیکھا۔ اس پر نیند اڑ گئی اور بے چین ہو کر اپنے وزیر جمال الدین اصفہانی کو طلب کر کے اسے سارا واقعہ سنایا۔ وزیر نے کہا دیر نہ کیجیے فوراً مدینہ طیبہ چلیے اور کسی سے اس کا ذکر نہ کیجیے۔ یہ خیال کر کے کہ ضرور مدینہ طیبہ میں کوئی حادثہ پیش آ گیا ہے وہاں جلد از جلد پہنچنا چاہیے۔ سلطان اپنے وزیر بیس اراکین مجلس اور دو سو سپاہیوں کو ہمراہ لے کر بہت سے زمرد اور جواہر کے ساتھ نہایت تیز رفتار سانڈنیوں پر سوار ہو کر رات دن سفر کر کے سولہ روز میں شام سے مدینہ طیبہ پہنچا۔ اس زمانہ میں عرب سلطان کے زیر اثر آ چکا تھا۔ اس لیے سلطان کی اچانک آمد سے مدینہ طیبہ والے حیران رہ گئے مدینہ کے گورنر نے اچانک تشریف آوری کی وجہ دریافت کی تو سلطان نے سارا ماجرا کہہ سنایا۔ گورنر نے سلطان سے کہا : میں انعام و اکرام کے بہانے مدینہ کے تمام لوگوں کو آپ کے سامنے سے گزاروں گا۔ آپ ان میں سے ان دونوں آدمیوں کو پہچان لیں چنانچہ ایسا ہی کیا گیا لیکن مطلوبہ شخص نظر نہ آئے۔ سلطان حیران ہوا آخر اس نے پوچھا کہ شہر کی آبادی میں کوئی شخص ایسا بھی ہے جو انعام لینے سے محروم رہ گیا ہو۔
خدام نے عرض کی بادشاہ سلامت صرف دو اہل مغرب باقی ہیں جو نہایت صالح، دین دار اور گوشہ نشین ہیں وہ جنت البقیع میں پانی پلانے کی خدمت انجام دیتے ہیں اور سارا دن اپنے مکان میں محو عبادت رہتے ہیں۔ سلطان نے ان کو طلب کیا اور جونہی وہ سلطان کے سامنے آئے اس نے انھیں پہچان لیا مگر تفتیش سے پہلے کچھ کہنا مناسب نہ سمجھا۔ چنانچہ ان سے مصافحہ کیا عزت سے بٹھا کر ان سے باتیں کیں اور پھر گفتگو کرتے ہوئے ان کے حجرے میں پہنچا جہاں فرش پر ایک معمولی سی چٹائی پڑی ہوئی تھی۔ طاق میں قرآن مجید اور دینی کتابیں اور صدقہ و خیرات کرنے کے لیے تھوڑا سامان موجود تھا۔ سلطان حیران تھا کہ یا الہٰی یہ کیا ماجرا ہے مایوس ہو کر واپس جانے کا ارادہ کیا تو چٹائی کے نیچےکوئی چیز ہلتی ہوئی محسوس ہوئی۔ چٹائی کو ہٹایا گیا تو ایک تختہ نظر آیا جس کو اٹھایا تو ایک سرنگ دکھائی دی۔ جو روضہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کھودی گئی تھی۔ اس وقت ان دونوں کو گرفتار کر لیا گیا اور جب ان سے ساری کیفیت دریافت کی گئی تو دونوں نے اقبال جرم قبول کر لیا اور اعتراف کیا کہ وہ اولی عیسائی ہیں جنھیں عیسائی بادشاہوں نے بہت سا مال دیا تھا تاکہ کسی نہ کسی طریقے سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک نکال کر روم لے جائیں اور مسلمانوں کا مرکز ختم ہو جائے۔ مدینہ کے لوگ ہمارے اس بہروپ کے جال میں پھنس گئے اور میں روضہ مبارک کے سامنے رہنے کے لیے ایک ہجرہ مل گیا۔ ہم رات بھر سرنگ کھودتے ہیں اور صبج سویرے چمڑے کے دو تھیلوں میں اسی مٹی کو بھر کر فاتحہ پڑھنے کے بہانے جنت البقیع میں جا کر ڈال دیتے ہیں، دن بھر زیارت گاہوں میں گھومتے رہتے ہیں اور رات بھر اس کام میں مصروف رہتے ہیں کئی برسوں کی محنت کے بعد آج ہم جسد مبارک کے قریب گئے تھے (کہتے ہیں جس رات یہ سرنگ جسد اطہر کے قریب پہنچنے والی تھی اس رات سخت بارش اور ہوا کا طوفان آیا اور بجلی زور زور سے کڑکتی رہی جس کی وجہ سے لوگ سخت پریشان ہوئے) یہ واقعات سن کر سلطان زار و قطار رویا اور اس وقت ہجرہ کے عین سامنے ان دونوں لعنتیوں کے سر تن سے جدا کر دیا پھر سجدہ شکر بجا لایا اور اس کے بعد روضہ اقدس کے ارد گرد اتنی گہری خندق کھدائی کے پانی نکل آیا۔ پھر اس خندق میں سطح زمین تک سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا تاکہ آئندہ کوئی خطرہ نہ رہے اور اس کے اوپر چار دیواری تعمیر کر دی گئی۔
تحقیق الحدیث :
إسناده ضعیف۔
اس کی سند ضعیف ہے۔ دیکھیے: [وفاء الوفاء باخبار المصطفى للسمهودي جلد 2 ص 185، 188]
یہ قصہ اس وجہ سے ضعیف اور غیر ثابت ہے کہ جمال الدین الاسنوی نے نورالدین الشہید کے معاصرین میں سے کسی ثقہ و صدوق گواہ تک کو متصل سند بیان نہیں کی اور بے سند و منقطع روایت مردوو ہوتی ہے۔ نور الدین زنگی کے حالات ابن جوزی، ابن عساکر اور دیگر علماء نے لکھے ہیں مگر کسی نے اس واقعہ کا تذکرہ نہیں کیا لہٰذا وہ کون سا ذریعہ تھا جس سے اسنوی مذکور جو زنگی کی وفات کے (135) سال بعد پیدا ہو ئے کو اس واقعہ کا پتا چل گیا۔ سمہودی نے المجد اور معطری کا بھی ذکر کیا ہے مگر یہ دونوں بھی زنگی رحمہ اللہ کی وفات کے بہت بعد پیدا ہوئے تھے۔
خلاصہ یہ کہ خواب و الا یہ قصہ باسند صحیح ثابت نہیں۔ [بحواله ماهنامه اله پيش شماره نمبر 62 ص 11]
——————

اس تحریر کو اب تک 40 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply