چھوٹے بچوں کا مسجد میں آنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا والدین اپنے ساتھ چھوٹے بچوں کو مساجد میں لا سکتے ہیں ؟
جواب : مسجدوں میں چھوٹے بچوں اور بچیوں کا آنا شرعاً جائز و مستحب ہے بشرطیکہ وہ پاک صاف ہوں۔
➊ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلِأَبِي الْعَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ، فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا [بخاري، كتاب الصلوة : باب إذا حمل جارية صغيرة على عنقه فى الصلاة 516، مؤطا، كتاب قصر الصلاة : باب جامع الصلاة 81، مسلم 543، شرح السنة 263/2، أبوداؤد 917 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نواسی امامہ بنت زینب کو اٹھائے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے جو ابوالعاص بن ربیع کی بیٹی تھیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے تو اسے نیچے بیٹھا دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے۔ “
➋ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ فَجَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , وَعَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَعْثُرَانِ فِيهِمَا، فَنَزَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَطَعَ كَلَامَهُ , فَحَمَلَهُمَا ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، ثُمَّ قَالَ : ” صَدَقَ اللَّهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 , رَأَيْتُ هَذَيْنِ يَعْثُرَانِ فِي قَمِيصَيْهِمَا، فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّى قَطَعْتُ كَلَامِي فَحَمَلْتُهُمَا [نسائي، كتاب الجمعة : باب نزول الامام عن المنبر قبل فراغه من الخطبة وقطعة كلامه 1414، أبوداؤد 1109، ترمذي 3774، ابن ماجه 3600، أحمد 354/5 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے کہ اس دوران حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما سرخ قمیصیں زیب تن کئے گرتے ہوئے آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے، اپنا کلام منقطع کیا پھر ان دونوں کو اٹھا کر منبر پر تشریف لے آئے اور فرمایا : ”اللہ تعالیٰ نے سچ کہا ہے : ”تمہارے مال اور اولاد فتنہ ہیں۔ “ میں نے ان دونوں بچوں کو گرتے ہوئے قمیصوں میں دیکھا تو صبر نہ کر سکا، یہاں تک کہ میں نے اپنی بات کو روک کر انہیں اٹھا لیا۔ “
➌ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إِنِّي لَأَقُومُ فِي الصَّلَاةِ أُرِيدُ أَنْ أُطَوِّلَ فِيهَا، فَأَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ فَأَتَجَوَّزُ فِي صَلَاتِي كَرَاهِيَةَ أَنْ أَشُقَّ عَلَى أُمِّهِ [بخاري، كتاب الأذان : باب من أخف الصلاة عند بكاء الصبي 707 ]
”میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو ارادہ کرتا ہوں کہ قرأت لمبی کروں، مگر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز مختصر کر دیتا ہوں، اس بات کو ناپسند کرتے ہوئے کہ اس کی ماں کو مشقت میں ڈال دوں۔ “
➍ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَسْمَعُ بُكَاءَ الصَّبِيِّ مَعَ أُمِّهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، ‏‏‏‏‏‏فَيَقْرَأُ بِالسُّورَةِ الْخَفِيفَةِ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ بِالسُّورَةِ الْقَصِيرَةِ [مسلم، كتاب الصلاة : باب أمر الأئمة بتخفيف الصلاة فى تمام 470، ترمذي 376، أحمد 109/3 ]
”نماز کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماں کے ساتھ (آئے ہوئے ) بچے کے رونے کی آواز سنتے تو چھوٹی سورت تلاوت کرتے۔ “
مذکورہ بالا صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ بچوں کو مسجد میں لانا جائز ہے، لیکن یہ خیال رکھنا چاہیے کہ بچے صاف ستھرے ہوں اور مسجد میں گندگی و ناپاکی نہ پھیلے۔
امام نووی رحمہ اللہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں :
وَفِيْهِ جَوَازُ صَلَاةِ النِّسَاءِ مَعَ الرِّجَالِ فِي الْمَسْجِدِ وَاَنَّ الصَّبِيَّ يَجُوْزُ اِدْخَالُهُ الْمَسْجِدَ وَاِنْ كَانَ الْاَوْلٰي تَنْزِيْهُ الْمَسْجِدِ عَمَّنْ لَا يُؤْمَنُ مِنْهُ حَدَثٌ [ شرح مسلم 156/4 ]
”اس حدیث میں مسجد میں مردوں کے ہمراہ عورتوں کے نماز پڑھنے کا جواز ہے۔ اسی طرح بچوں کو مسجد میں لانا بھی جائز ہے، اگرچہ جس (بچہ) کی ناپاکی سے بچا نہیں جا سکتا اس سے مسجد کو بچانا ہی اولیٰ وبہتر ہے۔ “
نیز وہ روایت صحیح نہیں جس میں یہ الفاظ ہیں :
جَنِّبُوْا مَسَاجِدَكُمْ صِبْيَانَكُمْ [ حاشية شرح السنة 265/3، كشف الخفاء ومزيل الالباس 334/1، المقاصد الحسنة 175، الفوائد المجموعة فى الأحاديث الموضوعة 25، تحقيق مختصر المقاصد 108 ]
”اپنی مسجدوں کو بچوں سے بچاؤ۔ “
حافظ عراقی، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم نے اس روایت کو انتہائی ضعیف قرار دیا ہے۔ امام بزار اور امام عبدالحق الاشبیلی رحمۃ اللہ علیہما نے کہا ہے : ”اس کی کوئی اصل نہیں۔ “
یاد رہے کہ اگر بچے مسجد میں شور مچائیں یا نمازیوں کے لیے تشویش کا باعث بنیں تو ایسی صورت میں بچوں کو مسجد میں لانا جائز تو ہے لیکن واجب نہیں اور امر جواز پر اصرار کرنا درست نہیں، بالخصوص جب مسجد میں بچوں کی وجہ سے جھگڑا و فساد وغیرہ کھڑا ہو تو جواز پر اصرار کرنا مکروہ ہو گا۔ اس کی مثال یہ سمجھ لیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں ایک باب یوں قائم کیا ہے : بَابُ الْاِنْفِتَالِ وَالْاِنْصِرَافِ عَنِ الْيَمِيْنِ وَالشِّمَالِ (یعنی نماز مکمل کر کے دائیں اور بائیں جانب پلٹنے کا بیان) پھر اس کے تحت ذکر کرتے ہیں :
وَكَانَ اَنَسُ بْنُ مَالِكٍ يَنْفَتِلُ عَنْ يَمِيْنِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَيَعِيْبُ عَلَي مَنْ يَّتَوَفّٰي اَوْ مَنْ يَّعْمِدُ الْاِنْفِتَالَ عَنْ يَمِيْنِهِ
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ دائیں اور بائیں دونوں جانب پھر کر بیٹھتے تھے اور جو آدمی جان بوجھ کر دائیں جانب سے پھر کر بیٹھتا اس پر اعتراض کرتے تھے۔ “
اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث درج کی ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
لَا يَجْعَلْ أَحَدُكُمْ لِلشَّيْطَانِ شَيْئًا مِنْ صَلَاتِهِ يَرَى أَنَّ حَقًّا عَلَيْهِ أَنْ لَا يَنْصَرِفَ إِلَّا عَنْ يَمِينِهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرًا يَنْصَرِفُ عَنْ يَسَارِهِ [بخاري، كتاب الأذان : باب الانفتال والإنصراف 852 ]
”تم میں سے کوئی آدمی اپنی نماز میں شیطان کا حصہ مقرر نہ کرے کہ خواہ مخواہ یہ سمجھے کہ دائیں طرف سے پھر کر بیٹھنا ہی لازم ہے۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دفعہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بائیں جانب پھرتے تھے۔ “
اس باب اور حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز سے سلام پھیر کر دائیں اور بائیں دونوں جانب پھرنا درست و جائز ہے لیکن اگر اس جائز کام کو کوئی شخص لازم جان لے اور صرف ایک طرف ہی پھرنے پر اصرار کرے تو یہ شیطان کی کارستانی ہے جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول سے واضح ہے۔
شارح بخاری امام ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فِيْهِ أَنَّ الْمَنْدُوْبَاتِ قَد تَتَقَلَّبُ مَكْرُوْهَاتٍ إِذَا رُفِعَتْ عَنْ رُتْبَتِهَا لِأَنَّ التَّيَامُنَ مُسْتَحَبٍّ فِيْ كُلِّ شَيْءٍ اَيْ مِنْ أُمُوْرِ الْعِبَادَةِ لٰكِنْ لَمَّا خَشِيَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ اَنْ يَّعْتَقِدُوْا وُجُوْبَةُ اَشَارَ اِلٰي كَرَاهَتِهِ [فتح الباري 338/2، إرشاد الساري 145/2، مرعاة المفاتيح 301/3 ]
”اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بلاشبہ مباح امور اس وقت مکروہ ہو جاتے ہیں جب انہیں ان کے مقام سے بلند کر دیا جائے۔ اس لیے کہ عبادت کے تمام امور میں دائیں جانب کا لحاظ رکھنا مستحب ہے لیکن جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو اس بات کا خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں لوگ دائیں طرف پھرنے کو واجب نہ سمجھنے لگیں تو انہوں نے اس کے مکروہ ہونے کی طرف اشارہ کیا۔ “
◈ امام طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فِيْهِ اَنَّ مَنْ اَصَرَّ عَلٰي اَمْرٍ مَنْدُوْبٍ وَجَعَلَهُ عَزْمًا وَلَمْ يَعْمَلْ بِالرُّخْصَةِ فَقَدْ اَصَابَ مِنْهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْاِضْلَالِ فَكَيْفَ بِمَنْ اَصَرَّ عَلٰي بِدْعَةٍ أَوْ مُنْكَرٍ [ شرح الطيبي على مشكوٰة المصابيح 1051/3، مرعاة المفاتيح 301/3، مرقاة المفاتيح 31/3 ]
”اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جو آدمی کسی مندوب و مباح کام پر اصرار کرے اور اسے لازم قرار دے لے اور رخصت پر عمل نہ کرے تو اسے شیطان نے گمراہ کر دیا ہے۔ جب مباح و جائز کام پر اصرار کا یہ حال ہے تو جو شخص کسی بدعت یا منکر پر اصرار کرے اس کا نتیجہ کیسا ہو گا۔ “
مذکورہ بالا صحیح احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نابالغ چھوٹے بچوں اور بچیوں کا مسجد میں آنا جائز و درست ہے لیکن اگر یہ بچے نمازیوں کی نماز میں خلل اور مسجد میں فتنہ و فساد کا باعث بن جائیں تو انہیں مسجد میں لانے سے گریز کیا جا سکتا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 48 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply