کیا قیامت کے دن لوگ اپنی ماں کے نام سے پکارے جائیں گے؟

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

کیا قیامت کے دن لوگ اپنی ماں کے نام سے پکارے جائیں گے؟
روایت ہے:
«يدعى الناس يوم القيامة بامهاتهم سترا من الله عزو جل عليهم »
قیامت کے دن لوگوں کو ان کی ماؤں کی جانب نسبت کر تے ہوئے اٹھایا جائے گا دراصل اللہ عز وجل لوگوں کے عیوب پر پردہ ڈالیں گے۔
تحقیق الحدیث :
اسناده موضوع۔
اس کی سند من گھڑت ہے۔
[سلسله احاديث ضعيفه والموضوعة للباني رقم الحديث 433]
البانی رحمہ اللہ کہتے ہیں ابن عدی نے اس حدیث کو 2/17 میں اسحاق بن ابراہیم الطبری سے ذکر کیا ہے اس نے کہا : ہمیں مروان فزاری نے خبر دی اس نے حمید طویل سے اس نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً ذکر کیا ہے اور کہا ہے : اس اسناد کے ساتھ اس حدیث کا متن منکر ہے، جبکہ اسحاق بن ابرہیم (راوی) منکر الحدیث ہے۔
اور ابن حباب رحمہ اللہ نے کہا ہے وہ ابن عیینہ اور فضل بن عیاض سے روایت کرتا ہے اور سخت منکر الحدیث ہے، وہ ثقہ رواۃ سے موضوعات کو روایت کرتا ہے اس کی حدیث کو تحریر میں ناجائز نہیں البتہ بطور تعجب کے لیا جا سکتا ہے۔
جبکہ حاکم رحمہ اللہ نے بیان کیا ہے کہ اس نے فضیل اور ابن عیینہ سے موضوع احادیث کو روایت کیا ہے۔
ابن جوزی رحمہ اللہ نے اس کو الموضوعات میں ابن عدی رحمہ اللہ کے طریق سے ذکر کیا ہے اور اس نے کہا ہے کہ وہ صحیح نہیں ہے۔
اسحاق راوی منکر الحدیث ہے جب کہ امام سیوطی رحمہ اللہ نے اللانی (449/2) میں اس کا تعاقب کیا ہے کہ اس حدیث کا ایک اور طریق ہے جس کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے یعنی وہ حدیث جو اس کے بعد ہے جبکہ وہ حدیث جو اس کے ساتھ ساتھ اس حدیث سے بھی مخالف ہے اس سے شاہد کے لحاظ سے بلاشبہ اس میں صراحت ہے کہ مقصود ان کی مائیں جبکہ اس میں ان کے ناموں کا ذکر سے ظاہر ہے کہ ان دونوں الفاظ میں کتنا فرق ہے جبکہ ابن عراق نے اس کو رد کرتے ہوئے (381٫2) میں ذکر کیا کہ:
میں کہتا ہوں : یہ ابو حذیفہ اسحاق بن بشر طریق سے ہے لہٰذا اس کا شاہد ہونا صحیح نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں : شاہد میں شرط یہ ہے کہ شاہد کا ضعف مشہور نہ ہو جب کہ یہاں معاملہ اس طرح نہیں ہے اس لیے کہ اس اسحاق بن بشر کا شمار ان لوگوں سے ہوتا ہے جو احادیث کو وضع کرتے تھے جیسا کہ (223) میں پہلے گزر چکا ہے۔
تحقیق مزید :
عوام وخواص میں یہ مشہور ہے کہ قیامت کے دن لوگ اپنی ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے۔ یہ ایک ایسا تخیل ہے جس سے نہ عوام خالی ہیں اور نہ خواص، بلکہ یہ رام کہانی سنی سنائی اور کہانیوں کی طرح ہے جسے ہمارے علماء و دانشور حضرات برسر منبر بیان کرتے رہے ہیں۔ بلکہ اسے باقاعدہ ایک روایت کی شکل دے دی گئی ہے جو ان الفاظ میں پیش کی جاتی ہے۔
قیامت کے روز لوگ اپنی ماؤں کے نام سے پکارے جائیں گے تاکہ لوگوں پر پردہ ڈالا جا سکے کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
ملا علی قاری نور الدين المتوفی 1014 نے اپنی موضوعات میں۔ حافظ ابو عبداللہ شمس الدین محمد بن ابی بکر المعروف بابن القیم المتوفی 751ھ سے نقل کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
یہ روایت کہ لوگ ماؤں کے ناموں سے پکارے جائیں گے باطل ہے۔
پھر آگے ملا علی قاری لکھتے ہیں :
محمد بن کعب کا قول تو یہ ہے کہ لوگ اماموں (یعنی امیروں) کے ناموں سے پکارے جا ئیں گے۔ ماؤں نے نام سے نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ماؤں کے ناموں سے پکارے جانے کی تین وجوہات ہیں۔
➊ حضرت عیسی علیہ السلام کے چونکہ باپ نہیں۔ اس وجہ سے ماؤں کے ناموں سے پکارا جائے گا۔
➋ تاکہ حرام سے پیدا شده اولاد قیامت کے دن رسوا نہ ہو۔
➌ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے مرتبہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ قاعدہ اپنایا جائے گا۔
یہ توجیہات بغوی نے معالم التنزیل میں پیش کر کے لکھا ہے کو صحیح احادیث سے اس امر کی تردید ہوتی ہے۔
بخاری نے اپنی صحیح میں سرخی قائم کی ہے کہ ”لوگ قیامت کے دن اپنے باپوں کے نام سے پکارے جائیں گے“اس پر امام بخاری نے یہ حدیث بیان کی کہ قیامت کے روز ہر غدار کے سامنے اس کی غداری کے مطابق جھنڈا گاڑا جائے گا۔ جس پر لکھا ہوگا کہ یہ فلاں بن فلاں غدار ہے۔ ابن القیم لکھتے ہیں اس موضوع پر اور بھی متعدد احادیث موجود ہیں۔ [موضوعات كبيرص 175۔]
بخاری نے جو حدیث بیان کی ہے یہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عبدالله بن مطیع کے سامنے اس وقت بیان کی تھی کہ جب وہ اہل مدینہ میں یزید کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہا تھا اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا مقصد یہ تھا کہ جو لوگ اس قسم کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ اور یزید کے خلاف تحریک چلانا چاہتے ہیں وہ سب غلط کر رہے ہیں اور اس وقت روئے زمین پر علم و فضل اور سبقت اسلام حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہ تھا اور تمام لوگ انہی کے فیصلے کو قبول کرتے تھے۔
محمد بن کعب کا یہ قول کہ لوگ اماموں کے ناموں سے پکارے جا ئیں گے۔ تو غالباً، انھوں نے اس آیت :
«يَوْمَ نَدْعُو كُلَّ أُنَاسٍ بِإِمَامِهِمْ ۖ » [17-الإسراء:71]
”ہم تمام لوگوں کو ان کے اماموں کے ساتھ بلائیں گے۔“
کو پیش نظر رکھ کہ یہ بات فرمائی ہے۔ اس آیت میں امام سے مراد رہبری کرنے والے اور گمراہ کر نے والے افراد ہیں۔ تو گویا یہ پکار دو قسم کی ہوگی۔ ایک انفرادی اور ایک اجتماعی۔ اس وقت زیر بحث مسئلہ انفرادی پکار کا ہے۔
جہاں تک اس توجیبہ کا تعلق ہے کہ حضرت عیسیٰ رضی اللہ عنہ کے باپ نہیں تھے۔ اس لیے لوگوں کو ماؤں کے نام سے پکارا جائے گا تو ہماری عرض یہ ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو کس کے نام سے پکارا جائے گا؟ ظاہر ہے کہ آپ جو بھی اصول مرتب کریں گے اس سے وہ خارج ہوں گے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مستثنی سمجھا جائے گا۔
جہاں تک اس توجیہ کا تعلق ہے کہ حرام سے پیدا شده اولاد قیامت کے دن رسوا نہ ہو۔ تو اس قسم کی جتنی بھی اولاد ہوتی ہے شریعت کی نظر میں وہ ہرگز مجرم نہیں۔ مجرم تو وہ مرد و عورت ہیں جن کی حرام کاری کے باعث یہ وجود میں آیا۔ کیا یہ دعویٰ کر کے مشکوک قسم کے لوگ اپنے شک پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں؟ اب یہ فیصلہ تو الله ہی کرے گا کہ ان کی اس خواہش کا احترام کیا جائے یا وہ دفتر کھول کر سامنے رکھ دیا جائے۔ جس میں اللہ تعالیٰ کے پوشیدہ نگرانوں نے ان کی یہ حرکات تحریر کی تھیں۔
اب صرف ایک وجہ باقی رہ جاتی ہے۔ یعنی حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے باعث یہ کام ہوگا۔ اس قسم کی کہانیاں اس لیے وضع کی گئیں کہ ان حضرات کو ماں کی جانب منسوب کر کے انھیں آل علی کے بجائے آل رسول کہا جا سکے۔ ہمیں اس امر پر کوئی خاص اعتراض نہیں بشرطیکہ علی بن زینب، امامہ بنت زینب اور عبد الله بن رقیہ کو بھی آل رسول مان لیا جائے۔ تو پھر تصفیہ کی کوئی گنجائش نکل سکتی ہے۔ ورنہ یہ ایک ایسی طویل بحث ہے جو خود ایک جداگانہ تصنیف کی خواہاں ہے۔ ان شاء اللہ کسی اور مقام پر اس موضوع پر تبصرہ کیا جائے گا۔
علامہ عبدالرحمن بن علی بن محمد بن عمر الشیبانی الشافعی الاثری رقم طراز ہیں۔
یہ روایت کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے پکارے گا۔ تاکہ اپنے بندوں پر پردہ ڈالا جا سکے۔ یہ روایت حافظ ابوالقاسم سلیمان بن احمد بن ایوب الطبرانی المتوفی 360 نے ”الکبیر“میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً نقل کی ہے۔ اس موضوع پر حضرت انس رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشه رضی اللہ عنہا سے بھی روایت مروی ہیں۔ یہ سب روایات ضعیف ہیں۔ جنہیں ابن جوزی نے موضوعات میں شمار کیا ہے اور بخاری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم قیامت کے روز اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ۔ اس حدیث سے ان کہانیوں کا رد ہورہا ہے۔ [تمييز الطيب من الخبيث فى ما يدر على السنة الناس من الحديث، ص 46]
حافظ شمس الدین محمد بن عبد الرحمن السخاوی فرماتے ہیں:
یہ روایت کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز لوگوں کو ان کی ماؤں کے ناموں سے پکارے گا۔ تا کہ اپنے بندوں کے اعمال پر پردہ ڈال سکے۔ یہ روایت طبرانی نے ”الکبیر“میں اسحاق بن بشر بن ابی حذیفہ کے ذریعہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً نقل کی ہے۔ اس موضوع پر ایک روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ اور ایک روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے یہ سب ضعیف ہے۔
ان سب کو ابن جوزی نے موضوعات میں داخل کیا ہے اور اس کی تردید کے لیے وہ حدیث کافی ہے جو بوداؤد نے اپنی سنن میں ایک عدہ سند کے ساتھ حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے باپوں کے ناموں سے پکارے جاؤ گے۔ لہذا اپنے نام اچھے رکھا کرو۔
بلکہ بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً نقل کیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب تمام اولین و آخرین کو جمع کرے گا تو ہر غدار کے روبرو ایک جھنڈا گاڑا جائے گا اور کہا جائے گا یہ فلان بن فلان غدار ہے۔ [المقاصد الحسنه فى بيان كثير من الاحاديث المستتهزه ره على الالسمنة ص : 124]
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن لوگوں کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا جائے گا اس کی تائید قرآن کی ایک آیت ست بھی ہوتی ہے۔ قرآن میں ہے:
«ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ» [33-الأحزاب:5]
”لوگوں کو ان کے باپوں کے ذریعہ پکارو، یہ اللہ کے نزدیک منصفانہ فعل ہے۔“
جب دنیا میں ہمیں یہ حکم دیا جارہا ہے کہ لوگوں کو ان کے باپوں کے ناموں سے پکارو اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی فرمائی جارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ منصفانہ بات ہے تو اشارة النص سے یہ امر خود بخود واضح ہو گیا کہ کسی کو ماں کے نام سے پکارنا ایک غیر منصفانہ عمل ہے۔ اس لیے کہ اولاد باپ کی جانب منسوب ہوتی ہے ماں کی جانب نہیں اور جو لوگ زبردستی اولاد علی رضی اللہ عنہ کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی جانب منسوب کرنا چاہتے ہیں اس قماش کے لوگ قرآن کی رو سے غیر منصف ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی ذہن میں رکھیے کہ اللہ تعالیٰ سے زیادہ کوئی منصف نہیں ہو سکتا۔ وہ عادل ہے اور اس کی صفت عدل ہے اور جس شے کو خود نامنصفانہ قر ار دے وہ شئے تو سراسر ظلم ہو گی اور الله تعالی کی جانب ظلم کی نسبت نہیں کی جا سکتی۔
«وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ » [3-آل عمران:182]
”یقینا الله بندون پر طلم نہیں فرماتا ہے۔“
تو جو لوگ یہ سمجھتے یا یہ دعوی کرتے ہیں کہ الله تعالیٰ لوگوں کو ماؤں کے ناموں سے پکارے گا کہ وہ الله تعالیٰ کو مخفی الفاظ میں ظالم قرار دے رہے ہیں۔ ہمارے نزدیک یہ کہانی خالص تبرا ہے۔ جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیاں، ازواج مطہرات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلکہ الله تعالیٰ کی ذات بھی داخل ہو جاتی ہے۔
« اعوذ بالله من شرها وشر ما فيها »

اس تحریر کو اب تک 71 بار پڑھا جا چکا ہے۔