منفرد (اکیلے نمازی) کے ساتھ نماز میں شریک ہونا

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : اگر کوئی اکیلا شخص نماز پڑھ رہا ہو دوسرا اس کے ساتھ شریک ہو سکتا ہے ؟
جواب : اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو اور دوسرے شخص آکر اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائیں تو جماعت کی صورت بن جاتی ہے، صحیح احادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔
سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے :
بت عند خالتي ميمونة فقام النبى صلى الله عليه وسلم يصلي من الليل فقمت اصلي معه فقمت عن يساره فاخذ برأسي فاقامني عن يمينه [بخاري كتاب الأذان : باب اذا لم ينو الامام أن يؤم ثم جاء قوم فأمهم 699، مسلم، كتاب صلاة المسافرين : 763، نسائي 807 ]
”میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رات بسر کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہو گیا، میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر دیا۔ “
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص نماز ادا کر رہا ہو اور دوسرا شخص آ جائے تو نماز باجماعت ادا ہو سکتی ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث پر جو باب منعقد کیا ہے اس سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے یعنی جب امام نے امامت کی نیت نہ کی ہو پھر کچھ لوگ آ جائیں تو وہ ان کی امامت کروا دے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے فوائد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فِيْهِ مَشْرُوْعِيَّةُ الْجَمَاعَةِ فِي النَّافِلَةِ وِالْاِيْتِمَامِ بِمَنْ لَّمْ يَنْوِ الْاِمَامَةَ وَبَيَانُ مَوْقَفِ الْاِمَامِ وَالْمَامُوْمِ [ فتح الباري 485/2]
”اس حدیث سے نفل نماز کی جماعت، جس آدمی نے امامت کی نیت نہ کی ہو اس کی اقتدا اور امام و مقتدی کے کھڑے ہونے کی جگہ کی مشروعیت معلوم ہوتی ہے۔ “
امام ابن منذر رحمہ اللہ نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی استدلال کیا ہے کہ امام کے لیے امامت کی نیت کرنا اقتدا کی صحت کے لیے شرط نہیں ہے۔
انس رضی اللہ عنہ کی حدیث یہ ہے :
اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلّٰي فِيْ شَهْرِ رَمَضَانَ قَالَ فَجِئْتُ فَقُمْتُ اِلٰي جَنْبِهِ وَجَاءَ آخَرُ فَقَامَ اِلٰي جَنْبِيْ حَتّٰي كُنَّا رَهْطًا فَلَمَّا اَحَسَّ النَّبِيُّ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَا تَجَوَّزَ فِيْ صَلَاتِهِ . وَهُوَ ظَاهِرٌ فِيْ أَنَّهُ لَمْ يَنْوِ الْاِمَامَةَ اِبْتِدَاءً وَائْتَمُّوْا هُمْ بِهِ وَاَقَرَّهُمْ وَهُوَ حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ اَخْرَجَهُ مُسْلِمٌ وَعَلَّقَهُ الْبُخَارِيُّ [فتح الباري 192/2، مزيد ديكهيں : الإقناع لابن المنذر 116/1، الأوسط له، كتاب الإمامة : باب ذكر الائتمام بالمصلي الذى لا ينوي الإمامة 210/4، 211]
”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے میں نماز ادا کی، میں آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں کھڑا ہو گیا اور دوسرا آدمی آیا وہ میرے پہلو میں کھڑا ہو گیا حتیٰ کہ ہم ایک گروہ ہو گئے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا تو آپ نے اپنی نماز میں اختصار کیا۔“
یہ حدیث اس مسئلے پر ظاہر ہے کہ آپ نے ابتدا میں امامت کی نیت نہیں کی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ کی اقتدا کی اور آپ نے انہیں برقرار رکھا۔ یہ حدیث صحیح ہے، اسے مسلم نے روایت کیا ہے اور بخاری نے معلق ذکر کیا ہے۔ “
امام احمد ابن حنبل رحمہ اللہ اس بات کی طرف گئے ہیں کہ نفل اور فرض نماز کے مابین فرق ہے، فرض نماز میں امامت کی نیت شرط ہے، نفل نماز میں نہیں۔ لیکن امام احمد رحمہ اللہ کا یہ قول محل نظر ہے کیونکہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے کہ بلاشبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اکیلے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا :
” کون آدمی اس پر صدقہ کرے گا کہ وہ اس کے ہمراہ نماز ادا کرے۔ “ [ابوداؤد، كتاب الصلاة، باب فى الجمع فى المسجد مرتين 574]
امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن اور امام ابن خزیمہ، امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام حاکم رحمہ اللہ رحمۃ اللہ علیہم نے اسے صحیح کہا ہے۔ [فتح الباري 192/2]
یہ حدیث فرض نماز کے بارے میں ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص فرض نماز اکیلا پڑھ رہا ہو تو دوسرا آدمی اس کے ساتھ نماز میں شریک ہو جائے تو ان کی جماعت بن جائے گی۔ اس لیے نماز خواہ فرض ہو یا نفل دونوں صورتوں کا جواز حدیث سے واضح ہے کہ اکیلے آدمی کی نماز میں دوسرا ساتھ مل جائے تو جماعت کی صورت بن سکتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ کا بھی رحجان ادھر ہی معلوم ہوتا ہے اور صحیح احادیث سے اس موقف کو تقویت ملتی ہے۔

اس تحریر کو اب تک 16 بار پڑھا جا چکا ہے۔