گستاخ رسول عقب ابن ابی لھب کے شیر نے پرخچے اڑا دیئے

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ
حضور کا چہرہ جیسے بجلیاں چمکتی ہیں
ایک بار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا تو چہرے کی دھاریاں چمک اٹھیں یہ کیفیت دیکھ کر حضرت عائشہ صدیقہ عنہا نے ابوکبیر هذلی کا یہ شعر پڑھا
واذا نظرت الى اسرة وجهه
برقت كبرق العارض المتهلل

جب ان کے چہرے کی دھاریاں دیکھو تو یوں چمکتی ہیں جیسے روشن بادل چمک رہا ہو۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ ضعیف۔
[سلسلة الأحاديث الضعيفة تحت رقم الحديث 4144]
——————
جس گفتگو کی ابتداء میں حمد و ثنا نہ ہو وہ بے برکت ہے
ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : جس کلام کا آغاز الله کی حمد و ثنا سے نہ ہو وہ بے برکت ہے۔
تحقیق الحدیث :
ضعیف ہے۔
[ابو داؤد: كتاب الادب، باب 21 حديث 4840، ابن ماجه : كتاب النكاح باب 19 حديث 1894]
——————
شیخ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، [الارواء 2، تخريج مشكاة المصابيح 3151]

اس میں قره راوی متکلم فیہ ہے
——————

قصہ بوانہ بت کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے عزیزوں کا زبردستی لےجانا
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے ام ایمن رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہتی ہیں ( مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بستی ) بوانہ میں ایک بت تھا۔ قریش اس کے پاس حاضر ہوتے اس کی تعظیم کرتے اس کے چرنوں میں بھینٹ چڑھایا کرتے۔ اس کے پاس سر منڈواتے اور پورادن اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہ ان کا سالانہ دن ہوتا تھا۔
ابوطالب بھی اپنی قوم سمیت وہاں جایا کرتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی چلنے کے لئے کہا کرتا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم انکار فرما دیا کرتے۔ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ ابوطالب رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سخت ناراض ہوا اور کہنے لگا، تم نے ہمارے خداؤں کے خلاف جو روش اپنا رکھی ہے مجھے یہ خطرناک محسوس ہونے گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیاں بھی اس دن آپ پر سخت ناراض تھیں۔ کہنے لگیں اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قوم کی عید میں تمہارے شامل ہونے سے ایک فرد کا اضافہ ہو جائے تو اس میں کیا حرج ہے۔
چنانچہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کومجبور کر کے لے گئے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے غائب ہو گئے جب تک کے لئے اللہ نے چاہا۔ پھر واپس تشریف لائے تو گھبرائے ہوئے تھے۔
پھوپھیوں نے پوچھا کیوں گھبرائے ہوئے ہو؟ فرمانے لگے مجھے ڈر ہے کہ مجھے کوئی اثر ہو جائے گا۔ کہنے لگیں اللہ تعالیٰ تمہیں شیطان کے فتنہ سے محفوظ رکھے گا۔ تم میں تو ہر بھلائی موجود ہے تو تم نے کیا دیکھا ہے؟ فرمایا میں نے جب بھی بت کے قریب ہونا چاہا ایک دراز قامت سفید رنگ آدمھی میرے سامنے آتا اور چیخ چیخ کر کہتا اے محمد! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پیچھے ہٹ جاؤ اسے مت ہاتھ لگانا۔
ام ایمن رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ اس کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قوم کی عید میں بھی شامل نہیں ہوئے۔
تحقیق الحدیث :
اسنادہ موضوع۔
اس کو ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں بیان کیا ہے اور یہ من گھٹرت واقعہ ہے۔
اس میں ابو بکر بن عبد اللہ بن ابی سبرہ کو بخاری نے ضعیف کہا ہے۔
اور اس کو بعض ناقدین نے یضع الحدیث حدیثیں گھڑا کرتا ہے بھی کہا ہے۔ دیکھیں۔ میزان الاعتدال (341/6) تهذيب التهذيب ( 27/12 (138) تقريب التهذيب (397/0 ) سير اعلام النبلاء (330/7 ) التاريخ الكبير (9/9) مجمع الزوائد ( 113/10 ) المغنی (7351) المحرومین (147/3 ) الضعفاء والمتروکین (3891) طبقات ابن سعد (341/5 ) تهذيب الكمال (1582)
——————

قریش کی پیشکش عماره لے لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے دو
جب قریش کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوئی کہ ابوطالب نہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معاونت سے باز آئیں گے اور نہ وہ ان کے حوالہ کریں گے اور وہ اس بات پر آمادہ ہیں کہ اس معاملہ میں ان سے مکمل طور قطع تعلق کر لیں اور دشمنی پر آمادہ ہیں۔ تو وہ عمارہ بن ولید بن مغیرہ کو لے کر ان کے پاس آئے اور کہا ابو طالب یہ عمارہ بن الولید ہے۔ قریش کا سب سے زیادہ تنومند، وجیہ اور خوبصورت جوان ہے، اس کو تم لے لو اس کی عقل اور طاقت سے فائدہ اٹھاؤ اس کو اپنا بیٹا بنا لو۔ ہم یہ تم کو دیتے ہیں اور تم اپنے بھتیجے کو جس نے تمہارے اور تمہارے آباء کے مذہب کی توہین کی ہے اور ہمارے قومی شیرازے کو بکھیر دیا ہے اور ان کو احمق ٹھہرایا ہے، ہمارے حوالے کر دو تا کہ ہم اسے قتل کر دیں ایک آدمی کے بدلے میں آدمی موجود ہے۔
ابوطالب نے کہا اللہ کی قسم ! یہ برا سودا ہے جوتم مجھ سے کرنا چاہتے ہو، تم اپنا بیٹا مجھے دیتے ہو کہ میں اسے تمہاری خاطر لیے پھروں اور اپنے بیٹے کو تمہارے حوالے کر دوں تا کہ تم اسے قتل کر دو ایسا ہرگہ نہ ہوگا۔ مطعم بن عدی بن نوفل بن عبد مناف نے کہا اے ابو طالب تمہاری قوم نے تمہارے مقابلے میں انصاف کیا ہے اور اس بات کی کوشش کی ہے کہ تم کو اس حالت سے جسے خود تم برا سمجھتے ہو اس طرح نکال لیں مگر میرا خیال ہے کہ تم ان کی کسی بات کو بھی نہیں ماننا چاہتے۔ ابوطالب نے اس سے کہا انہوں نے ہرگز میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے؟ بلکہ تم میرا ساتھ چھوڑنے کا ارادہ کر چکے ہو اور ان سب کو میرے خلاف لے آئے ہواب جو دل چاہے کرو۔
تحقیق الحدیث :
ابن اسحاق نے اس کی کوئی سند بیان نہیں کی تو بے سند کوئی واقعہ قابل قبول نہیں ہوتا۔ سیرت ابن هشام مع الروض الانف جلد 2 صفحہ (8) اس واقعہ کو صفی الرحمن مبارک پوری نے اپنی الرحیق المختوم میں بھی ابن هشام کے حوالے سے نقل کیا ہے جبکہ یہ صحیح نہیں ہے۔

اگر میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں پر چاند ر کھ دیں تو بھی میں اپنے مشن سے انحراف نہ کروں گا
عقیل بن ابی طالب سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ کفارقریش ابوطالب کے پاس آئے اور کہنے لگے اے ابو طالب آپ کا بھتیجا ہمیں ہماری مجالس میں تکلیف پہنچاتا ہے آپ اس کو منع کریں چنانچہ ابو طالب نے عقیل (اپنے بیٹے ) کو بھیجا کہ جاؤ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا کر لاؤ عقیل کہتے ہیں میں آپ کو لینے گیا آپ ایک چھوٹے سے گھر میں تھے میں نے ان کو ساتھ لیا شدید گری تھی آپ دھوپ سے بچنے کے لئے سایہ میں چل رہے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابو طالب کے پاس پہنچے تو ابوطالب نے آپ سے کہا یہ آپ کے چچازاد ہیں یہ میرے پاس آپ کی شکایت کر رہے ہیں کہ آپ ان کو ان کی مجلس میں اور ان کی مسجد میں تکلیف دیتے ہیں تو آپ ان کو ایذاء دینے سے باز رہیں یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نظروں کو آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر قریش کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا کیا تم اس سورج کو دیکھتے ہو انہوں نے کہا ہاں: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ میرے بس میں نہیں کہ میں تمہیں دعوت دینا چھوڑ دو خواہ تم اس سورج میں سے ایک شعلہ ہی لے آؤ۔ اس پر ابو طالب نے کہا میرے بھائی کے بیٹے نے غلط نہیں کہا لہذا تم جا سکتے ہو۔
[مستدرك للحاكم 577/3 رقم الحديث 4667 ]
تحقیق الحدیث :
[السيرة النبويه 160/1 ]
اس کی سند ضعیف ہے۔
اس میں طلحہ دبن یحییٰ راوی متکلم فیہ ہے۔

ایک اور روایت کے الفاظ ہیں : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے چچا اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند لا کر رکھ دیں کہ میں اس دعوت کو چھوڑ دوتو بھی میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
تحقیق الحدیث :
یہ روایت ابن جریر میں معضل سند کے ساتھ ہے۔
شیخ البانی نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے۔ [تعليقات الألباني على فقه السيرة 1105،114 سلسلة الأحاديث الضعيفة 311/2 ]

اس رومال کو آگ نے نہ جلایا جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پسینہ صاف کیا
روایت ہے جو رومال آپ کے چہرة اقدس کو مس کر لیتا اس پر آگ اثر نہ کرتی تھی۔ کچھ آدمی حضرت انس رضی اللہ عنہ کے ہاں مہمان ٹھہرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے کھانا لائے۔ خورد و نوش کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کنیز کو بلایا اور رومال لانے کے لیے کہا۔ وہ کنیز ایک میلا سارا مال لے آئی اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے اسے آگ جلانے کے لیے کہا۔ بعدازاں کہا کہ اس رومال کو آگ میں پھینک دے۔ کچھ دیر بعد جب رومال کو باہر نکالا گیا تو وہ دودھ کی طرح سفید ہو چکا تھا اور ذرا بھی نہ جلا۔ انہوں نے پوچھا : یہ کیا ماجرا ہے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہنے لگے : یہ وہ رومال ہے جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا چہرہ مبارک صاف فرمایا کرتے تھے۔ جب میلا ہو جاتا ہے تو ہم اسے آگ میں ڈال کر پاک کر لیتے ہیں اور آگ اس پر اثر نہیں کرتی۔
تحقیق الحدیث :
یہ روایت صحیح نہیں نہ ہی اس کی کوئی سند نظر سے گزری نہ ہی کسی مستند کتاب میں یہ موجود ہے۔
——————

بچین میں شادی کی ایک تقریب میں شرکت
سیدنا علی بن ابی طالب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے میں نے کبھی ان کاموں کا ارادہ نہیں کیا جس کا ارادہ اھل جاهلییت کر تے تھے دو مرتبہ کے علا وہ مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے دونوں مرتبہ ہی بچالیا۔ ایک دفعہ میں نے اپنے نوجوان قر یشی ساتھی سے کہا جو مکہ کے بالائی حصے میں میرے ساتھ اپنی بکریاں چراتا تھا تم میری بکریوں کا خیال رکھنا میں آج رات جاگ کر گزاروں گا۔ جس طرح مکہ کے نوجوان جاگتے رہتے ہیں۔ تو میرے ساتھی نے کہا نعم ٹھیک ہے (آپ جائیں میں آپ کی بکریوں کا خیال رکھوں گا ) اس کے بعد میں نکلا اور مکہ کے پہلے ہی گھر میں پہنچا تو وہاں سے گانے کی آواز آئی میں نے (ان لوگوں میں سے کسی سے پوچھا) یہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ فلاں قریشی نوجوان کی فلاں عورت سے شادی ہوئی ہے۔ جب میں اس گانے اور آواز کی طرف مائل ہوا تو نیند آ گئی مجھے صبح سورج کی کرنیں پڑنے پر جاگ آئی تو میں اپنے ساتھی کے پاس چلا گیا اس نے پوچھا بتایئے کیا دیکھا سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اسے سارا واقعہ سنایا۔ اس کے بعد ایک رات پھر میں نے وہی بات اس سے کہی اور میں نکلا تو بھی ایک محفل میں گیا اسی قسم کی آواز میں سنیں مجھے وہی بتایا گیا جو پہلے بتایا گیا تھا۔
مجھے پھر اسی طرح نیند آ گئی جس طرح پہلے آئی تھی اسی طرح سورج کی تمازت سے میں بیدار ہوا پھر میں اپنے ساتھی کے پاس آیا اس نے مجھے پوچھا آپ نے کیا کیا، میں نے کہا کچھ نہیں کیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اللہ کی قسم ! اس کے بعد دوبارہ میں نے کبھی ان کاموں کا ارادہ نہیں کیا یہاں تک کہ الله تعالی نے مجھے شرف نبوت سے نواز دیا۔
تحقیق الحدیث :
[صحيح ابن حبان: كتاب التاريخ باب 129حديث رقم 6272 ]
حافظ ابن کثیر نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔ دیکھیں [البدايه و النهاية]
اس میں محمد بن عبد اللہ بن قیس بن محزمہ کو حافظ ابن حجر نے مقبول کیا ہے۔
[تقريب التهذيب 6064 تهذيب التهذيب 272/9 ]
مقبول کی روایت متابعت کی محتاج ہوتی ہے۔
یہ روایت طبرانی میں عمار بن یاسرسے مروی ہے۔ مگر اس میں مجھول راوی ہیں۔ دیکھیں [فقه السيرة للغز الي 72ٓ،73 از تعليقات الباني۔ ]
ابن ابی حاتم نے عبداللہ بن قیس بن محزمہ کو مجھول کہا ہے۔
——————

گستاخ رسول عقب ابن ابی لھب کے شیر نے پرخچے اڑا دیئے
ابن عساکر میں ہے کہ ابولہب اور اس کا بیٹا عتبہ شام کے سفر کی تیاریاں کرنے لگے اس کے بیٹے نے کہا سفر میں جانے سے پہلے ذرا ایک مرتبہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کو ان کے سامنے گالیاں تو دے آؤں چنانچہ یہ آیا اور کہا : اے محمد ! جو قریب ہوا اور اترا اور دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک آگیا، میں تو اس کا منکر ہوں ( چونکہ یہ ناہنجار سخت بے ادب تھا اور بار بار گستاخی سے پیش آتا تھا) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے اس کیلئے بددعا نکل گئی کہ باری تعالیٰ اپنے کتوں میں سے ایک کتا اس پر مقرر کر دے، یہ جب لوٹ کر اپنے باپ کے پاس آیا اور ساری باتیں کہہ سنائیں تو اس نے کہا بیٹا! اب مجھے تو تیری جان کا اندیشہ ہو گیا اس کی دعا رد نہ جائے گی اس کے بعد یہ قافلہ یہاں سے روانہ ہوا شام کی سرزمین میں ایک راہب کے عبادت خانے کے پاس پڑاؤ کیا راہب نے ان سے کہا یہاں تو بھیڑیئے اس طرح پھرتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ تم یہاں کیوں آئے ؟ ابولہب یہ سن کر ٹٹھک گیا اور تمام قافلے والوں کو جمع کر کے کہا دیکھو میرے بڑھاپے کا حال تمہیں معلوم ہے اور تم جانتے ہو کہ میرے کیسے حقوق تم پر ہیں آج میں تم سے ایک عرض کرتا ہوں امید ہے کہ تم سب اسے قبول کرد گئے بات یہ ہے کہ مدعی نبوت نے میرے جگر گوشے کیلئے بد دعا کی ہے اور مجھے اس کی جان کا خطرہ ہے تم اپنا اسباب اس عبادت خانے کے پاس جمع کرو اور اس پر میرے پیارے بچے کو سلاؤ اور تم سب اس کے اردگرد پہرا دو، لوگوں نے اسے منظور کرلیا یہ اپنے سب جتن کر کے ہوشیار ہے کہ اچانک شیر آیا اور سب کے منہ سونگھنے لگا جب سب کے منہ سونگھ چکا اور گویا جسے تلاش کر رہا تھا اسے نہ پایا تو پچھلے پیروں ہٹ کر بہت زور سے جست کی اور ایک چھلانگ میں اس مچان پہنچ گیا وہاں جا کر اس کا بھی منہ سونگھا اور گویا وہی اس کا مطلوب تھا پھر تو اس نے اس کے پرخچے اڑادیئے، چیر پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑےکر ڈالا اس وقت ابولہب کہنے لگا اس کا تو مجھے پہلے ہی سے یقین تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بددعا کے بعد یہ بچ نہیں سکتا۔
تحقیق الحدیث :
اس کی سند محمد بن اسحاق کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف ہے۔
اس کو حاکم نے مستدرك 539/2 میں بیان کیا ہے۔
اس میں عباس بن الفضل راوی ضعیف ہے۔
یہ راویت اپنے تمام طریق کے ساتھ نا قابل حجت ہے ابونعیم فی دلائل النبوة389، 392 رواه ابن حجر في الفتح (39/4) مجمع الزوائد (19/6)
ہیثمی کہتے ہیں اس کو طبرانی نے مرسلاً روایت کیا ہے اور اس میں زہیر بن علاء راوی ضعیف ہے۔

اس تحریر کو اب تک 14 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply