کیا غسلِ حیض سے پہلے مجامعت جائز ہے؟

       

تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری

حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل سے پہلے  جماع درست نہیں ۔

اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

(وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡمَحِیۡضِ ؕ قُلۡ ہُوَ اَذًی ۙ فَاعۡتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الۡمَحِیۡضِ ۙ وَ لَا تَقۡرَبُوۡہُنَّ حَتّٰی یَطۡہُرۡنَ ۚ فَاِذَا تَطَہَّرۡنَ فَاۡتُوۡہُنَّ مِنۡ حَیۡثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ ؕ)
(البقرہ: ۲۲۲) 

“وہ آپ سے حیض کے بارے میں سوال  کرتے ہیں ، فرما دیجئے  کہ وہ ناپاکی ہے، تم دورانِ حیض عورتوں سے علیحدہ رہو(جماع نہ کرو) ، پاک ہونے تک(جماع کی نیت سے) انکے قریب نہ جاؤ ، جب وہ (نہاکر)اچھی طرح پاک ہوجائیں ، تو حکم الٰہی کے مطابق ان کے پاس آؤ۔”

حافظ ابن کثیر ؒاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :

(وقد اتفق العلماء علی ان المراۃ اذا انقطع حیضھا لاتحل حتیٰ تغتسل تعذر ذلک علیھا علیھا بشرطہ ، الا ان أباحنفیۃ رحمہ اللہ۔۔۔)

“علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عورت خونِ حیض رکنے کے بعد اس وقت تک مرد کے لیے حلال نہیں ہوتئی، جب تک پانی سے غسل نہ کرلے یا مجبوری کی صورت میں تیّمم نہ کرلے، سوائے ابوحنیفہ کے (وہ غسل کو  ضروری خیال نہیں کرتے)۔” (تفسیر ابن کثیر: ۳۵۰/۱)

معلوم ہوا کہ اس آیت میں   (حتی یطھرن)سے مراد”خونِ حیض کا رکنا”اور (فاذا تھرن) سے مراد “غسل کرنا” ہے۔

جلیل القدر تابعی امام عکرمہ ؒ فرماتے ہیں :

(اذا نقطع عنھا الدّم فلا یأ تیھا، حتّٰی تطھر، فاذا طھرت فلیا تھا کما أمر اللہ)

“جب عورت کا خونِ حیض رک جائے تو بھی غسل کرنے تک اس کا خاوند (جما ع کے لیے ) اس کے پاس نہ آئے ، جب وہ غسل کرچکے، تو حکم الٰہی کے مطابق اس سے صحبت کرلے۔” (مصنف ابن ابی شیہ: ۹۷،۹۶/۱، وسندۂ حسن)

عظیم تابعی مجاہدین جبرؒ فرماتے ہیں :

لا یقربھا زوجھا حتیٰ تغتسل۔

” جب تک وہ (حائضہ ) غسل نہ کرے ، اس کا خاوند، (جماع کی نیت سے) اس کے قریب نہ آئے۔” (سنن دارمی :۱۱۱۷، مصنف ابن ابی شیبۃ:۹۶/۱، وسندۂصحیح)

امامکحول تابعی فرماتے ہیں :

 (لایغشی الرّجل المرأۃ اذا طھرت من الحیضۃ حتّٰی تغتسل)

عورت کے حیض سے پاک ہونے کےبعد غسل کرے سے پہلے مرد جماع نہیں کرسکتا۔” (مصنف ابن ابی شیبۃ: ۹۶/۱، وسندۂ صحیح)

امام عطاء بن ابی رباح ؒ سے اس بارے میں پوچھا گیا، تو فرمایا:

لا، حتّٰی تغتسل۔

“نہیں ! غسل سے پہلے (جماع درست نہیں )” (سنن دارمی :۱۱۲۷، وسندۂ صحیح)

امام طحاوی حنفی ؒ (م۳۲۱ھ) لکھتے ہیں :

(ولا نعلم فی ھٰذا الّتأ ویل اختلا فاً بین أھل العلم، وانقطاع الدّم لیس بطھر فی نفسہ، لأ نّھا إن خرجت بہ من الحیض فانّھا غیر مباح لزوجھا جماعھا وغیر مباح لھا الصّلاۃ والطّواف بالبیت حتّٰی تغتسل بالماء أو تیمّم بالصّعید عند عدم الماء۔۔)

” ہمارے علم کے مطابق اس تفسیر تَطَھَّرْنَ سے مراد غسل کرنے میں اہل علم کا اختلاف نہیں ، خون کا رُکنا بذاتِ خود پاکی نہیں ہے، کیونکہ خون رکنے سے وہ حیض سے تو نکل گئی ہے، لیکن خاوند کے لئے اس سےجماع جائز نہیں ، اسی طرح نماز اور بیت اللہ کا طواف بھی جائز نہیں ، تا آنکہ پانی سے غسل نہ کرلے یا پانی نہ ملنے کی صورت میں تمیّم نہ کرلے۔” (أحکام القرآن للطھاوی: ۱۲۷/۱)

امام ابن المنذ ر ؒ (م۳۱۸ھ) رقمطراز ہیں :

والّذی بہ أقول ماعلیہ جمل أھل العلم، أن لا یطأالرّجل زوجتہٗ إ ذا طھرت من المحیض حتّٰی تطھر بالماء، واللہ أعلم۔

“میرا وہی مذہب ہے، جو تمام اہل علم کا ہے کہ مرد اپنی بیوی سے اس وقت تک جماع نہیں کر سکتا ، جب تک وہ پانی سے (غسل کرکے) طہارت حاصل نہ کرلے۔” (الا وسط لا بن المنذر :۲۱۵/۲)

کسی صحابی یا تابعی سے اس کے خلاف کچھ ثابت نہیں ۔

الحاصل:

حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل سے پہلے جماع درست نہیں ۔

اس تحریر کو اب تک 43 بار پڑھا جا چکا ہے، جبکہ صرف آج 1 بار یہ تحریر پڑھی گئی ہے۔

Leave a Reply