خاندانی منصوبہ بندی کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : خاندانی منصوبہ بندی کا کیا حکم ہے ؟
جواب : خاندانی منصوبہ بندی موجودہ دور کا اہم ترین مسئلہ ہے، اس بارے میں متعدد سوالات اس وقت ہمارے سامنے ہیں۔ ممتاز علماء کے بورڈ (کمیٹی) نے اپنے گزشتہ اجلاس میں اس موضوع کا بغور جائزہ لیا اور اپنے علم کی روشنی میں جو بہتر سمجھا قرار دیا، ان فیصلہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ مانع حمل گولیوں کا استعمال ناجائز ہے، وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے نسل انسانی اور امت مسلمہ میں اضافے کے اسباب کو اپنانا مشروع قرار دیا ہے، نیز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی بھی ہے کہ :
وتزوجوا الولود الودود، فإني مكاثر بكم الأمم يوم القيامة [ رواه أبوداؤد فى كتاب النكاح باب 4 والنسائي]
”محبت کرنے والی اور زیادہ بچوں کو جنم دینے والی عورتوں سے شارى کرو تحقیق میں روز قیامت تمہاری وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔ “
دوسری روایت میں سے ہے :
الأنبياء يوم القيامة [رواه أحمد جلد” ص 158]
”قیامت کے دن دوسرے انبیاء پر فخر کروں گا۔ “
نیز اس لئے بھی کہ امت مسلمہ کو افرادی قوت کی ضرورت ہے تاکہ وہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ سرانجام دے سکیں، اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر فی سبیل اللہ جہاد کریں، اور کفار کی مکاریوں سے مسلمانوں کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے سکیں، لہٰذا ضرورت کے علاوہ ایسی گولیوں کا استعمال نہیں کرنا چاہے، اگر کوئی ضرورت ہو مثلاً یہ کہ عورت کے رحم میں کوئی ایسی بیماری ہے کہ جس کی بناء پر حمل نقصان دہ ہو سکتا ہے، یا اسی طرح کی کوئی اور بیماری ہے تو ایسے حالات میں بقدر ضرورت ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح پہلے سے موجود بچوں کی کثیر تعداد کے پیش نظر اگر حمل نقصان دہ ہو تو ایک معین وقت مثلاً سال، دو سال (دودھ پلانے کی مدت) تک ایسی گولیاں استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، تاکہ عورت کے لئے مشکلات میں کمی ہو سکے اور وہ مناسب انداز میں بچوں کی تربیت کر سکے۔ اگر مانع حمل گولیوں کا استعمال صرف اس مقصد کے تحت ہو کہ ملازمت کے لئے فراغت میسر آ سکے یا کم بچے خوشحالی کا باعث ہوں گے یا ان جیسا کوئی اور معاملہ ہو جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے، تو یہ قطعا ناجائز ہے۔

 

یہ تحریر اب تک 3 لوگ پڑھ چکے ہیں، جبکہ صرف آج 1 لوگوں نے یہ تحریر پڑھی۔

Leave a Reply