سید کا غیر سید سے شادی کرنا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

نکاح کے لیے ذات برادری ایک ہونا
سوال : کیا نکاح کے لیے میاں بیوی کی ذات کا ایک ہونا ضروری ہے کیا کوئی سید، غیر سید سے شادی کر سکتا ہے؟
جواب : لڑکی سیدہ ہاشمیہ ہو یا کوئی اور اس کا نکاح کسی بھی مسلمان لڑکے س بلا تردد درست ہے۔ کیونکہ ترجیح اور برتری کی بنیاد نسلی امتیازات اور خاندانی حسب نسب، جاہ و جلال، مال وزر، ذات و برادری وغیرہ کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ یہ تقویٰ، پرہیز گاری، اللہ کے خوف وغیرہ جیسی صفات عالیہ پر موقوف ہے۔
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اس کی وضاحت اچھی طرح فرما دی تھی کہ کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو گورے پر، سفید کو سیاہ پر کوئی برتری نہیں۔ ہر مسلمان کی حرمت برابر مقدس ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
«يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ» [الحجرات : 13]
اے لوگو ! ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تم سب کو مختلف قومیں اور قبیلے بنایا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان لیا کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔
یعنی ایک ماں باپ کی اولاد ہونے کی بنا پر تم سب برابر ہو لہٰذا کسی بھی فرد کا اپنے حسب نسب پر فخر کرنا اور دوسرے کو حقیر و ذلیل سمجھنا جہالت و بے وقوفی ہے۔ اگرچہ باعتبار اصلی تم سب ایک اور یکساں ہو لیکن تمھارا مختلف خاندانوں، قبیلوں اور قوموں میں منقسم ہونا ایک فطری امر تھا۔ اس لیے ہم نے تمہاری تقسیم کر دی مگر اس تقسیم کا مقصد برتری اور کمتری نہیں، عزت اور ذلت کا معیار قائم کرنا نہیں بلکہ ایک دوسرے کی پہچان اور معرفت ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی ایک کو دوسرے پر خاندانی حسب نسب اور نسلی امتیازات کی وجہ سے کوئی ترجیح نہیں، ترجیح تو تقویٰ و پرہیزگاری پر موقوف ہے، لہٰذا سید اور غیر سید یکساں ہیں اور اولاد آدم ہی سے ہیں۔
ایک اور مقام پر ارشادباری تعالیٰ ہے :
« إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» [الحجرات : 10]
”بے شک مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔“
یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور مسلم معاشرے کے یکساں فرد اور معزز ارکان ہیں۔ یعنی سیدہ لڑکی کا نکاح غیر سید مسلمان کے ساتھ جاٰئزہے۔
اس کی متعدد مثالیں تاریخ اسلام میں موجود ہیں :
➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پھوپی امیمہ بنت عبد المطلب کی بیٹی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا نکاح حضرت زید رضی اللہ عنہ کے ساتھ کر دیا تھا حالانکہ زید رضی اللہ عنہ غلام تھے اور بی بی زینب رضی اللہ عنہا قریشی خاتون تھیں۔
➋ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کا نکاح فاطمہ بنت قیس القریشہ رضی اللہ عنہما سے ہوا۔
➌ سیدنا بلال حبشی رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت عبد الرحمن بن عوف کی بہن سے ہوا۔ سیدنا بلال حبشی غلام تھے جن کو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آزاد کیا اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ قبیلہ قریش کے سربرآ وردہ اور معروف تاجر تھے۔
➍ ابوحذیفہ بن عتبہ بدری رضی اللہ عنہ نے اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ کا نکاح سیدنا سالم رضی اللہ عنہ، جو ایک انصاری عورت کے آزاد کردہ غلام تھے، کے ساتھ کر دیا۔
➎ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی ام کلثوم بنت فاطمہ کا نکاح حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کیا تھا۔
➏ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں بیٹیوں سیدہ رقیہ اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہما کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا تھا جب کہ آپ ہاشمی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اموی تھے۔
➐ سیدنا علی بن حسین جو زین العابدین کے نام سے معروف ہیں، کا نکاح شہر بانو بنت یزد جرد بن شہریار سے ہوا۔ لہٰذا کتاب و سنت کی رو سے نکاح میں کفو کے لیے صرف دین کی شرط ہے اور دین کے علاوہ باقی چیزوں کی حثیت ثانوی ہے۔ ہمارے ملک میں جو یہ بات رائج اور معروف ہے کہ اپنی برادری کے علاوہ کسی دوسری برادری میں رشتہ نہیں کرنا چاہئے، سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے جس کی جوئی حیثیت نہیں۔ یہ ساری باتیں قرآن و سنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں۔

اس تحریر کو اب تک 16 بار پڑھا جا چکا ہے۔