کیا گمراہی کا سبب شیطان ہے؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

135۔ کیا گمراہی کا سبب شیطان ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان :
فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ إِنَّهُمُ اتَّخَذُوا الشَّيَاطِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُم مُّهْتَدُونَ ﴿٣٠﴾
”ایک گروہ کو اس نے ہدایت دی اور ایک گروہ، ان پر گمراہی ثابت ہو چکی، بے شک انھوں نے اللہ کو چھوڑ کر شیطانوں کو دوست بنا لیا اور سمجھتے ہیں کہ یقینا وہ ہدایت پانے والے ہیں۔ “ [الأعراف: 30]
کے مطابق گمراہی پر دلالت کرنے والے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔ برخلاف اس شخص کے جس نے یہ گمان کر لیا کہ اللہ کسی بندے کو اس معصیت پر نہیں پکڑتا، جس کا اس نے ارتکاب کیا یا ایسی ضلالت پر جس کا اس نے عقیدہ رکھا، حتی کہ وہ اس کی صحیح حقیقت کو جان لے، پھر وہ اس میں اپنے رب کی دشمنی کرتے ہوئے اس کا ارتکاب کرے، اس لیے کہ اگر ایسے ہوتا تو خود کو ہدایت پر سمجھنے والے گمراہ فریق اور ہدایت پرست فریق کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا، جب کہ اللہ نے ان کے درمیان فرق رکھا ہے اور ان کے علاحدہ علاحدہ احکام بیان فرمائے ہیں۔
یقیناً اللہ تعالیٰ نے کتاب نازل کی، تا کہ وہ جہان والوں کے لیے ہدایت کا راستہ ہو اور اس نے اپنے آخری رسول کو اس بات کا مکلف ٹھہرایا کہ وہ مخلوق کے سامنے ان کی طرف نازل ہونے والی وحی کو واضح کرے اور ہر عقلمند کے لیے حق و باطل دونوں راستوں کی نشان دہی کرے، مزید برآں اللہ نے انسان کو اس فطرت سے نوازا، جس کے ذریعے وہ حق و باطل کے درمیان تمیز کرے اور اس نے ہم پر شیاطین کو بطور آزمایش مسلط کیا ہے، پھر جو شیطان کی نافرمانی کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا، یقیناً وہ کامیاب و کامران ٹھہر ے گا اور جس نے شیطان کی اطاعت کی وہ گمراہ ٹھہرے گا اور تباہ ہو جائے گا۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ﴿٧﴾ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴿٨﴾
”تو جو شخص ایک ذرہ برابر نیکی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔ اور جو شخص ایک ذرہ برابر برائی کرے گا اسے دیکھ لے گا۔“ [الزلزل: 8 , 7 ]

——————

131۔ کیا بخل خیال شیطان کی جانب سے ہے ؟
جواب :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرانی ہے :
الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّـهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۗ وَاللَّـهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ﴿٢٦٨﴾
”شیطان تمھیں فقر کا ڈراوا دیتا ہے اور تمھیں شرمناک بخل کا حکم دیتا ہے اور اللہ تمھیں اپنی طرف سے بڑی بخشش اور فضل کا وعدہ دیتا ہے، اور اللہ وسعت والا، سب کچھ جانے والا ہے۔“ [ البقرة: 268 ]
شیطان انسان کو فقر کا خوف دلاتا ہے، تا کہ وہ اپنا خزانہ اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرے اور اس کے دل میں یہ خیال پیدا کرتا ہے کہ مال خرچ کرنے سے تو فقير و محتاج ہو جائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ ہر مومن کو اس آیت کریمہ کے ذریعے اطمینان دلاتے ہیں کہ خرچ کرنے سے تم محتاج نہیں ہوگے۔
اللہ تعالیٰ اس آیت کریمہ میں بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل لامتناہی اور اس کا رزق لا محدود ہے۔ اللہ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں، جو کبھی ختم نہیں ہوتے۔
——————

132۔ کیا یہودیوں نے کہا کہ سلیمان بن داؤد جادوگر تھے ؟
جواب :
جب قرآن مجید میں سلیمان علیہ السلام کا ذکر نازل ہوا تو مدینے کے یہودیوں نے کہا: کیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سلیمان بن داود کو نبی کہتا ہے؟ اللہ کی قسم ! وہ (سلیمان علیہ السلام ) تو ایک جادوگر تھا، تو اللہ تعالیٰ نے پھر یہ آیت کریمہ نازل فرمائی، جس میں سلیمان علیہ السلام کی براء ت کا ذکر کیا :
وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَـٰكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا
اور سلیمان نے کفر نہیں کیا اور لیکن شیطانوں نے کفر کیا۔ [البقرة: 102 ]
——————

133۔ کیا شیطان انسان کو رسوا کرتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں! اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرانی ہے :
لَّقَدْ أَضَلَّنِي عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ إِذْ جَاءَنِي ۗ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴿٢٩﴾
” بے شک اس نے تو مجھے نصیحت سے گمراہ کر دیا، اس کے بعد کہ میرے پاس آئی اور شیطان ہمیشہ انسان کو چھوڑ جانے والاہے۔“ [الفرقان: 29]
یعنی قرآنی احکام کے مجھ تک پہنچنے کے بعد اس نے مجھے قرآن سے دور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِلْإِنسَانِ خَذُولًا ﴿٢٩﴾ [الفرقان: ۲۹]
یعنی شیطان حق سے دور کرتا اور پھیرتا ہے اور انسان کو باطل کاموں میں استعمال کرتا اور باطل کاموں ہی کی طرف دعوت دیتا ہے۔
——————

134۔ کیا جھگڑا شیطانی عمل ہے ؟
جواب :
جی ہاں! کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
وَمِنَ النَّاسِ مَن يُجَادِلُ فِي اللَّـهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَّرِيدٍ ﴿٣﴾
اور لوگوں میں کوئی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں کچھ جانے بغیر جھگڑتا ہے اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چلتا ہے۔“ [الحج: 3]
اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد دوبارہ جی اٹھنے کو جھٹلانے والوں، اس کی مردوں کو زندہ کرنے کی قدرت کا انکار کرنے والوں اور انبیاء علیہم السلام پر نازل شده شریعت سے اعراض کرنے والوں کی مذمت کی ہے۔ ایسا شخص اپنے قول، انکار اور کفر میں جن و انس کے ہر سرکش شیطان کی اتباع کرنے والا ہے۔ حق سے اعراض کرنے والوں، گمراہ سرداروں کے اقوال کی اتباع کرنے والوں، اپنی خواہشات اور آرا کے ساتھ بدعات کی طرف دعوت دینے والے بدعتی لوگوں کا بھی یہی کردار ہے۔
آیت مذکورہ میں اللہ نے انھیں لوگوں کا تذکرہ کیا اور ان کی مذمت کی ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
”باہمی جھگڑوں کو ترک کر دو، اس لیے کہ یہ بے سود کام ہے اور اس کے فتنے سے حفاظت ناممکن ہے۔ “
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا:
”جھگڑا دلوں کو سخت کر دیتا اور کینوں کا موجب ہے۔ “
بلال بن سعد رحمہ اللہ نے فرمایا:
”جب آپ کسی شخص کو بات بات پر جھگڑا کرنے والا اور اپنی رائے پر خوش ہونے والا دیکھیں، (تو سمجھ لیں) وہ مکمل خسارے میں ہے۔ “
——————

136۔ کیا مومنین کو غمگین کرنے والی سرگوشی شیطان کی طرف سے ہوتی ہے ؟
جواب :
اس سوال کا جواب اللہ کے اس فرمان میں ہے۔
إِنَّمَا النَّجْوَىٰ مِنَ الشَّيْطَانِ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ وَعَلَى اللَّـهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ ﴿١٠﴾
”یہ سرگوشی تو شیطان ہی کی طرف سے ہے، تاکہ وہ ان لوگوں کو غم میں مبتلا کرے جو ایمان لائے، حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر انھیں ہرگز کوئی نقصان پہنچانے والا نہیں اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ مومن بھروسا کریں۔‘‘ [ المجادلة: 10 ]
النَّجْوَىٰ سرگوشی کو کہتے ہیں، جس کے نتیجے میں کوئی مومن بدگمانی کا شکار ہو سکتا ہے۔ مِنَ الشَّيْطَانِ شیطان کی جانب سے ہونے کا مطلب شیطان کا اسے مزین و خوبصورت بنا کر پیش کرنا ہے۔ لِيَحْزُنَ الَّذِينَ آمَنُوا یعنی تاکہ وہ انھیں غم میں مبتلا کرے۔ فرمان باری تعالیٰ :
وَلَيْسَ بِضَارِّهِمْ شَيْئًا إِلَّا بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ
میں اذن الهي سے مراد اللہ کی مشیت ہے اور ایک قول کے مطابق اس کا علم ہے۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کا قول ہے:
”جس نے اس (سرگوشی) سے کچھ بدگمانی محسوس کی، اس پر لازم ہے کہ وہ اللہ کی پناہ مانگے اور اس پر توکل کرے، پھر اس کو وہ سرگوشی اللہ کے اذان کے بغیر کوئی مضر نہیں پہنچائے گی۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إذا كان ثلاثة فلا يتناجي اثنان دو واحد
’’جب (کسی جگہ ) تین آدمی ہوں تو ان میں سے دو تیسرے سے الگ ہو کر سرگوشی نہ کریں۔“ [صحيح البخاري، رقم الحديث 5930 صحيح مسلم 2183 ]
——————

137۔ کیا غیر اللہ کی قسم بھی شیطان کی طرف سے ہے ؟
جواب :
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا : میں نے لات و عزی کی قسم کھا لی۔ میرے ساتھیوں نے مجھے کہا: تو نے بہت بری بات کی ہے، تو نے تو بیہودہ بات کی ہے۔ پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
قل : لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، وانفث عن شمالك ثلاثا، وتعوذ بالله من الشيطان الرجيم، ثم لا تعد
لا إله إلا الله وحده لا شريك له، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير ، پڑھو اور اپنی بائیں جانب تین دفعہ تھوکو اور شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگو اور آئندہ کبھی یہ کام نہ کرنا۔“ [سنن النسائي الكبرى 6 / 245 ]
——————

138۔ انسان کے خلاف شیطان کی مدد کرنا ممکن ہے ؟
جواب :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کو لایا گیا، جس نے شراب پی رکھی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اضربوه ”اس کو مارو۔“
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی اسے ہاتھ سے مارنے والا تھا تو کوئی اپنے جوتے کے ساتھ اور کوئی کپڑے کے ساتھ مارنے والا تھا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف مڑے تو کچھ لوگ کہنے لگے۔ اللہ نے اسے رسوا کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تقولوا هكذا، لا تعينوا عليه الشيطان
” ایسے نہ ہو اس کے خلاف شیطان کی مدد نہ کرو۔“ [صحيح بخاري، رقم الحديث ]
——————

139۔ شیطان اور سلیمان کی دعا ؟
جواب :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إن الشيطان عرض لي فشد على ليقطع الصلاة على فأمكنني الله منه فذعته (أي: خنقته) ولقد هممت أن أوثقه إلى سارية حتى تصبحوا فتنظروا إليه، فذكرت قول سليمان عليه السلام
”بلاشبہہ شیطان میرے سامنے آیا اور مجھ پر اس نے سختی کی، تاکہ میری نماز کو کاٹ دے، پھر اللہ نے اسے میرے قابو میں کر دیا تو میں نے اسے گریبان سے پکڑا اور اسے ایک ستون سے باندھنے کا پختہ ارادہ کر لیا، تا کہ صبح کے وقت تم بھی اسے دیکھو، لیکن مجھے میرے بھائی سلیمان علیہ السلام کی بات (دعا) یاد آ گئی۔ “انھوں نے کہا تھا :
قَالَ رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنبَغِي لِأَحَدٍ مِّن بَعْدِي ۖ إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ﴿٣٥﴾
”اے میرے رب! مجھے بخش دے اور مجھے ایک بادشاہی عطا فرما جو میرے بعد کسی کے لائق نہ ہو، یقیناً تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔“ [ص: 35]
فرده الله خاسئا
”پھر اللہ نے اسے نامراد واپس کر دیا۔“ [ صحيح البخاري، رقم الحديث 1152 صحيح مسلم، رقم الحديث 541 ]
——————

140۔ کیا شیطان آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں غور و فکر کرنے سے اولاد آدم کو پھیرنے کی طاقت رکھتا ہے ؟
جواب :
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
رأيت ليلة أسري بي كذا، فلما انتهينا إلى السماء السابعة فنظرت فوقي فإذا أنا بعد و برعد وصواعق، وأتيت على قوم بطونهم كالبيوت فيها الحيات ترى من خارج بطونهم، قلت: من هؤلاء يا جبريل؟ قال: هؤلاء أكلة الربا، فلما نزلت إلى السماء الدنيا فنظرت إلى أسفل مني فإذا أنا برهج ودخان وأصوات فقلت ما هذا يا جبريل ؟ قال هؤلاء الشياطين يحومون على أعين بني آدم ألا يتفكروا فى ملكوت السماوات والأرض، ولولا ذلك لرأوا العجائب
”جس رات مجھے اسراء کا شرف حاصل ہوا، جب ہم ساتویں آسمان تک پہنچے تو میں نے اپنے اوپر دیکھا تو اچانک میں کڑک، چمک اور بادل کی گرجوں کے پاس تھا۔ میں کچھ ایسے لوگوں کے پاس آیا، جن کے پیٹ گھروں کی طرح تھے اور ان کے پیٹوں میں سانپ تھے، جو باہر سے نظر آ رہے تھے۔ میں نے کہا: اے جبریل! یہ کون لوگ ہیں؟ انھوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔ پھر جب میں آسمان دنیا کی طرف اترا تو اپنے نیچے کی طرف دیکھا تو اچانک میں گرد و غبار، دھویں اور کچھ آوازوں کے پاس تھا۔ میں نے کہا: جبر یل یہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا: یہ وہ شیاطین ہیں، جو اولاد آدم کی آنکھوں پر اس لیے طاری رہتے تھے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں غور و فکر نہ کر سکیں اور اگر (ان کا یہ کارنامہ ) نہ ہوتا تو انسان بڑے عجائب دیکھ لیتے۔ “ [ مسند أحمد 1/ 353 ]
پس معلوم ہوا کہ شیاطین انسانوں کے لیے گھات لگائے ہوئے ہیں تاکہ وہ ایمان کے کسی بھی شعبے میں غور و فکر نہ کر سکیں۔ ان کے ایسا کرنے کی وجہ اولاد آدم سے ان کی عداوت ہے اور اس وہم کی بنا پر کہ ابلیس لعنة الله کو جنت سے دھتکارے جانے کا سبب ان کا باپ آدم علیہ السلام ہے۔
——————

اس تحریر کو اب تک 10 بار پڑھا جا چکا ہے۔