قبرپرآذان کی شرعی حیثیت
تحریر: غلام مصطفے ظہیر امن پوری
دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا بدعت سیئہ ہے، نہ احادیث میں اس کی کوئی اصل ہے اور نہ صحابہ کرام، تابعین عظام، ائمہ دین اور سلف صالحین کے زمانہ ہی میں اس کا کوئی وجود ملتاہے، یہ ہندوستان کی ایجاد ہے، اس کے باوجود ‘‘ قبوری فرقہ’’ اس کو جائز قرار دیتاہے، امام بریلویت احمد رضا خاں بریلوی نے اس مسئلہ پر‘‘ ایذان الاجرفی اذان القبر’’ کے نام سے ایک رسالہ بھی لکھا ہے، جس میں وہ حسن یا صحیح تو درکنار کوئی ضعیف اور موضوع (من گھڑت) روایت بھی اس بدعت کے ثبوت میں پیش نہیں کر سکے۔
اگر دفن کے بعد قبر پر اذان کہنا کوئی نیکی کا کام ہوتا یا شریعت کی رو سے میت کو کوئی فائدہ پہنچتا تو صحابہ کرام ضرور اس کا اہتمام کرتے، کیونکہ وہ سب سے بڑھ کر قرآن وسنت کے معانی، مفاہیم و مطالب اور تقاضوں کو سمجھنے والے اور ان کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والے تھے۔
چاروں اماموں سے بھی اس کا جواز یا استحباب منقول نہیں، مزے کی بات تو یہ ہے کہ حنفی مذہب کی تمام معتبر کتابوں میں اس بدعت قبیحہ کا نام ونشان تک نہیں ملتا، بلکہ بعض حنفی اماموں نے قبر پر اذان کے عدم جواز اور اس کے بدعت ہونے کی صراحت کی ہے۔
۱۔ درالبحارمیں ہے:
[arabic-font]
من البدع الّتی شاعت فی بلاد الھند الأذان علی القبر بعد الدّفن۔
[/arabic-font] (more…)