امامت کا حق دار وہ شخص ہے جو علم کے اعتبار سے بڑا ہو

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

وَعَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِي مَا قَالَ: إِذَا حَضَرَتِ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنُ لَكُمْ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤْمَكُمْ أَكْبَرُكُمْ
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ
مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب نماز کا وقت آ جائے تو تم میں سے ایک تمہارے لیے اذان کہے اور تم میں بڑا تمہاری امامت کرائے۔ “ [متفق عليه]
تحقیق و تخریج :
بخاری : 819،685،658،631،630،628 ، مسلم : 673، ترمذی میں یہ حدیث ” باب ما جاء فى الاذان فى السفر“ میں مذکور ہے ۔ شیخ احمد شا کر مرحوم نے اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ یہ حدیث مسند امام احمد،جلد 3، صفحہ 243 جلد 5 صفحہ 652 پر مذکور ہے، صحاح ستہ کے مصنفین نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کا تذکر ہ کہیں طویل اور کہیں مختصر کیا ہے معانی تقریباً ملتے جلتے ہیں ۔
فوائد :
➊ جب نماز کا وقت ہو جائے تو اذان کہہ دینی چاہیے مسلمانوں میں سے جو بھی اذان کہے ضروری ہے کہ وہ اذان کے کلمات اچھی طرح ادا کر لیتا ہو آواز بھی اچھی ہو اذان فرض کفایہ ہے ۔
➋ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اذان کے لیے اگر خاص مؤذن نہ بھی ہو تو کوئی حرج نہیں ہے جو اذان کہہ سکتا ہو اسے کہہ دینی چاہیے ۔
➌ امامت کا حق دار وہ شخص ہے جو علم کے اعتبار سے بڑا ہو ۔ صرف عمر میں بڑا مراد نہیں ہے ہاں دو آدمی علم و فقاہت میں یکساں ہیں تو پھر ان میں جو عمر کے اعتبار سے بڑا ہو وہ امامت کروا سکتا ہے ۔
➍ اذان کہنا اور امامت کروانا دونوں عمل ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر رواتب کے حامل ہیں کوئی موذن مقرر کرنا فرض نہیں ہے لیکن اذ ان فرض ہے اسی طرح کوئی امام مقرر کرنا فرض نہیں ہے لیکن جماعت کروانا اور امامت کرانا فرض ہے ۔

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔