ابلیس کا تعارف اور اس کی چال

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

459۔ ابلیس کا تعارف
جواب :
اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ أَمْرِ رَبِّهِ ۗ أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ ۚ بِئْسَ لِلظَّالِمِينَ بَدَلًا ‎» [الكهف: 50]
”اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا آدم کو سجدہ کرو تو انھوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس، وہ جنوں میں سے تھا، سو اس نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی، تو کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو، حالانکہ وہ تمھارے دشمن ہیں، وہ (شیطان) ظالموں کے لیے بطور بدل برا ہے۔“
اللہ تبارک و تعالیٰ اولاد آدم کو یہ تنبیہ کر رہے ہیں کہ ابلیس آپ کا اور آپ سے قبل تمھارے باپ کا دشمن ہے اور اللہ ان میں سے شیطان کی اتباع کرنے والوں اور اپنے اس خالق و مولا کی نافرمانی کرنے والوں کو جس نے انھیں پیدا کیا اور انھیں رزق و غذا عطا کی، ڈانٹ پلا رہے ہیں وہ اللہ کے ان بے شمار احسانات کے باوجود اس سے دور ہونے جا رہے ہیں اور ابلیس کی قربت چاہ رہے ہیں۔ (نعوذ باللہ)
«وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ» یعنی تمام فرشتوں کو ہم نے حکم دیا کہ وہ آدم کے شرف تعظیم اور تکریم کے لیے انھیں سجدہ کریں۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
«كان إبليس من حي من أحياء الملائكة يقال لهم: ألجن، خلقوا من نار السموم من بين الملائكة، وكان اسمه الحارث، وكان خازنا من خزان الجنة، وخلقت الملائكة من نور غير هذا الحي. قال: وخلقت الجن الذين ذكروا فى القرآن من مارج من نار، وهو لسان النار الذى يكون فى طرفها إذا التهبت»
”ابلیس فرشتوں کے قبیلوں میں سے ایک قبیلے میں سے تھا جنھیں الجن کہا جاتا ہے، فرشتوں کے درمیان انھیں لو والی آگ سے پیدا کیا گیا، اس کا نام حارث تھا اور وہ جنت کا ایک خازن تھا، اس قبیلے کے علاوہ بقیہ فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا اور وہ جن جس کا ذکر قرآن میں ہے، بھڑکنے والے آگ کے شعلے سے پیدا کیا گیا۔“

جواب :
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
«وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖ إِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ» [إبراهيم: 22]
”اور شیطان کہے گا، جب سارے کام کا فیصلہ کر دیا جائے گا کہ بے شک اللہ نے تم سے وعدہ کیا، سچا وعدہ اور میں نے تم سے وعدہ کیا تو میں نے تم سے خلاف ورزی کی اور میرا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا، سوائے اس کے کہ میں نے تمھیں بلایا تو تم نے میرا کہنا مان لیا، اب مجھے ملامت نہ کرو اور اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمھاری فریاد کو پہنچنے والا ہوں اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے ہو، بے شک میں اس کا انکار کرتا ہوں جو تم نے مجھے اس سے پہلے شریک بنایا۔ یقیناً جو لوگ ظالم ہیں انھی کے لیے دردناک عذاب ہے۔“
آیت مذکورہ میں اللہ تعالی ابلیس کی اپنے پیروکاروں سے خطاب کے بارے خبر دیتے ہیں اور یہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کے درمیان فیصلہ کرنے، مومنین کو جنتوں میں اور کافرین کو جہنم کی گہرائیوں میں داخل کرنے کے بعد ہوگا۔ پھر ابلیس ان کے غم پر مزید غم لانے کے لیے اور انھیں حسرت در حسرت، افسوس در افسوس دلانے کے لیے ان میں کھڑے ہو کر کہے گا :
«مَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ» یعنی جس کی طرف میں نے تمھیں دعوت دی تھی اور جس کا میں نے تمھیں وعدہ دیا تھا، میرے پاس اس کی کوئی حجت و دلیل نہیں تھی، میں نے صرف اتنا ہی کیا کہ «دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ» جب کہ رسولوں نے تم پر حجتیں قائم کیں اور اپنی لائی ہوئی دعوت میں تمھارے پاس صحیح دلائل لے کر آئے تھے، تم نے اس وقت ان کی مخالفت کی تھی جس کے عوض آج تم نے اس انجام کو پا لیا۔
«فَلَا تَلُومُونِي» تم آج مجھے ملامت نہ کرو، بلکہ « وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ» وه اپنے آپ کو ملامت کرو، کیونکہ گناہ تمھارا تھا، تم نے دلائل حقہ کی مخالفت کی اور میری اتباع کی، ابلیس نے اللہ کے ساتھ کبھی شرک نہیں کیا۔

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔