بدعات کے رد پر کتاب و سنت اور علماء اسلام کی تعلیمات

تحریر : غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری

✿ فرمان باری تعالیٰ ہے :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا [5-المائدة:3]
”آج کے دن میں نے تمہارے لیے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت کو مکمل کر دیا ہے اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر پسند کیا ہے۔“
↰ اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے تنصیصاً و تعلیلاً دین اسلام کی تکمیل کی خوشخبری سنائی ہے۔

◈ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (774-701ھ) لکھتے ہیں :
هذه أكبر نعم الله عزوجل على هذه الأمة حيث أكمل تعالي لهم دينهم، فلاتحتاجون إلي دين غيره، و لا إلي نبي غير نبيهم صلوات الله و سلامه عليه، ولهذا جعله الله تعالىٰ خاتم الأنبياء و بعثه إلي الإنس والجن، فلا حلال و لا إلا ما أحله، ولا إلا حرمه، ولادين إلا ما شرعه
”یہ اس امت پر اللہ تعالیٰ کی بڑی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے کہ اس نے ان کے لیے ان کا دین مکمل کر دیا ہے، وہ کسی اور دین کی طرف محتاج نہیں، نہ اپنے نبی کے علاوہ کسی نبی کی طرف محتاج ہیں۔ اسی لیے اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء بنا کر جن و انس دونوں کی طرف بھیجا ہے۔ حلال وہی ہے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال کیا ہے اور حرام وہی ہے، جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے اور دین صرف وہی ہے، جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کر دیا ہے۔“ [تفسير ابن كثير : 465/2]

❀ سیدنا عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لقد تركتكم على البيضاء ليلها كنهارها، لا يزيغ بعدي عنها إلا هالك
”یقیناً میں نے تم کو ایک واضح راستے پر چھوڑا ہے، جس کی رات اس کے دن ہی کی طرح (واضح) ہے۔ میرے بعد اس سے صرف ہلاک ہونے والا شخص ہی ہٹے گا۔“
[مسند الامام احمد : 126/4، سنن ابن ماجه : 43، السنة لابن ابي عاصم : 48، المستدرك على الصحيحين للحاكم : 96/1، وسندہ حسن]
↰ دین مکمل ہے، اس میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ بدعت دین میں اضافہ ہے، دین میں اضافہ کفار کی تقلید ہے، بدعت دین کے نام پر دین کے خلاف گھناؤنی سازش ہے۔ بدعت اسلام دشمنی کی واضح دلیل ہے۔ بدعت گناہ کی تجارت ہے۔
ہر بدعت ظلمت و ضلالت ہے۔ بدعت اتباع نفس ہے۔ بدعت انہدام اسلام ہے۔ ہر بدعت سیئہ اور قبیحہ ہے۔ جس کا م کی اصل قرآن و حدیث میں نہ ہو، وہ دین کا کام کیسے ہو سکتا ہے ؟

◈ علامہ شاطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فاعلمو أن البدعة لا يقبل معهاعبادة من صلاة ولا صيام و لا صدقة ولا غيرها من القربات ومجالس صاحبها تنزع منه العصمة و يوكل إلي نفسه، والماشي إلي و موقوة معين على هدم الإسلام، فما الظن بصاحبها، وهو ملعون على لسان الشريعة، ويزداد من الله بعبادته بعدا، وهى المظنة إلقاء العداوة و البغضاء، ومانعة، من الشفاعة المحمدية، ورافعة للسنن التى تقابلها، وعلي مبتدعها إثم من عمل بها، وليس له توبة، وتلقي عليه الذلة والغضب من الله، ويبعد عن حوض رسول الله صلى الله عليه وسلم، ويخاف عليه أن يكون معدودا فى الكفار الخار جين عن الملة، وسوء الخاتمة عند الخروج من الدنيا، ويسود وجهه فى الآخرة، يعذب بنار جهنم، وقد تبرأ منه رسول الله صلى الله عليه وسلم، و تبراٗمنه المسلمون، ويخاف عليه الفتنة فى الدنيا زياده إلي عذاب الآخرة . . .
”جان لو کہ بدعت کے ہوتے ہوئے نماز، روزہ اور صدقہ وغیرہ کی کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ بدعتی کی مجالس سے عصمت چھین لی جاتی ہے، وہ اپنے نفس کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔ بدعت کی طرف چلنے والا اور اس کی توقیر کرنے والا اسلام کو منہدم کرنے پر تعاون کرنے والا ہے۔ اب بدعتی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ وہ تو شریعت کی زبانی ملعون ہے، وہ اپنی عبادت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے دور ہی ہوتا ہے۔ بدعت دشمنی و بغاوت ڈالنے کا سبب، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کو روکنے والی اور اپنے مقابلے میں آنے والی سنتوں کو ختم کرنے والی ہوتی ہے۔ اس کو ایجاد کرنے والے پر ان تمام لوگوں کا گناہ ہو گا، جو اس پر عمل کریں گے۔ اس کے لیے کوئی توبہ نہیں ہو گی۔ اس پر ذلت اور اللہ تعالیٰ کا غضب ڈال دیا جائے گا، وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوض سے دور کر دیا جائے گا، اس کے بارے میں ڈر ہے کہ وہ اسلام سے خارج کفار میں شمار ہو جائے اور دنیا سے جاتے ہوئے سوئے خاتمہ کا شکار ہو جائے۔ آخرت میں اس کا چہرہ سیاہ ہو جائے گا اور اسے جنہم کا عذاب دیا جائے گا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیزاری کا اعلان کر دیا ہے، مسلمان بھی اس سے بری ہیں۔ ڈر ہے کہ آخرت کے عذاب کے ساتھ ساتھ اسے دنیا میں بھی کوئی بڑا فتنہ آن لے۔“ [الاعتصام للمشاطبي : 107-106/1]

◈ فقیہ الامت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن أحسن الحديث كتاب الله، وأحسن الهدي هدي محمد صلى الله عليه وسلم، وشر الأمور محدثاتها، وإن الشقي من شقي فى بطن امه، وإن السيعد من وعظ بغيره، فاتبعوا ولاتبتدعوا .
”بلاشبہ بہترین بات اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے، بدترین کام بدعت کے کام ہیں۔ بدبخت وہی ہے، جو اپنے ماں کے پیٹ میں بدبخت ہو گیا تھا (تقدیر میں لکھ دیا گیا تھا) اور نیک بخت وہ ہے، جو اپنے غیر کے ساتھ نصیحت کیا جائے، لہٰذا تم اتباع کرو، بدعت ایجاد نہ کرو۔“ [الاعتقاد للبيهقي : 306، وسندہ صحيح]

◈ امام ربانی شیخ الاسلام ثانی ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
فإن السنة بالذات تمحق البدعة، ولا تقوم لها، وإذا طلعت شمسها فى قلب العبد قطعت من قلبه ضباب كل بدعة و ازالت ظلمة كل ضلالة، إذلا سلطان للظلمة مع سلطان الشمس، ولا يرى العبد الفرق بين السنة و البدعة، و يعينه على الخروج من ظلمتها إلي نور السنة إلا المتابعة و الهجرة بقلبه كل وقت إلي الله بالاستعانة و الٕاخلاص و صدق اللجإ إلي الله والهجرة إلي رسوله بالحرض على الوصول إلي اقواله و اعماله و هديه و سننه، فمن كانت هجرته إلي الله و رسوله فهجرته إلي الله و رسوله، ومن هاجر إلي غير ذلك فهو حظه و نصيبه فى الدنيا و الآخرة۔ والله المستعان!
”سنت خود بخود بدعت کو ختم کرتی ہے، بدعت، سنت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ جب سنت کا سورج کسی بندے کے دل میں طلوع ہو جاتا ہے تو اس کے دل سے ہر بدعت کی دھند کو ختم کر دیتا ہے اور ظلمت کے ہر اندھیرے کو زائل کر دیتا ہے، کیونکہ سورج کی طاقت کے سامنے ظلمت کی طاقت کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ آدمی سنت اور بدعت میں کوئی فرق نہیں سمجھتا، اسے بدعت کی ظلمت سے سنت کی روشنی کی طرف صرف یہی بات لے جا سکتی ہے کہ آدمی سنت کی پیروی کرے، اپنے دل کو ہر وقت سب کچھ چھوڑ کر اللہ تعالیٰ سے استعانت، اخلاص اور سچی تڑپ میں رکھے اور سب کچھ چھوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کے طریقے کی تلاش میں رہے۔ (سب کچھ چھوڑ کر) جس آدمی کی ہجرت اللہ تعالی اور اس کے رسول کے لیے ہوئی، اس کی ہجرت مقبول ہو گی اور جس نے کسی غیر کی طرف ہجرت کی تو دنیا و آخرت وہی اس کا نصیب و حصہ ہے۔“ [مدارج السالكين لابن القيم : 374/1]
↰ بدعت بے اصل اور بے ثبوت کام کو کہتے ہیں۔

✿ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ [17-الإسراء:36]
”اور آپ اس چیز کے پیچھے نہ پڑیں، جس کا آپ کو علم نہیں۔“

✿ مزید فرمایا :
إِنْ يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنْفُسُ وَلَقَدْ جَاءَهُمْ مِنْ رَبِّهِمُ الْهُدَى [53-النجم:23]
”وہ تو صرف ظن اور اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آئی ہے۔“ ’
↰ علم تو قرآن و حدیث ہے۔ جس دین کے ثبوت پر دلیل شرعی نہ ہو، وہ بغیر علم کے ہو وہ بدعت ہے۔ بدعت نفس پرستی کا نتیجہ ہے۔

✿ فرمان باری تعالیٰ :
قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ غَيْرَ الْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعُوا أَهْوَاءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوا مِنْ قَبْلُ وَأَضَلُّوا كَثِيرًا وَضَلُّوا عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ [5-المائدة:77]
”(اے نبی! کہہ دیجیے) اے اہل کتاب! تم اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور نہ ان لوگوں کی راہ پر چلو، جو پہلے خود گمراہ ہوئے اور پھر بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا اور وہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔“

✿ نیز فرمایا :
وَإِنَّ كَثِيرًا لَيُضِلُّونَ بِأَهْوَائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ [6-الأنعام:119]
”اور بے شک بہت سے لوگ اپنی خواہشات کے ساتھ لوگوں کو بغیر علم کے گمراہ کرتے ہیں۔“
↰ یہ آیت کریمہ بدعتی کی مذمت کرتی ہے کہ وہ قرآن و حدیث کے بغیر دین میں بدعت جاری کر کے لوگوں کو گمراہ کرتا ہے۔

✿ مزید فرمان باری تعالی ہے :
لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ [16-النحل:25]
”تاکہ وہ روز قیامت اپنے پورے بوجھ بھی اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھ بھی، جن کو انہوں نے بغیر علم کے گمراہ کیا، خبردار برا ہے جو وہ بوجھ اٹھائیں گے۔“
↰ بدعتی، بدعت کا وبال سر پر اٹھائے گا، بدعت کو رائج کرنے کا وبال بھی اس کے سر ہو گا۔

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ومعلوم أن كلما لم يمسنه ولا استحبه رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا أحد من هؤلاء الذين يقتدي بهم المسلمون يكون من البدع المنكرات، ولا يقول اٗحد فى مثل هذا : إنه بدعة حسنة، إذ البدعة الحسنة عند من يقسم البدع إلي حسنة و سيئة لا بدا أن يستحبها أحد من أهل العلم الذين يقتدي بهم، ويقوم دليل شرعي استحبابها، وكذلك من يقول : البدعة الشرعية كلها مذمومة لقوله صلى الله عليه و سلم فى الحديث الصحيح : ”كل بدعة صلالة“ و يقول عمر فى التراويح : نعمة البدعة هذه، إنما سماها بدعة باعتبار وضع اللغة، فالبدعة فى الشرع عندهؤلاء ما لم يقم دليل شرعي على استحبابه، و مآل القولين واحد، إذهم متفقون على أن ما لم يستحب أويجب من الشرع فليس هوا جب ولا مستحب، فمن اتخذعملا من الاٗعمال عبادة و دينا، وليس ذلك فى الشريعة و اجبار و لا مستحبا فهو ضال باتفاق المسلمين۔۔۔۔
”یہ بات تو معلوم ہے کہ ہر وہ چیز جسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جاری نہیں کیا، نہ اسے پسند کیا ہے اور نہ ہی اسے کسی اس شخص نے پسند کیا ہے، جن کی مسلمان اپنے دین میں پیروی کرتے ہیں، وہ منکر بدعات میں سے ہے، کوئی بھی اس طرح کی بات کو بدعت حسنہ نہیں کہتا، کیونکہ جو شخص بدعت کو حسنہ اور سیئہ میں تقسیم کرتا ہے، اس کے نزدیک بدعت حسنہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ان اہل علم میں سے کوئی اس کو مستحب قرار دے، جن کی پیروی کی جاتی ہے، نیز اس کے استحباب پر کوئی دلیل شرعی قائم ہو۔ اسی طرح جو شخص کہتا ہے کہ صحیح حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی وجہ سے ہر شرعی بدعت مذموم ہے : كلّ بدعة ضلالة ”ہر بدعت گمراہی ہے“، اس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تروایح کے بارے میں جو فرماتے ہیں کہ یہ اچھی بدعت ہے، اس کا نام انہوں نے لغت کی وضع کے اعتبار سے رکھا ہے، لہٰذا ان کے نزدیک شریعت میں ہر وہ کام بدعت ہے، جس کے استحباب پر کوئی دلیل شرعی قائم نہ ہو۔ دونوں اقوال کا نتیجہ ایک ہی ہے، کیونکہ سب اس بات پر تو متفق ہیں کہ شریعت میں جو کام واجب یا مستحب نہیں، وہ واجب نہیں ہو سکتا، چنانچہ جس نے کسی ایسے عمل کو اختیار کیا، جو شریعت میں واجب یا مستحب نہیں ہے تو ایسا شخص باتفاق المسلمین گمراہ ہے۔“ [مجموع الفتاوي لابن تيمية : 152/7]

 

اس تحریر کو اب تک 38 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply