حجرہ اسود کی تنصیب اور حضرت حمزہ کے قبول اسلام سے متعلق غیرثابت روایات

تالیف: حافظ محمد انور زاہد حفظ اللہ

صدیق کا مالی ایثار خود صدیق اور جبریل سمیت فرشتوں نے ٹاٹ کا لباس پہن لیا
ابن شاہین نے السنۃ میں۔ بغوی نے اپنی تفسیر میں اور ابن عساکر نے ابن عمر کی زبانی تحریر کیا ہے کہ میں بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر تھا اور صدیق اکبر ایک ایسا لبادہ جس کے کناروں کو اٹھا کر سینہ پر کانٹوں سے اٹکا لیا تھا، پہنے ہوئے تھے۔ اتنے میں جبریل علیہ السلام آئے اور کہا یا رسول اللہ ! آج ابوبکر رضی اللہ عنہ سینہ پر کانٹوں کا لبادہ کیوں اٹکائے ہوئے ہیں؟ ارشاد گرامی ہوا، انھوں نے اپنی تمام دولت مجھ پر خرچ کر دی ہے تو جبریل علیہ السلام نے عرض کیا : اللہ تعالیٰ نے ان کو سلام کہا ہے اور دریافت کیا ہے، اے ابو بکر ! تم اس غربت کی حالت میں ہم سے خوش ہو یا ناراض؟ اس پر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کہا میں اپنے پرور دگار سے کس طرح ناراض ہو سکتا ہوں میں تو اس سے راضی ہوں، خوش ہوں اور بہت مسرور ہوں۔ اس قسم کی اکثر احادیث مروی ہیں کہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنا پورا مال و سرمایہ اسلام کی راہ میں پیش کر دیا۔
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان کیا ہے کہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک دن جبریل علیہ السلام دری کی طرح کا ایک کپڑا اپنے سینہ پرڈالے ہوئے آئے جس پر سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جبریل یہ کیا حالت ہے ؟ تو انھوں نے عرض کیا کہ اللہ نے حکم دیا ہے تمام فرشتے اسی طرح کا لباس پہن لیں جیسا کہ صدیق اکبر پہنے ہوئے ہیں۔ اس حدیث کے متعلق ابن کثیر نے لکھا ہے کہ اس کے راوی ضعیف ہیں اگر یہ روایت صحیح ہوتی تو اس حدیث کو لوگ قبل ازیں بھی بیان کرتے۔ غرضکہ اس روایت سے اعراض کرنا ہی مناسب ہے۔
تحقیق الحدیث :
امام سیوطی نے خود اس کو شدید ضعیف کہا ہے، سیوطی خود ضعف پرست ہیں تو جس کو سیوطی سخت ضعیف کہیں اس کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ ابن عساکر (51/13) و البيهقي في المحاسن والمساوی ص (56) اس کی تمام سندات ضعيف ہیں۔ [تاريخ الخلفاء ص 36]
——————

زمانہ جاہلیت میں حجر اسود کی تنصیب کا فیصلہ
ابن سعد کہتے ہیں۔ عمارت اس حد تک پہنچی جہاں خانہ کعبہ میں رکن و نصب کرنے کا موقع تھا تو ہر قبیلے نے اس کے لئے اپنے اپنے استحقاق پر زور دیا۔ اور اس قدر مخالفت ہوئی کہ جنگ کا اندیشہ ہونے لگا آخر یہ رائے قرار پائی کہ باب بنی شیبہ سے پہلے پہل جو داخل ہو وہ حجر اسود کو اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ دے۔ سب نے اس پر رضامندی ظاہر کی اور اس رائے کوتسلیم کر لیا۔
باب بی شیبہ سے پہلے پہل جو اندر آئے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے لوگوں نے جب آپ کو دیکھا تو بول اٹھے۔
یہ امین ہیں ہمارے معاملے میں جو فیصلہ یہ کریں گے ہم اس پر راضی ہیں۔
آنخضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ
قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قرارداد سے اطلاع دی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر اپنی چادر بچھادی اور رکن (حجراسور) اس میں رکھ کے فر مایا:
قریش کے ہر ایک ربع سے ایک ایک شخص آئے (یعنی تمام قریش جو چار بڑی جماعتوں میں منقسم ہیں۔ ان میں سے ہر ایک جماعت اپنا اپنا ایک ایک قائم مقام منتخب کرے)
➊ ربع اول بن عبد مناف میں عتبہ بن ربعیہ (منتخب ہوئے)۔
➋ ربع ثانی میں ابو زمعہ۔
➌ ربع ثالث میں ابوحذیفہ بن المغيرہ۔
➍ ربع رابع میں قیس بن عدی۔
اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
تم میں سے ہر فرد اس کپڑے کا ایک ایک گوشہ پکڑ لے اور سب مل کے اسے اٹھاؤ، سب نے اسی طرح اٹھایا اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کو اسی جگہ (جہاں وہ ہے) اپنے ہاتھ سے اٹھا کر رکھ دیا۔
تحقیق الحدیث :
أسناده ضعيف .
[مستدرك حاكم 458/1 حديث رقم 1683، السيرة النبويه 116/1، مسند احمد 425/3 رقم الحديث 15589، طبقات ابن سعد جلد اول ص 205۔]
اس روایت کا تمام تر دارومدار هلال بن خباب پر ہے یہ صدوق ہے مگر آخری عمر میں اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔
اس سے اس کے دو تلامذه عباد اور ابو زید روایت کرتے ہیں مگر علم نہیں ہو سکا کہ انہوں نے اس سے یہ روایت اختلاط سے قبل سنی ہے یا اختلاط کے بعد۔
مستدرک حاکم کی سند میں خالد بن عرعرہ کی توثق صرف عجلی اور ابن حبان نے کی ہے اور یہ دونوں مستاہل ہیں نیز اس میں سماک بن حرب کا آخر میں حافظ خراب ہو گیا تھا۔
بعض محققین کے نزدیک اس کی سند حسن لغیرہ بن جاتی ہے۔ مگر راجح قول کے مطابق حسن لغير ضعیف حدیث کی ایک قسم ہے۔ والله اعلم۔
——————

بیٹی دودھ میں پانی ملا دو عمر رضی اللہ عنہ کون سا دیکھ رہا ہے
عبدالله بن زید بن اسلم اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، کہتے ہیں:
ہم عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے جب وہ رات میں مدینہ منورہ کا گشت لگا رہے تھے۔ انہوں نے تھکن محسوس کی تو ایک دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے اور اس وقت آدھی رات گزر چکی تھی۔ انہوں نے ایک عورت کی آواز سنی جو اپنی بیٹی سے کہہ رہی تھی : میری بیٹی اٹھو اور دودھ میں تھوڑا پانی ملا دو۔ لڑکی نے کہا: امی کیا آج تم نے امیر المومنین کی منادی نہیں سنی؟ ماں نے پوچھا:”وہ کیا تھی؟“ لڑکی نے جواب دیا: انہوں نے کسی شخص کو حکم دیا تھا کہ وہ بلند آواز سے منادی کر دے کہ کوئی دودھ میں پانی نہ ملائے۔ ماں نے کہا : ”اٹھو اور دودھ میں پانی ملا دو تم ایسی جگہ پر ہو جہاں عمر رضی اللہ عنہ تم کو نہیں دیکھ سکتے ہیں۔ لڑکی نے ماں سے کہا : میں ایسا نہیں کر سکتی کہ لوگوں کے سامنے ان کے حکم پر عمل کروں اور تنہائی میں اس کی خلاف ورزی کروں۔‘‘ عمر رضی اللہ عنہ یہ سب کچھ سن رہے تھے انہوں نے مجھ سے فرمایا: ”جاؤ اور دیکھو یہ لڑکی کون ہے اور کس سے یہ باتیں کر رہی ہے اور کیا وہ شادی شدہ ہے۔“چنانچہ میں اس جگہ گیا اور ان کا حال معلوم کیا۔ وہ ایک غیر شادی شد لڑکی تھی دوسری عورت اس کی ماں تھی۔ اس کا بھی شوہر نہ تھا۔ میں عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور جو کچھ معلوم کیا تھا بتا دیا۔ انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور کہا : تم میں سے کوئی شادی کرنا چاہتا ہے تو میں تمہاری شادی کا انتظام کیے دیتا ہوں اگر میری شادی کی خواہش ہوتی تو میں سب سے پہلے اس لڑکی کو نکاح کا پیغام دیتا۔ عبداللہ نے کہا: میرے پاس بیوی نہیں ہے میری شادی اس سے کر دیجئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عاصم کی شادی اس لڑکی سے کر دی۔ اس لڑکی سے عاصم کی ایک بیٹی پیدا ہوئی جو حضرت عمر بن عبدالعزیز کی والدہ ہوئیں۔
تحقیق الحدیث :
أسناده ضعيف
اخبار عمر بن عبد العزيز للأجرى ص48، 49 اس میں عبد اللہ بن زید بن اسلم راوی ضعیف ہے۔
نسائی کہتے ہیں قوی نہیں۔ مزید دیکھیں : میزان الاعتدال جلد 4 ص 103۔ تهذيب الكمال (664/2) تهذيب التهذيب (222/5) (284) تقريب التهذيب (417/1، 316) الکاشف (88/2) تاريخ البخاري الكبير (94/5) الجرح والتعديل (275/5) الضعفاء والمتروكين للنسائی ت (340) المجرومين لابن حبان (10/2) دیوان الضعفاء ت (2175)
——————

حضرت حمزہ کے قبول اسلام کا واقعہ
ابن اسحاق نے کہا مجھ سے بنی اسلم کے ایک شخص نے جو بڑا یاد رکھنے والا تھا بیان کیا کہ کوہ صفا کے قریب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ابوجہل گزرا تو اس نے آپ کو تکلیف دی اور سخت سست کہا اور آپ کے دین کی عیب جوئی اور آپ کے معاملے کو کمزور بتانے کا کچھ مواقع پالیا۔ جس کو آپ ناپسند فرماتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہ فرمایا اور عبد الله بن جدعان بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرة کی ایک لونڈی جو اپنے گھر میں تھی اس کی یہ باتیں سن رہی تھی۔ اس کے بعد آپ اس کے پاس سے لوٹے تو آپ نے قریش کی مجلس کا قصدہ فرمایا جو کعبہ اللہ کے پاس تھی اور ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئے تھوڑی ہی دیر بعد حمزه بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ کمان گلے میں ڈالے شکار سے واپس ہوتے ہوئے وہاں آگئے۔ وہ شکاری کتے تیر سے شکار کیا کرتے۔ اور اکثر شکار کے لئے نکل جایا کرتے تھے اور جب بھی وہ شکار سے واپس ہوتے تو اپنے گھر والوں کے پاس نہ جاتے۔ جب تک کہ کعبہ اللہ کا طواف نہ کر لیتے اور جب طواف کر چکتے تو قریش کی مجلس میں ٹھہرتے اور سلام کرتے۔ اور ان سے بات چیت کئے بغیر نہ جاتے۔ اور وہ قریش میں اعزاز رکھنے والے جواں مرد اور سخت طبیعت تھے۔ جب وہ اس لونڈی کے پاس سے گزرے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر واپس ہو چکے تھے۔ تو اس لونڈی نے حمزة رضی اللہ عنہ سے کہا۔ اے ابوعمارة ! کاش آپ اس آفت کو دیکھتے۔ جو آپ کے بھتیجے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابو الحکم بن ہشام کی جانب سے آئی۔ اس نے انہیں یہاں بیٹھا ہوا پایا تو انہیں ایذا پائی اور گالیاں دیں۔ اور جو باتیں انہیں ناپسند تھیں ان کی انتہا کر دی اور پھر چلتا بنا۔ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بات بھی نہ کی۔ چونکہ الله تعالیٰ آپ کو با اعزاز رکھنا چاہتا تھا۔ حمزہ کو غصے نے برانگیختہ کر دیا اور وہ وہاں سے تیزی سے نکلے اور کسی کے پاس نہ رکے کہ ابوجہل کے لئے تیار ہو جائیں۔ اور جب اس سے مقابلہ ہو تو اس سے چمٹ جائیں۔ پھر جب مسجد میں داخل ہوئے تو اس کو دیکھا کہ لوگوں میں بیٹھا ہوا ہے۔ تو یہ اسی کی طرف چلے۔ اور جب اس کے سر پر گئے تو کمان اٹھائی اور رسید کی۔ اور اس کا سر سخت زخمی کر دیا اور کہا کیا تو انہیں گالیاں دیتا ہے۔ لے میں بھی انہیں کے دین پر ہوں۔ میں بھی وہی کہتا ہوں جو وہ کہتے ہیں۔ اگر تجھ سے ہو سکے تو وہی برتاؤ مجھ سے بھی کر۔ پس بنی مخزوم کے لوگ حمزة کی جانب اٹھ کھڑے ہوئے کہ ابوجہل کی امداد کریں۔ ابوجہل نے کہا۔ ابو عمارۃ کو جانے دو کیونکہ واللہ میں نے بھی ان کے بھتیجے کو بری بری گالیاں دی ہیں۔ آخر حمزه رضی اللہ عنہ نے اپنے اسلام مکمل کر لیا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی زبان سے بھی کی۔
تحقیق الحدیث :
أسناده ضعیف۔
مستدرك حاكم (193/3) حديث رقم (4878) مختصر المستدرك (1740/4) معجم كبير لطبرانی (154،153/3) السيرة النبويه ابن هشام مع الروض الانف، (44/2) أنظر الكامل (601/1) و المنتظم لا بن جوذی (384/2) والطبري في تاريخ (549/1) یہ روایت اپنے تمام طرق کے ساتھ نا قابل حجت ہے۔
——————

اس تحریر کو اب تک 19 بار پڑھا جا چکا ہے۔