دعوت ولیمہ پر سلامی

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

دعوت ولیمہ پر سلامی
سوال : کیا دعوت ولیمہ پر سلامی دینا قرآن و حدیث سے ثابت ہے؟
جواب : مسلمانوں نے جب سے اسلام کے احکامت کو پس پشت ڈالا ہے اس وقت سے ان کے اندر بے شمار خرابیاں داخل ہو گئیں، کئی ایک ایسے اعمال سر انجام دیے جاتے ہیں جن کی اسلام میں کوئی دلیل موجود نہیں ہوتی۔ منجملہ ان امور میں سے شادی بیاہ کے مسائل بھی ہیں۔ ہمارے ہاں شادی کے موقع پر اکثر و بیشتر ہندوانہ رسم و رواج کی پابندی کی جاتی ہے۔ شادی کے موقع پر دعوت ولیمہ کر کے مہمانوں کو بلا کر ان سے نیوتا وصول کرنا بھی ہندوانہ رسم ہے اور برصغیر پاک و ہند میں ہندوؤں کے اختلاط سے یہ رسم بھی اہل اسلام میں داخل ہو چکی ہے اور پھر یہ نیوتا ایک قرض ہے، اگر آج کسی کی شادی پر ایک سو روپہ دیا جاتا ہے تو کل یہ امید ہوتی ہے کہ دو سو ملے گا اگر کوئی شخص ادا نہ کرے تو اس سے ناراضی ہوتی ہے اور کہا: جاتا ہے کہ کم از کم ہماری گھر پہنچ تو دے دیں اور اگر کوئی شخص صرف لیا ہوا پیسا واپس کرے تو کہا جاتا ہے کہ اس نے اپنے بھاجی ختم کر دی ہے۔ ہندوستان میں کنبوہ برادری ایسی اشیاء کو پسند نہیں کرتی تھی۔ ڈاکڑ محمد عمر لکھتے ہیں :
”کنبوہ برادری کے مسلمان جہیز نہیں دیتے تھے اور عروس کے گھر رسم (مہندی) بھی نہیں بھیجتے تھے اور نکاح میں یا شب عروسی کو یا حنا بندی کے موقع پر شربت پیلانے کے بعد براتیوں سے نیوتا یا نیگ بھی نہیں لیتے تھے، کیونکہ یہ لوگ فرطِ غیرت سے ان کاموں کو مکروہ سمجھتے تھے۔“ [هندوستاني تهزيب كا مسلمانوں پراثرص/ 153، 154]
اگر کوئی فرد کسی دوسرے پر احسان و نیکی یا تنگی میں اس کا تعاون کرنا چاہے تو اسے اپنے اس احسان کا بدلہ زیادہ مال لینے کی توقع سے نہیں کرنا چاہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
”اور احسان کر کے زیادہ لینے کی خواہش نہ کر۔“ [المدثر : 6]
ہمارے ہاں ولیمہ کی دعوت میں یہی خواہش کار فرما ہوتی ہے کہ آج اگر اتنے پیسے دیں گے تو کل ہماری شادی پر زیادہ ملیں گے۔ لہٰذا اس ہندوانہ رسم کا خاتمہ کرنا چاہیئے۔ اسلام میں اس طرح کی کوئی چیز نہیں ملتی۔ صرف شادی کے بعد حسب استطاعت دعوت ولیمہ ہے۔ کھانا کھانے والوں سے گھر بلا کر پیسے وصول کرنا ایک انتہائی مضحکہ خیز حرکت ہے، اللہ تعالیٰ اجتناب کی توفیق بخشے۔ (آمین !)

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔