انسان میں جن کے داخل ہونے کے بارے میں علماء کی کیا رائے ہے؟

تالیف: ڈاکٹر رضا عبداللہ پاشا حفظ اللہ

321۔ کیا شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے جنات نکالنے کا کوئی طریقہ منقول ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
ان سے یہ چیز تکرار سے ملتی ہے، جیسا کہ ابن قیم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے، وہ کہتے ہیں :
میں نے اپنے شیخ کو دیکھا کہ وہ جسے جن تنگ کرتا، اس کی طرف اس کو بھیجیتے جو روح کو مخاطب ہو کر کہتا: شیخ نے مجھے کہا ہے کہ تو نکل جا، یہ تیرے لیے حلال نہیں ہے۔ پھر مصروع (دورے والے) کو افاقہ ہو جاتا۔ بسا اوقات وہ خود اسے مخاطب کرتے تھے اور کبھی وہ سرکش روح ہوتی تو اسے مار کر نکالتے تھے، پھر مصروع صحت یاب ہوتا اور زیادہ تر وہ مریض کے کان میں اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھتے تھے۔
« أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ ‎ ﴿١١٥﴾ »
”تو کیا تم نے گمان کر لیا کہ ہم نے تمھیں بے مقصد ہی پیدا کیا ہے اور یہ کہ بے شک تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے؟“ [المؤمنون: 115]
——————

322۔ کیا امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ﷫ سے جنات نکالنے کا کوئی طریقہ منقول ہے ؟
جواب :
قاضی ابولحسن ابن القاضی (طبقات اصحاب الامام احمد) نے کہا : متوکل (عباسی خلیفہ) نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کی طرف ایک لڑکی کے بارے پیغام بھیجا، جسے مرگی تھی اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس کے لیے عافیت کی دعا کریں۔ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کے لیے لکڑی کے دو جوتے کھجور کے پتے کے تسمے والے نکالے، جن میں وہ وضو کرتے تھے، پھر وہ اپنے ایک ساتھی کے سپرد کیے اور اسے کہا تو امیر المومنین کے پاس جا اور اس لڑکی کے سر کے پاس بیٹھ کر اسے کہہ (یعنی جن کو) تھے۔ احمد کہتا ہے: کون سا کام تجھے پسند ہے، اس لڑکی سے نکلنا یا پھر ستر جوتے کھاتا؟ پس وہ امیر المومنین کی طرف گیا اور اس کو امام احمد کی بات سنائی۔ وہ سرکش جن لڑکی کی زبان سے بولا اور اس نے کہا: میں سن کر اطاعت کرتا ہوں، اگر امام احمد ہمیں حکم دیں کہ ہم عراق میں نہ رہیں تو ہم اس میں نہ رہیں گے۔ بلاشبہ اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جو اللہ کی اطاعت کرے، ہر چیز اس کی اطاعت کرتی ہے۔ وہ اس لڑکی سے نکل گیا، وہ تندرست ہو گئی اور اسے اولاد کی نعمت بھی عطا ہوئی۔ پھر جب امام احمد رحمہ اللہ فوت ہو گئے تو وہ سرکش جن پھر لوٹ آیا، متوکل نے ان کے ساتھی ابوبکر المروزی سے رابطہ کیا اور صورت حال سے آگاہ کیا، مروزی نے جوتا پکڑا اور لڑکی کی طرف گیا، جن لڑکی کی زبان پر دوبارہ گویا ہوا اور اس نے کہا: میں اس لڑکی سے نہیں نکلوں گا اور نہ تیری اطاعت کروں گا، نہ تجھ سے یہ قبول کروں گا۔ احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اللہ کی اطاعت کی، ہمیں ان کی اطاعت کا حکم دیا گیا تھا۔ [آكام المرجان ص : 115]
——————

323۔ بدن انسانی میں جن کے داخل ہونے کے بارے میں علماء کی کیا آراء ہیں ؟
جواب :
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
« إن المؤمن لينضي شيطانه كما ينضي أحدكم بعيره فى السفر »
بے شک مومن لاغر کرتا ہے اپنے شیطان کو، جیسے تم میں سے کوئی سفر میں اپنے اونٹ کو لاغر کرتا ہے۔ [مسند أحمد، مجمع الزوائد 114/1]
جن کے انسان میں داخل ہونے کے عقلی دلائل :
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
جن کا وجود قرآن و سنت اور اسلاف امت کے اجماع سے ثابت ہے۔ اسی طرح سے جن کے انسانی بدن میں دخول پر بھی اہل سنت ائمہ کا اتفاق ہے اور یہ معاملہ غور کرنے والے ہر شخص کو نظر آ سکتا ہے اور محسوس ہو سکتا ہے۔ جن متاثرہ شخص میں داخل ہوتا اور غیر معروف کلام میں بولتا ہے، بلکہ دورے والا شخص تو اسے سمجھ ہی نہیں پاتا، بلکہ اسے مارا بھی جائے تو محسوس نہیں کرتا۔ [رسالة الجن ص: 8]
قاضی عبدالجبار ہمدانی رحمہ اللہ نے فرمایا:
ان کے جسم ہوا کی طرح نرم ہوتے ہیں اور انھیں ہمارے بدنوں میں داخل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، جس طرح سے ہوا (سانس) ہمارے بدن میں داخل ہوتی ہے اور اس سے متعدد جواہر کا ایک ہی چیز میں مجتمع ہونا بھی لازم نہیں آتا۔ اسی طرح سے جن بھی صرف مجاورت کے طریقے پر ہی جمع ہوتے ہیں، حلول کے طریقے پر ہیں۔ وہ ہمارے اجسام میں ایسے ہی داخل ہوتے ہیں، جیسے کوئی نرم جسم برتنوں میں داخل ہوتا ہے۔ [آكام المرجان ص : 108]
عبداللہ بن احمد بن حنبل رحمہ اللہ کہتے ہیں:
میں نے اپنے باپ سے کہا: بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ جن انسانی بدن میں داخل نہیں ہو سکتا تو امام صاحب نے کہا: یہ لوگ جھوٹے ہیں، جن تو متاثرہ شخص کی زبان سے گفتگو بھی کرتا ہے۔
——————

324۔ انسان میں جن کے داخل ہونے کے بارے میں علماء کی کیا رائے ہے ؟
جواب :
الشيخ محمد الحامد کہتے ہیں:
جب جن بہت باریک اجسام والے ہیں تو ان کا بنی آدم کے ابدان میں داخل ہونا عقلاً اور نقلاً ممتنع نہیں ہے، کیوں کہ لطیف کثیف میں چل سکتا ہے، مثلاً ہوا ہے جو بلاشبہ ہمارے ابدان میں داخل ہوتی ہے، جیسے آگ لوہے میں چل سکتی ہے اور جیسے بجلی تاروں میں چل سکتی ہے اور پانی، مٹی، ریت اور کپڑوں میں، باوجود یکہ وہ لطافت میں ہوا اور بجلی کی طرح نہیں ہوتا۔ انسانی اجساد میں جن کے دخول کے بارے وارد ہونے والی نصوص اتنی کثرت کو پہنچ چکی ہیں کہ منکرین کے انکار اور نامعقول اقوال کی طرف اس سے انصراف کرنا درست نہیں، اس لیے کہ سچی وحی نے ہمیں اس کی خبر دی ہے۔ انسانی اجسام میں دخول کے بہ کثرت مشاہدات کا کوئی شمار ہی نہیں، پھر اس کا انکاری عقلاً و نقلاً ثابت شدہ چیز سے اعراض کر کے اپنے بطلان کا خود ہی پتا دے رہا ہے۔ [ردود على أباطيل 135/21]

امام ابن حزم رحمہ اللہ نے فرمایا:
یہ بات درست ہے کہ شیطان اس انسان کو چھوتا ہے جس پر اللہ نے اسے مسلط کیا ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے۔ وہ (شیطان) اس (مس) کے ساتھ اس کے حواس کو اور دماغ کی طرف چڑھنے والے بخارات کو روکتا ہے، جیسا کہ اس کیفیت کی ہر مصروع شخص خبر بھی دے دیتا ہے اور اس معاملے میں ان کا کوئی اختلاف بھی نہیں۔
پھر اللہ اس کے لیے مرگی اور بدحواسی کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے، یہ قرآن کی نص (کا خلاصہ) ہے اور مشاہدہ بھی اس کا متقاضی ہے۔ [آكام المرجان ص : 109]
——————

325۔ کیا شیطان موت کے وقت بھی آتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« إن الشيطان يأتي أحدكم عند موته فيقول: مت يهوديا، مت نصرانيا »
”بلاشبہ شیطان موت کے وقت تمھارے پاس آتا اور اس سے کہتا ہے: یہودی ہو کر مر یا عیسائی ہو کر مر۔ ‘‘
——————

326۔ کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا ابوسلام سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا : سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا : اے اللہ کے رسول ! بلاشبہ ہم شر پر تھے، اللہ نے ہمیں وہ خیر عطا کی جس میں ہم ہیں (یعنی اسلام) کیا اس خیر کے بعد کوئی شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ہے۔ میں نے پوچھا: کیا اس شر کے بعد کوئی خیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا: کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يكون بعدي أئمه لا يهتدون بهداي ولا يستنون بسنتي، وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين فى جثمان إنس . قال: قلت: كيف أصنع يا رشول الله إن أدركت ذلك؟ قال: تسمع وتطيع الأمير، وإن ضرب ظهرك وأخذ مالك فاسمع وأطع »
میرے بعد کچھ ایسے ائمہ ہوں گے جو میری سیرت سے ہدایت نہ پائیں گے اور نہ میری سنت کو اپنائیں گے اور عنقریب ان میں کچھ ایسے آدمی کھڑے ہوں گے جن کے دل شیاطین کے دل ہوں گے اور ان کا جسم انسانوں کا ہو گا۔ حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ! اگر میں یہ (لوگ) پا لوں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امیر کی اطاعت کر اور اس کی بات سن، اگرچہ وہ تیری پشت پر مارے اور تیرا مال چھین لے تو اس کی بات سن اور اس کی اطاعت کر۔ [صحيح مسلم، رقم الحديث 3435]
ابلیس نے کہا تھا :
«قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ‎ ﴿١٦﴾ »
اس نے کہا : پھر اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا، میں ضرور ہی ان کے لیے تیرے سیدھے راستے پر بیٹھوں گا۔“ [الأعراف: 16]
«قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ » یعنی میں انھیں سیدھے راستے سے روکنے اور باطل کو مزین کرنے کے لیے ان کے راستے میں بیٹھوں گا، تا کہ وہ میری طرح ہلاک ہو جائیں۔ صراط مستقیم جنت کا راستہ ہے۔
« مِّن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ » یعنی دنیا سے، «وَمِنْ خَلْفِهِمْ» یعنی ان کی پیچھے سے، «وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ» یعنی ان کی نیکیوں سے، «وَعَن شَمَائِلِهِمْ ۖ » یعنی ان کی برائیوں سے، یعنی وہ خواہشات کی اتباع کریں گے، کیونکہ شیطان نے اس کے لیے انھیں مزین کیا ہے۔ «ولا تجد اكثرهم شٰكرين » یعنی تو ان کو توحید والے، فرماں بردار اور شکر گزار نہیں پائے گا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ شیطان نے «من فوقهم» نہیں کہا، کیونکہ اس کو علم ہے کہ ان کے اوپر اللہ ہے۔ قتادہ رحمہ اللہ نے کہا: اے ابن آدم ! شیطان تیرے پاس ہر جانب سے آئے گا سوائے اوپر کی جانب کے،کیوں کہ وہ تیرے اور اللہ کی رحمت کے درمیان حائل نہیں ہو سکتا۔ [إغاثة اللهفان 103/1]
——————

327۔ شیطان سے کون نجات پاتا ہے ؟
جواب :
اس کا جواب خود شیطان کی زبانی سنیے ! ارشاد ربانی ہے :
«قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ ‎ ﴿٣٩﴾ ‏ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ‎ ﴿٤٠﴾ »
”اس نے کہا: اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے، میں ضرور ہی ان کے لیے زمین میں مزین کروں گا اور ہر صورت میں ان سب کو گمراہ کر دوں گا۔ مگر ان میں سے تیرے وہ بندے جو خالص کیے ہوئے ہیں۔“ [‏الحجر: 39-40]
شیطان نے مخلص بندوں کے اغوا سے عاجزی کا اعتراف کیا۔ مخلص وہ شخص ہے جو عمل کرتا ہو اور یہ پسند نہ کرے کہ لوگ اس کی تعریف کریں، سیئات کو چھپانے کی مانند وہ اپنی نیکیوں کو بھی چھپا کے رکھتا ہے، اللہ کے ساتھ اس کی نیت میں سچائی ہوتی ہے۔
اخلاص:
خالق کی طرف دائمی نظر کے ساتھ مخلوق کو دیکھنا بھول جانا۔ اخلاص اللہ سے ہمیشہ ڈرتے رہنے کا نام ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إن الله عز وجل لا يقبل من العمل إلا ماكان خالصا وابتغي به وجهه »
”بلاشبہ اللہ تعالیٰ وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص ہو اور اس کے ساتھ اس کے چہرے کی تلاش ہو۔“ [صحيح الترغيب والترهيب 56/2]
——————

328۔ میں نماز میں کیسے اپنے آپ کو شیطان سے محفوظ رکھوں ؟
جواب :
درج ذیل دعا پڑھ لیں۔
اللہ تعالیٰ محفوظ فرما لے گا۔ سیدنا جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نفل نماز میں یہ کہتے ہوئے سنا:
«الله أكبر كبيرا ثلاث مرات، والحمد لله كثيرا ثلاث مرات، وسبحان الله بكرة و أصيلا ثلاث مرات، اللهم إني أعو بك من الشيطان الرجيم من همزه ونفثه ونفخه قلت: يا رسول الله! ما همزه ونفثه ونفخه؟ قال: أما همزه فالموتة التى تأخذ ابن آدم، و أما نفخه فالكبر، ونفثه الشعر »
«الله أكبر كبيرا » تین بار، « الحمد لله كثيرا » تین بار، «سبحان الله بكرة و أثيلا» تین بار، «اللهم إني أعوذ بك من الشيطان الرجيم من همزه و نفثه و نفخه»، میں نے کہا: یا رسول اللہ ! «همزه و نفثه و نفخه»، کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : «همزه » مرگی کی وہ کیفیت ہے جو ابن آدم کو پکڑ لیتی ہے، «نفخه » سے مراد اس کا تکبر اور «نفثه» سے مراد اس کا شعر ہے۔ [صحيح مسلم، رقم الحديث 401 سنن أبى داود، رقم الحديث 764]
——————

329۔ کیا گالی دینا شیطان کی طرف سے ہے ؟
جواب :
جی ہاں،
سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دو آدمیوں نے گالی گلوچ کی۔ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔
ان میں ایک غصے کی حالت میں دوسرے کو گالیاں دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:
«إني لأعلم كلمة لو قالها لذهب عنه ما يجد، لو قال أعود بالله من الشيطان الرجيم، فقالوا له: ألا تسمع ما يقول النبى ؟ قال: إني لست بمجنون»
”مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے، اگر یہ (غصے والا) وہ کلمہ کہے تو اس کا غصہ جاتا رہے۔ اگر یہ «أعوذ بالله من الشيطان الرجيم»، پڑھ لے۔ پھر انھوں نے اس آدمی کو کہا: کیا تو وہ بات نہیں سن رہا جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں؟ اس نے کہا: میں کوئی پاگل تو نہیں ہوں۔“ [صحيح البخاري : رقم الحديث 5764، صحيح مسلم 2610]
اس سے معلوم ہوا کہ غصہ شیطان ہی کی طرف سے ہوتا ہے، جو أعوذ بالله، پڑھنے سے ختم ہو جاتا ہے۔
——————

330۔ کیا سورۃ البقرہ کی اختتامی دو آیات کا شیطان پر کوئی اثر ہوتا ہے ؟
جواب :
جی ہاں!
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
« إن الله كتب كتابا قبل أن يخلق السماوات والأرض بألفي عام، أنزل منه آيتين ختم بهما سورة البقرة، ولا يقرأان فى دار ثلاث ليال فيفر منها شيطان »
”بلاشبہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال قبل ایک کتاب لکھی، اس کتاب سے اللہ نے دو آیتیں نازل کیں جن کے ساتھ سورة البقرہ کا اختتام کیا، وہ جس گھر میں بھی تین راتیں پڑھی جاتی ہیں، شیطان اس سے بھاگ جاتا ہے۔“ [سنن الترمذي، رقم الحديث 2882 فى فضائل القرآن، صحيح ابن حبان، رقم الحديث 1726 المستدرك للحاكم 562/1]
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے صحیح الترغیب، رقم الحدیث 1467 میں نے صحیح کہا ہے۔
——————

یہ تحریر اب تک 34 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply