نیک خاوند کے انتخاب کے لیے بنیادی صفات

شادی سے پہلے کی میل ملا قات
سوال: شادی سے پہلے کی میل ملاقات کے متعلق دین اسلام کی کیا رائے ہے؟
جواب: سائلہ کے اس قول ’’ شادی سے پہلے“ سے اگر اس کی مراد دخول سے قبل اور عقد نکاح کے بعد کی میل ملاقات ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کیونکہ عقد نکاح کے ساتھ وہ اس شخص کی بیوی بن چکی ہے، اگرچہ ابھی رخصتی کی رسم ادا نہ ہوئی ہو، اور اگر سائلہ کی مراد وہ میل ملاقات ہے جو عقد نکاح سے قبل منگنی کے بعد یا اس سے پہلے ہو تو یہ ملاقات حرام ہے، جائز نہیں ہے۔ کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اجنبی عورت کے ساتھ ہم کلام ہو کر یا نظر بازی کے ساتھ یا اس سے تنہائی اختیار کر کے لطف اندوز ہو۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا يخلون رجل بامرأة إلا مع ذي محرم، ولا تسافر امرأة إلا مع ذي محر م» [صحيح البخاري رقم الحديث 4935، صحيح مسلم رقم الحديث 1341]
”کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ اس کے محرم کے بغیر تنہائی اختیار نہ کرے اور نہ ہی کوئی عورت محرم کے بغیر سفر ہی کرے۔“
حاصل کلام یہ ہے کہ بلاشبہ مرد اور عورت کا یہ میل ملاپ عقد نکاح کے بعد ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور اگر عقد نکاح سے قبل ہو تو جائز نہیں ہے، اگرچہ انہوں نے منگنی کر لی ہو، اور ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہونا قبول کر لیا ہو، ایسی حالت میں ان کا آپس میں ملنا حرام ہے، کیونکہ جب تک اس مرد کا اس عورت کے ساتھ نکاح نہیں ہو جاتا بلاشبہ وہ عورت اس کے لیے اجنبی ہے۔ (محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ)
——————

کیا عورت بے نماز آدمی کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر سکتی ہے؟
سوال : کیا عورت کے لیے شادی سے انکار کرنا جائز ہے، اس لیے کہ اس کا باپ ایک بے نماز آدمی سے اس کی شادی کرنا چاہتا ہے؟
جواب : وہ اس طرح کے حالات میں توقف کرتے ہوئے حلم کا مظاہرہ کرے، وہ اس طرح کہ شادی سے صاف انکار نہ کر دے، بلکہ کہے: میں ابھی شادی سے کچھ توقف کروں گی، اس دوران اللہ تعالیٰ اس کے باپ کا دل نر م کر دے گا اور وہ اس کی شادی ایسے مرد سے کرنے پر راضی ہو جائے گا جس کو یہ پسند کرتی ہے۔ بعض عورتوں میں سے کوئی ایسی عورت بھی ہوتی ہے جس کو پچیسں مرد نکاح کا پیغام دیتے ہیں مگر وہ باوجود عمر رسیدہ ہو جانے کے انکار ہی کرتی جاتی ہے۔ اور ایک عورت وہ ہے جس کے گھر والے اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں مگر وہ انکار کرتی ہے، اس کے گھر والے اس کو غصہ دلانے کے لیے (تاکہ وہ غصہ میں آکر شادی پر آمادہ ہو جائے) اس کو ایک کمرہ میں بند کر دیتے ہیں، نہ تو اس کی بہنوں کو اس سے ملنے دیتے ہیں اور نہ ہی اس کو کمرہ سے نکلنے دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس کو کوئی نیک آدمی میسر کر دے جس سے اس کے گھر والے اس کی شادی کر دیں تو اس مذکورہ عورت پر لازم ہے کہ وہ صبر کرے حتی کہ اللہ تعالیٰ اس کو کوئی نیک آدمی مہیا کر دے۔
، نیز اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہے کہ اللہ اس کے لیے نیک آدمی میسر کر دے۔ (مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ)
——————

کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دے جو علمی اعتبار سے اس کا ہم پلہ نہیں ہے؟
سوال: کیا ایک دیندار عورت کے لیے جائز ہے کہ وہ ایسے شخص کو انکار کر دے جو اس سے منگنی کرنے کے لیے پیش قدمی کرتا ہے، اور وہ عورت انکار اس لیے کرے کہ وہ اس مرد کی نسبت زیادہ دین کا علم رکھتی ہے، اور اس لیے بھی کہ جب وہ اس سے شادی کرنے پر موافقت کر لے تو وہ اس کی نصیحت کو ہرگز قبول نہیں کرے گا، کیونکہ مرد عورتوں پر حا کم ہیں، جبکہ اس کا ارادہ یہ ہے کہ وہ کسی ایسے آدمی سے شادی کرے جو اس کو مزید دین کا علم سکھائے۔
جواب: اس کو انکار کرنے کا حق حاصل ہے، رہا حرمت کا مسئلہ تو ایسے مرد سے شادی کرنا حرام نہیں ہے۔ اللہ رب العزت اپنی کتاب کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
«إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ» [49-الحجرات:13]
”بےشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقوی والا ہے۔“
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ بلاشبہ تم میں سب سے زیادہ عزت والا اللہ کے ہاں وہ ہے جو تم میں سے زیادہ علم والا ہے، مذکورہ عورت کسی خاص شخص کے ساتھ شادی کرنے کی پابند نہیں لیکن اس کے لیے مذکورہ آدمی سے شادی کرنا جائز ہے، البتہ اس کے لیے انکار کرنا بھی جائز ہے، کیونکہ وہ اپنی مصلحت کو بہتر سمجھتی ہے۔ واللہ المستعان (مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ)
——————

ایک دیندار عورت کا والدین کی اطاعت کرتے ہوئے ایک بے دین آدمی سے شادی کرنا
سوال: ایک جوان عورت کا کہنا ہے کہ بلاشبہ ایک باشرع آدمی نے اس سے شادی کرنا چاہی لیکن اس کے باپ نے اس سے میری شادی کرنے سے انکار کر دیا، اور اس نے قسم اٹھائی کہ اگر وہ کسی دیندار لڑکے سے شادی کرے گی تو (عیاذاً باللہ) وہ قیامت تک اپنی اس لڑکی سے بری ہوگا۔ واضح ہو کہ بہت سے بے دین نوجوان اس سے منگنی کرنے کی پیش رفت کر رہے ہیں، کیا یہ لڑکی اگر (باپ کی اطاعت میں) کسی بے دین لڑکے سے شادی کرنا قبول کر لے گی، گناہ گار ہو گی، جبکہ یہ خود دیندار ہے؟ اور کیا یہ لڑ کی اس شخص سے، جس کی دینداری اور خو ش اخلاقی کو وہ پسند کرتی ہے، شادی نہ کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت کرنے والی شمار ہو گی؟
جواب : اس لڑکی کے باپ کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی اس لڑکی پر اس قسم کی قسم اٹھائے کیونکہ یہ معصیت اور نافرمانی کی قسم ہے، اور مذکورہ لڑکی اگر شرعی عدالت کے ذریعہ سے شادی کر سکتی ہے تو اس پر باشرع دیندار نوجوان سے شادی کرنے میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ)
——————

عورت کا دیندار شخص سے شادی کرانا
سوال: میں ایک طالب علم لڑکی ہوں، لگ بھگ پچیسں نوجوانوں نے مجھے نکاح کی پیش کش کی ہے مگر میں نے ان سب کو انکار کر دیا ہے، اس کو آٹھ سال ہوا چاہتے ہیں۔ میں نے ان نوجوانوں کو اس لیے انکار کیا کہ میں نے ان کے متعلق اللہ عزوجل سے استخارہ کیا مگر مجھے ان سے شادی کرنے پہ اطمینان نہیں ہوا، لیکن میرے گھر والے اکثر مجھے شادی نہ کرنے پر ڈانٹتے ہیں اور کہتے ہیں: شادی کے لیے ہمسر آدمی مل جانا کافی ہے، مگر میں نے اپنے دل میں پختہ عزم کر رکھا ہے کہ میں صرف اور صرف ایسے آدمی سے شادی کروں گی جو سنت کا پابند اور اپنے مال، جان اور قلم سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا ہو گا۔ کیا میرا یہ عزم و ارادہ جائز اور درست ہے؟
جواب: ان شاء اللہ یہ جائز ہے، اور نیک ساتھی بھلائی میں معاون بنتا ہے، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ عورت نیک ہوتی ہے اور کسی فاسق آدمی سے بیاہ دی جاتی ہے، پس کس قدر جلدی وہ آدمی اس کو غافل کر دیتا ہے اور اس کو بھلائی سے دور کر کے دوسرے کاموں میں مشغول کر دیتا ہے، لہٰذا میں تو اس مذکورہ لڑکی کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے لیے نیک آدمی کو ہی منتخب کرے، اگرچہ اسے اس کے لیے مال ہی کیوں نہ خرچ کرنا پڑے، اگر یہ لڑکی مالدار ہے۔ اور اگر مرد مالدار نہ ہو تو یہ لڑکی اس کو اپنے پاس لے آئے پھر وہ اس کے بعد اس سے دور ہونے کا مطالبہ نہیں کرے گا۔ پس الجزائر وغیرہ میں بحمد اللہ نیک لوگوں کی کثرت ہے اور نیک لوگ نیک عورتوں سے نکاح کے متمنی ہوتے ہیں۔
کس قدر اچھا ہو گا کہ تم کسی نیک آدمی سے شادی کر لو تاکہ تم ایک نیک خاندان کی بنیاد رکھ سکو اور تاکہ تم کتاب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دعوت دے سکو۔ الحمدللہ نیک لوگ بہت زیادہ ہیں، بحمد اللہ میں الجزائر کے کتنے ہی نیک بھائیوں کو جانتا ہوں، حتی کہ ہمارے پاس کتنے زیادہ دیندار نیک سیرت الجزائری طالب علم بھائی موجود ہیں جو اس بات کے خواہش مند ہوتے ہیں کہ وہ کسی نیک عورت سے شادی کر لیں، چاہے ان کو اس عورت کے ساتھ ہمارے ملک یمن میں ہی رہنا پڑے۔ اور وہ ان شاء اللہ امریکہ اور بہت سے دیگر ممالک میں اسلام کی دعوت پہنچانے کے لیے متحرک ہو جائیں گے۔
نیک عورت کو شادی کے لیے خاوند منتخب کرنے کے متعلق صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث موجود ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«تنكح المرأة لأربع خصال: لمالها و لمالها، أو لحسبها و الدينها، فاظفر بذات الدين تربت يدا ك» [صحيح البخاري رقم الحديث 48021، صحيح مسلم رقم الحديث 1466]
”عورت سے چار خوبیوں کی وجہ سے شادی کی جاتی ہے، اس کے مال یا جمال کی وجہ سے، یا اس کے حسب و نسب اور دینداری کی وجہ سے، پس (اے مخاطب !) دیندار عورت سے شادی کر کے کامیابی حاصل کر لو“۔
لہٰذا آدمی کو نیک عورت سے شادی کرنے اور نیک عورت کے نیک مرد سے شادی کے بہتر ہونے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی قول کافی ہے
«المرء على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل» [حسن، سنن أبى داود رقم الحديث 4833]
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر کوئی یہ دیکھا کرے کہ وہ کس کو دوست بنا رہا ہے؟
ہاں مرد کے متعلق یہ شرط نہیں لگائی جاتی کہ اس سے غلطی اور نافرمانی نہ ہوئی ہو کیونکہ شاید دنیا میں کوئی ایسا بندہ نہ ہو جس سے غلطی نہ ہوئی ہو۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
«ومن الذى ترضي سجاياه كلها»
«كفى بالمرء نبلا أن تعد معايبه»
”کون ہو سکتا ہے جس کی تمام عادات کو تو پسند کرتا ہو؟ آدمی کی عظمت کے لیے یہی کافی ہے کہ اس کے عیبوں کو شکار کر لیا جائے ایک اور شاعر نے کہا:

«ولست بمستبق أخا لا تلمه»
«على شعث أى الرجال المهذب »
”اور تمہیں کوئی ایسا بھائی نہیں ملے گا جس کی پرا گندگی پر مہذب لوگ ملامت نہ کرتے ہوں۔“
لہٰذا ضروری ہے کہ ہم لوگوں سے چشم پوشی کریں۔ اس سے میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ میں عورت کو کسی فاسق آدمی سے شادی کرنے اور تارک الدنیا زاہد آدمی سے شادی نہ کرنے کا مشورہ دے رہا ہوں، مگر جب کسی عورت کے پاس کوئی علم دوست طالب علم شادی کی غرض سے آئے تو بہت اچھا ہے، لیکن اگر وہ قرآن کا حافظ، دین کا داعی اور اللہ کی راہ میں قلم سے جہاد کرنے والا ہو اور اس کو نیک بیوی میسر آ جائے جو اللہ سبحانہ وہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت دینے والی ہو تو مرد کے لیے دنیا ہی جنت ہے۔ واللہ المستعان (مقبل بن ہادی الوداعی رحمہ اللہ)
——————

نیک خاوند کے انتخاب کے لیے بنیادی صفات
سوال: خاوند کی وہ کون سی اہم خوبیاں ہیں جن کی بنیاد پر ایک لڑکی اس کے بطور خاوند منتخب کرے؟ ؟ نیز کیا دنیاوی اغراض کی خاطر نیک خاوند کے ساتھ شادی کرنے سے کنارہ کشی کرنا عورت کو اللہ کے عذاب کا مستحق بنا دیتا ہے؟
جواب: وہ اوصاف جن کی بنیاد پر کسی عورت کو خاوند کا انتخاب کرنا چاہیے وہ حسن اخلاق اور دینداری ہیں، رہا مال اور حسب و نسب تو یہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ لیکن اہم چیز یہی ہے کہ خاوند دیندار اور خوش اخلاق ہو، اس لیے کہ عورت کو دین دار اور خوش اخلاق خاوند سے کسی کمی اور نقصان کا خدشہ نہیں ہے۔ کیونکہ اگر وہ اس کو اپنے پاس ٹھہرائے گا تو اچھے طریقے سے اور اگر بالفرض اس کو چھوڑے گا بھی تو احسان کے ساتھ۔ پھر یہ کہ دیندار شخص عورت اور اس کی اولاد کے حق میں بابرکت ثابت ہو گا، وہ اس طرح کہ یہ اور اس کے بچے اس شخص سے خوش اخلاقی اور دینداری سیکھیں گے، لیکن اگر خاوند ان خوبیوں کا مالک نہ ہو تو عورت کو چاہیے کہ وہ اس سے کنارہ کشی اختیار کرے، خاص طور پر ایسے لوگوں سے جو ادائیگی نماز میں سست ہیں یا وہ جو تمباکونوشی کے عادی ہیں۔
«العياذ بالله»
رہے وہ لوگ جو کبھی بھی نماز ادا نہیں کرتے وہ کافر ہیں، ان کے لیے مومن عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ وہ مومن عورتوں کے لیے حلال ہیں۔ سو اہم چیز یہی ہے کہ خاوند کے چناؤ میں عورت خوش اخلاقی اور دینداری کو ہی بنیاد بنائے۔ اگر اچھے نسب والا خاوند میسر آ جائے تو یہ کوئی اور بہتر ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إذا أتاكم من ترضون دينه وخلقه فأنكحوه»
[حسن، سنن الترمذي رقم الحديث 1084]
”جب تمھارے پاس ایسا شخص نکاح کی خاطر آئے جس کی خوش اخلاقی اور دینداری کو پسند کرتے ہو تو (اپنی بیٹی اور بہن وغیرہ کا) اس سے نکاح کر دو۔“
لیکن اگر ہمسر خاوند مل جائے تو یہ افضل و بہتر ہے۔
(محمد بن صالح العثمین رحمہ اللہ)
——————

عورت کا ایسے شخص کے ساتھ نکاح کرنے سے کنارہ کشی اختیار کرنا جس کی طرف اس کا میلان نہیں ہے اگرچہ وہ شخص نیک ہو؟
سوال: میں سولہ برس کی جوان لڑکی ہوں، ایک دیندار نوجوان نے، جو ایک مسجد میں مؤذن ہے، مجھے نکاح کا پیغام دیا ہے لیکن میں اس سے شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میں اس کو پسند نہیں کرتی، بلکہ میں پیغام نکا ح دینے سے پہلے ہی سے اس کو ناپسند کرتی ہوں، تو کیا میرا اس کے پیغام کو رد کرنا اور اس سے کنارہ کشی کرنا مجھے گناہ گار کرے گا حالانکہ وہ ان لوگوں کے زمرے میں آتا ہے جن کو دینداری کی وجہ سے پسند کیا جاتا ہے؟ ہمیں اس مسئلہ میں فتوی دیجیے۔ جزا کم اللہ خیر ا
جواب: جب تم کسی شخص سے اس کے دیندار ہونے کے باوجود شادی نہیں کرنا چاہتی ہو تو اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے، اس لیے کہ شادی کی بنیاد خاوند کے نیک ہونے کے ساتھ ساتھ دل کا اس کی طرف مائل ہونا بھی ہے، لیکن جب تم اس کو دیندار ہونے کے باوجود ناپسند کرو تو تم ایک مومن کو
ناپسند کرنے کے حوالے سے گناہ گار ہوگی، اور مومن سے اللہ کے لیے محبت کرنا اور اس کی دینداری کی وجہ سے اس کو ناپسند نہ کرنا واجب ہے، لیکن تمہارے لیے اس کی دینداری کو پسند کرنے کے باوجود اس سے شادی کرنا لازم اور ضروری نہیں ہے، جب تک کہ تمھارا دل اس کی طرف مائل نہ ہو۔ واللہ اعلم (صالح بن فوزان بن عبداللھ رحمہ اللہ)
——————

طلب علم کے شوق میں شادی سے بےرغبتی
سوال: اس عورت کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے جو کہتی ہے کہ اگر شادی اللہ کی سنت اپنے بندوں پر نہ ہو تو میں شادی نہ کروں، بلکہ میں دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے مکمل طور پر شریعت کا علم حاصل کروں؟
جواب: مذکورہ صورت میں حصول علم اس عورت پر واجب نہیں ہے، الا یہ کہ اس کو (مکمل علم حاصل کیے بغیر) کسی فتنہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہو، لیکن شادی ایک مرغو ب چیز ہے۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
«يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه أغض للبصر، وأحصن للفرج، ومن لم يستطع فعليه بالصوم فإنه له وجاء»
[صحيح البخاري رقم الحديث 4779، صحيح مسلم رقم الحديث 1400]
”اے نوجوانو ! تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی طاقت رکھتا ہے وہ شادی کر لے، پس بلاشبہ شادی اس کی نظر نیچی کر دے گی اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت کرے گی۔ اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزے رکھے، کیونکہ یقیناً روزہ اس کی شہوت کو ختم کر دے گا۔“
لہٰذا ہم مذکورہ عورت کو شادی کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، اور ایسے نیک آدمی سے شادی کرنے کی نصیحت کرتے ہیں، جو اس کی دینداری میں اس کا معاون و مددگار ثابت ہو۔ «والله المستعان» [مقبل بن ہادي الوادعی رحمہ اللہ]
——————

منگيتر كو ديكهنے کی حدود
سوال : کیا آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اس عورت کے، جس سے وہ منگنی کرنا چاہتا ہے، چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ دیگر اعضاء مثلاً اس کے بال اور سینہ دیکھے؟
جواب: مجھے جو بات صحیح محسوس ہوتی ہے (واللہ اعلم) بلاشبہ یہ جائز ہے، بشرطیکہ یہ دیکھنا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اسی بات کی تائید کرتا ہے:
«وإذا ألقي فى قلب أحدكم خطبة أمرأة فلينظر إلى ما يدعوه إلى نكا حها» [حسن، سنن أبى داود رقم الحدیث 2082]
”جب تم میں سے کسی شخص کے دل میں کسی عورت کو پیغام نکا ح دینے کے متعلق کوئی بات ڈال دی جائے تو وہ اس چیز کو دیکھ لے جو اس کو اس کے ساتھ نکاح کرنے پر آمادہ کر رہی ہے۔“
رہا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے تحت تو پھر چہرے اور ہتھیلیوں کے علاوہ کسی عضو کو دیکھنا جائز نہیں ہے۔ [محمد ناصر الدين الالباني رحمہ اللہ]
——————

سوال: کیا آدمی کے لیے اس عورت کو دیکھناجائز ہے جس سے وہ منگنی اور نکاح کرنے کا پروگرام رکھتا ہے؟
جواب: ہاں اس کو دیکھنا جائز ہے، بشرطیکہ یہ عمل اس آدمی اور عورت کے ولی امر کے اتفاق سے ہو تو مرد اس کی ہتھیلیاں اور چہرہ دیکھ سکتا ہے، لیکن جب یہ عمل عورت کی بےخبری میں ہو تو مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ عورت کی اس چیز کو دیکھ لے جو اس کو اس کے ساتھ شادی کرنے پر آمادہ کر رہی ہے، میرا مطلب یہ ہے کہ مرد اپنے اور اس عورت کے درمیان پہلے سے طے شدہ پروگرام کے بغیر اچانک اس عورت کو دیکھے (تو وہ اپنی مرغوب چیز دیکھ سکتا ہے) لہٰذا اس معاملہ کی دو حالتیں ہیں:
1 – یا تو عورت کے ولی کی ا جازت سے قصداً دیکھا جائے تو ایسی صورت میں وہ صرف چہرہ اور ہتھیلیاں دیکھ سکتا ہے۔
2 – اگر اچانک عورت کو بتائے بغیر دیکھا جائے تو وہ اس صورت میں عورت سے جو اس کو میسر آئے دیکھ سکتا ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ وغیرہ کی حدیث کو اس پر محمول کیا جائے گا۔
لیکن اگر مرد عورت کے ولی کے ساتھ ہو اور وہ عورت کو اس حال میں دیکھے کہ وہ اپنے گھر میں زیب و زینت کے ساتھ بے تکلف سر سے دوپٹہ اتارے ہوئے ہو تو ایسی حالت میں اس کو دیکھناجائز نہیں ہے۔
[محمد ناصر الدين الالباني رحمہ اللہ]
——————

سوال: کیا نکا ح کا پیغام دینے والے کے لیے اپنی منگیتر کو دیکھنا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کس حد تک؟ کیا وہ صرف اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے یا اس کے دیگر اعضاء بھی؟
جواب: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہا نے جب ایک عورت کو نکا ح کا پیغام بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم دیا کہ وہ اپنی منگیتر کو دیکھ لیں، اسی طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو اپنی منگیتر کو دیکھنے کا حکم دیا کہ وہ اس
چیز کو دیکھ لیں جس کی وجہ سے ان کو اس عورت کے ساتھ نکاح کرنے کی رغبت ہوئی ہے۔ اگر وہ چیز چہرہ اور ہتھیلیاں ہیں، تو اگر عورت کی پنڈلیوں کا کچھ حصہ ظاہر ہو تو اس کے دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو نکاح کا پیغام بھیجا تو علی رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ تو چھوٹی ہے ! بہرحال میں اس کو آپ کے پاس بھیجوں گا اگر وہ آپ کو پسند آئے تو میں آپ سے نکاح کر دوں گا۔ جب وہ عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی تو (عمر رضی اللہ عنہ کو کوئی چیز دیتے ہوئے) کہنے لگی: میرا باپ کہتا ہے یہ ہے وہ چیز جو ہمارے پاس ہے۔ اور یہ کہہ کر وہ چیز عمر رضی اللہ عنہ کو دے دی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم کی پنڈلیوں کو کھولا تو اس نے کہا: اللہ کی قسم ! اگر آپ: امیر المؤمنین نہ ہوتے تو میں آپ کی ناک توڑ دیتی۔ اور غصے سے اپنے باپ کے پاس چلی جاتی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: اے بیٹی! بلاشبہ وہ تمہارے شوہر ہیں۔ پھر بعض دینی بھائیوں نے مجھے بتایا کہ یہ قصہ سنداً ضعیف ہے۔
بہرحال نکاح کا پیغام دینے والے کے لیے اپنی منگیتر کی وہ چیز دیکھنا جائز ہے جو اس کو اس کے ساتھ نکا ح کرنے پر ابھارتی ہے، اور وہ عورت بھی مرد کو دیکھ سکتی ہے۔ اور جب زوجین میں کوئی عیب ہو تو میں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس کو ظاہر کر دیں تاکہ بعد میں ان کے تعلقات متاثر نہ ہوں۔
اور مرد کو چاہیے کہ وہ عورت کے محرم کی موجودگی میں اس کو دیکھے، اور اگر وہ یہ طاقت رکھتا ہے کہ منگیتر کو دور سے ہی دیکھ لے ایسی جگہ سے جہاں سے عورت اس کو نہیں دیکھ رہی، اور عورت مرد کو آتے جاتے ہوئے دیکھ لے تو یہ اچھا اور بہتر ہے، اور جب ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو (نکاح کا پیغام دینے والے) مرد کے لیے (مخطوبہ) عورت کو اور عورت کے لیے مرد کو (قریب سے) دیکھتا جائز ہے۔ [مقبل بن ہادی الوادعی رحمہ اللہ]
——————

مرد کا اپنی منگیتر کے پاس قرآن مجید حفظ کرانے کے لیے جانے کا حکم
سوال: میں نے ایک عورت سے منگنی کی اور الحمدللہ منگنی کے دوران میں نے اس کو قرآن مجید کے بیس پارے حفظ کرائے۔ میں محر م کی موجودگی میں اس کے پاس بیٹھ جاتا ہوں اور وہ شرعی پردے کی پابندی کرتی ہے۔ الحمدللہ ہماری مجلس میں صرف دینی گفتگو ہوتی ہے یا قرأت قرآن کے متعلق بات چیت ہوتی ہے جبکہ ملاقات کا وقت بھی تھوڑا ہی ہوتا ہے۔ کیا ہماری یہ ملاقات شرعاً غلط تو نہیں ہے؟
جواب: یہ مناسب اور لائق نہیں ہے، کیونکہ اس کا یہ احساس کہ اس کے پاس بیٹھنے والی اس کی منگیتر ہے غالباً اس کی شہوت کو بھڑکائے گا۔ اور زوجہ اور مملوکہ لونڈی کے علاوہ کسی پر شہوت کا ابھرنا حرام ہے، اور جو چیز حرام کی طرف لے جاتی ہے وہ بھی حرام ہے۔ [محمد بن صالح العثيمين رحمه الله]
——————

منگیتر سے ٹیلی فون پر گفتگو کر نے کا حکم
سوال: کیا مرد کا اپنی منگیتر سے ٹیلی فون پر گفتگو کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں؟
جواب: مرد کے اپنی منگیتر کے ساتھ ٹیلی فون پر گفتگو کرنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ وہ عورت اس کے پیغام نکاح کو قبول کر چکی ہو اور یہ گفتگو مفاہمت پیدا کرنے کے لیے بقدر ضرورت ہو تو اس میں کسی فتنے کا ڈر نہیں ہے۔ اور اگر یہ بات چیت عورت کے ولی کی معرفت سے ہو تو زیادہ بہتر اور شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ رہے وہ مکالمات جو ایسے مردوں اور عورتوں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان ہوتے ہیں، جن کی آپس میں منگنی نہیں ہوئی ہوتی اور وہ یہ مکالمات اس غرض کے لیے کرتے ہیں جس کا نام وہ ’’تعارف“ رکھتے ہیں، یعنی ایک دوسرے کی جان پہچان حاصل کرنے کے لیے تو یہ منکر اور حرام ہیں، فتنے کو دعوت دیتے ہیں اور بے حیائی میں مبتلا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلًا مَعْرُوفًا» [33-الأحزاب:32]
”تو بات کرنے میں نرمی نہ کرو کہ جس کے دل میں بیماری ہے طمع کر بیٹھے اور وہ بات کہو جو اچھی ہو۔“
عورت اجنبی مرد سے کسی ضروری کام سے ہی بات چیت کرے اور وہ بات چیت بھی ایسے معروف طریقے سے ہو جس میں کوئی فتنہ اور شک و شبہ نہ ہو۔ اور یقیناً علماء نے اس بات کی صراحت کی ہے کہ بلاشبہ احرام باندھنے والی عورت تلبیہ پکارتے وقت اپنی آواز کو بلند نہ کرے۔
اور حدیث میں ہے:
«إذا نابكم شيء فى صلوتكم، فليسبح الرجال، ولتصفق النساء»
[صحيح سنن الدار مي 365/1]
”جب تمہیں اپنی نماز میں کوئی چیز پیش آ جائے تو (خبردار کرنے کے لیے) مرد حضرات’’سبحان اللہ“ کہیں اور عورتیں الٹے ہاتھ پر ہاتھ ماریں۔“
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت مردوں کو اپنی آواز نہ سنائے، مگر ایسے حالات میں جب اسے مردوں سے ہم کلام ہونے کی اشد ضرورت ہو اور وہ ان سے شرم و حیا کے ساتھ ہم کلام ہو۔ والله اعلم
[صالح بن فوزان بن عبد الله رحمه الله]
——————

اس تحریر کو اب تک 13 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 1 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply