ناجائز طریقے سے مال اکٹھا کرنا

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

99- اس تاجر کا حکم جو اپنا مال ناجائز طریقے سے اکٹھا کرتا ہے
انسان جب اپنا مال نا جائز طریقے سے کماتا ہے، تو اس پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس کام سے توبہ کرے جس کے ذریعے نا جائز مال کماتا ہے۔ مال کمانے کا سب سے بڑا حرام ذریعہ سود ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں سود حرام قرار دیا ہے، ارشاد ہے:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ» [البقرة: 278]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور سود میں سے جو باقی ہے چھوڑ دو، اگر تم مومن ہو۔“
نیز فرمایا:
«فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ (64-الطلاق: 1)» [البقرة: 279]
”پھر اگر تم نے یہ نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے بڑی جنگ کا اعلان سن لو اور اگر توبہ کر لو تو تمہارے لیے تمہارے اصل مال ہیں، نہ تم ظلم کرو گے اور نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔“
اور کون ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے خلاف اعلان جنگ کرنے کی جرات رکھتا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ» [البقرة: 275]
”پھر جس کے پاس اس کے رب کی طرف سے کوئی نصیجت آئے پس وہ باز آجائے تو جو پہلے ہو چکا وہ اسی کا ہے اور اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے اور جو دوبارہ ایسا کرے تو وہی آگ والے ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔“
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے سود کھانے، کھلانے، لکھنے اور اس پر گواہ بنے والوں پر لعنت کی ہے اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔ [صحيح مسلم 1598/106]
سود مال کی چند معینہ اجناس میں ہوتا ہے نہ کہ تمام مال میں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک فرمان میں انہیں بیان فرما دیا ہے:
”سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی، گندم کے بدلے گندم، کھجور کے بدلے کھجور، جو کے بدلے جو اور نمک کے بدلے نمک، ایک دوسرے کے مثل، ایک دوسرے کے برابر اور نقد بہ نقد، جب یہ اصناف مختلف ہو جائیں، پھر تم جس طرح چاہو بیچو۔“ [صحيح مسلم 1587/81]
سونا چاندی اور جو چیز ان کے معنی میں ہو اس میں سود ہوتا ہے، اس طرح باقی چار اجناس جنھیں کھایا جاتا ہے اور ماپا جاتا ہے، ان میں اور ان کی جنس کے ساتھ مشابہت رکھنے والی چیزوں میں سود ہوتا ہے، لیکن جو چیزیں ان کے علاوہ ہیں تو ان میں سود نہیں ہوتا، اس لیے انسان کے لیے دو گاڑیوں کے بدلے ایک گاڑی، یا پیسوں اور گاڑی کے بدلے گاڑی یا دو اونٹوں کے بدلے ایک اونٹ یا دو بکریوں کے بدلے ایک بکری بدلناجائز ہے، اور جو ان کے ساتھ ملتی جلتی غیر سودی اشیا ہوں ان کا اس طرح تبادلہ جائز ہے۔
مال کمانے کا دوسرا حرام ذریعہ یہ ہے کہ انسان نا جائز خرید و فروخت کے ذریعے مال کمائے، مثلاً: تمباکو کی خرید و فروخت کرنا، تمباکو اور سگریٹ نوشی حرام ہے کیونکہ اس میں مالی اور بدنی نقصان ہے، اگر انسان اس کی تجارت کرے تو یہ تجارت حرام ہوگی اور کمائی بھی حرام ہوگی، اسی طرح اس چیز کی خرید و فروخت کرنا جس کی خرید و فروخت جائز نہیں، مثلاً: کتے یا خنزیر یا اس کے ساتھ ملتی جلتی چیز کی بیع۔
شراب اور منشیات وغیرہ کی بیع بھی، جو حرام ہیں، اسی زمرے میں آتی ہے، لہٰذا جو شخص بھی کوئی حرام کاروبار کرتا ہے، اسے اس کام سے توبہ کرنی چاہیے اور اگر اس کو حرام کی مقدار کا علم ہو تو اسے نکال دینا چاہیے اور اگر علم نہ ہو تو کھوج لگا کر اس قدر نکال دینا چاہیے کہ وہ اس کی ذمے داری سے بری ہو جائے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 4/230]

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔