مساقات اور مزارعت کی اقسام

تحریر : فتاویٰ سعودی فتویٰ کمیٹی

185- مساقات و مزارعت کا حکم اور ان حکمت
مساقات اور مزارعت معاملات کی دو اقسام ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بندوں کے لیے حلال قرار دیا ہے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ معاملات میں، عبادات کے عکس، اصل اباحت اور حلت ہوتی ہے، الا یہ کہ کسی کی حرمت پر دلیل قائم ہو جائے، جبکہ عبادات میں اصل منع اور ترمیم ہوتی ہے، مگر یہ کہ کسی کی مشروعیت پر کوئی دلیل قائم ہو۔
معاملات میں اباحت اور حلت کا اصل ہونا ماسوائے یہ کہ کسی کی حرمت پر کوئی دلیل دلالت کرے، ایسا قاعدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے بندوں پر رحمت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ لوگوں کو متعدد معاملات درپیش ہوتے ہیں، بلکہ ناقابل شمار اشیا وقوع پذیر ہوتی ہیں، اگر یہ اشیا لوگوں کے لیے محصور اور شمار کر دی جاتیں تو بندوں کے لیے ان میں تنگی پیدا ہو جاتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے ساتھ معاملات حلال کر دیے، ماسوائے ان کے جن کی حرمت پر کوئی دلیل دلالت کرے، یہ مساقات اور مزارعت بھی انھی حلال معاملات میں سے ہیں، مساقات کا تعلق درختوں کے ساتھ ہوتا ہے، جبکہ مزارعت کا تعلق زمین کے ساتھ۔
مثال کے طور پر ایک آدمی کے پاس باغ ہے جس میں کھجور، انگور، انجیر اور کنو وغیرہ کے درخت ہیں، وہ یہ درخت ایک معلوم اور مشترک حصے پر کسی کو بٹائی پر دے دیتا ہے، وہ شخص ان درختوں کو پانی دیتا ہے، ان کی اصلاح کرتا ہے، اس سلسلے میں مشقت اٹھاتا ہے۔ درختوں کا مالک اس آدمی سے کہتا ہے:
یہ کھجور کا درخت لو، اس کی اصلاح اور کانٹ چھانٹ کرو، آدھا یا چوتھا حصہ پھل تمھارا ہوگا، مالک کے لیے یہ کہناجائز نہیں کہ یہ کھجور یا باغ ہے، اس کی نگرانی کر، سو کلو پھل تمھارا ہوگا لیکن یہ مشرقی جانب کے درختوں کا پھل میرا ہوگا اور مغربی جانب کے درختوں کا پھل تمھارا، یا اس جیسی کوئی بات ہے، کیونکہ حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلى اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں لوگ جو درخت اور کھیت نالوں کے کناروں اور پانی کی گزر گاہوں کے قریب قریب ہوتے، انہیں اجرت پر دے دیتے، یہ ہلاک ہو جاتا وہ بچ جاتا۔ وہ ہلاک ہو جاتا یہ بچ جاتا، لوگوں کے ہاں زمین اجرت پر دینے کی یہی صورت ہوتی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا دیا، لیکن جو چیز معلوم اور ضمانت شدہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں۔ [سنن أبى داود، رقم الحديث 3392]
معلوم اور ضمانت شدہ چیز مشترک حصہ ہوتا ہے کیونکہ اگر آپ عامل کے لیے ایک غیر مشترک چیز محدود اور متعین کر دیتے ہیں تو یہ بہت بڑے دھوکے کا باعث ہو سکتا ہے، کیونکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جو مقدار آپ نے عامل کے لیے مخصوص کی ہے، صرف اسی قدر پھل پیدا ہو، جبکہ وہ آپ نے مال کے لیے مخصوص کر دیا ہے، لہٰذا آپ فائدے کے بغیر ہی رہ جائیں گے، لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ پھل زیادہ ہو جائے۔ عامل یہ سمجھتا رہا کہ اس نے جو اپنے لیے حصے کی شرط لگائی تھی، وہ مثال کے طور پر دسویں حصے یا آدھے کے برابر ہے، لیکن جب پیداوار زیادہ ہوگئی تو جو اندازہ اس نے لگایا تھا وہ اس سے کم کے بھی برابر نہ رہا، لہٰذا اس میں جہالت پائی جائے گی۔ اسی طرح اگر وہ کسی معلوم جگہ کے درختوں پر مساقات کرتا ہے، مثلاً کہے کہ مشرقی درخت میرے اور مغربی تیرے، تو اس میں بھی اس بات کا امکان رہتا ہے کہ مشرقی درخت جو عامل کے لیے مشروط تھے، ان کا پھل تباہ ہو جائے اور وہ بغیر فائدے کے رہے، ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ مغربی درخت جو مالک کے لیے مشروط ہوں تباہ ہو جائیں اور اس کو نقصان پہنچ جائے، اس لیے مساقات معلوم اور مشترک حصے ہی پر جائز ہے، جیسے آدھا حصہ، تیسرا حصہ، چوتھا حصہ وغیرہ۔
کیا مالک کے لیے جائز ہے کہ وہ سالانہ متعین اجرت (ٹھیکے) پر کھجور کا درخت دے دے اور پھل سارے کاسارا عامل کا ہو، مثلاً وہ کہے:
دس سال کے لیے یہ کھجور کے درخت لے لو، ان کا پھل تمھارا ہوگا اور تم ہمیں سالانہ ایک لاکھ یا اس سے کم یا زیادہ دے دینا۔
جمہور علما اس کے جواز کے قائل نہیں کیونکہ اس میں دھوکے کا احتمال ہے کیونکہ ایسا ہو سکتا ہے کہ کبھی پھل زیادہ ہو اور کبھی کم، اور کبھی بالکل ہی نہ ہوں کیونکہ پھل آفتوں کا شکار ہو کر خراب یا بر باد ہو سکتا ہے۔
لیکن شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: جس طرح ایک متعین اجرت پر زمین دینا جائز ہے اور کھیتی تمام کی تمام مزارع کی ہوتی ہے، اسی طرح کھجور کے درخت بھی متعین اجرت پر دینے جائز ہیں، انہوں نے حضرت عمر فاروق سے مروی ایک اثر سے دلیل لی ہے، جس میں ہے کہ حضرت اسید بن حضیر کے ذمے قرض تھا، جسے ادا کرنے کے لیے حضرت عمر نے ان کے باغ کی ضمانت دی۔
شیخ الاسلام نے جو فرمایا ہے میرے نزدیک وہی درست ہے، کیونکہ کھیتی باڑی کے لیے زمین کرائے پر دینے اور پھل اگانے کے لیے زمین کرائے پر دینے میں کوئی نمایاں فرق نہیں۔ اس بنیاد پر مساقات کی دو صورتیں ہیں:
پہلی صورت: کسان کو پھل میں ایک معلوم، جیسے آدھا، تیسرا، چوتھا اور مشترک حصے پر کھجور کے درخت دینا کہ وہ ان کی دیکھ بھال کرے۔
دوسری صورت: کہ کرائے پر دینا یعنی ٹھیکے پر دینا، مثلاً مالک کہے: دس سال کے لیے یہ کھجوریں لے لو، پھل تمھارا ہوگا اور مجھے ہر سال دس ہزار روپے یا ایک لاکھ روپے (یا جو وہ طے کر لیں) دے دینا۔
مزارعت کھیتی پر ہوتی ہے، درخت پر نہیں، اس میں یہ ہوتا ہے کہ آدمی اپنی زمین کسی کو پیداوار میں معلوم اور متعین، جیسے آدھا، چوتھا وغیرہ اور مشترک حصے پر دیتا ہے، مزارع کھیتی باڑی کرتا ہے اور پیداوار دونوں کے درمیان اس حصے کے مطابق تقسیم ہو جاتی ہے جس پر وہ متفق ہوتے ہیں، لیکن اس میں بھی وہ حصہ معلوم و تعین اور مشترک ہونا چاہیے، اگر کہے: سو صاع پیداوار تمھاری ہے اور باقی میری، تو یہ درست نہیں کیونکہ ہوسکتا ہے فصل صرف سو صاع ہی ہو، اسی طرح عامل نقصان اٹھائے گا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ فصل چند صاع ہو، جو مالک کے گمان میں بھی نہیں تھی تو اس کو خسارہ اٹھانا پڑ جائے گا۔
یہ جوئے کے مشابہ ہے، اس لیے اس سے منع کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح اگر کہے، تمہارے لیے مغربی کھیت کی فصل ہوگی اور مشرقی کھیت کی فصل میری ہے، تو یہ بھی درست نہیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ جانب جو کسی ایک کی تھی تباہ ہو جائے اور اس کو نقصان ہو جائے۔
مزارعت بھی مساقات کی طرح دو صورتوں پر ہے، ایک یہ ہے کہ پیدوار میں سے ایک معلوم و متعین اور مشترک حصے پر کسی کو ز میں کھیتی باڑی کے لیے دینا اور دوسری صورت ٹھیکے پر دینے کی ہے، مثلاً کہے: دس سال کے لیے زمین ٹھیکے پر لے لو، ہر سال مجھے اتنے پیسے دے دینا لیکن اس کی پیداوار سے نہیں۔
اس میں کوئی حرج نہیں، اسے اگرچہ اجارہ (کرائے پر دینا) کہا جاتا ہے لیکن یہ یھی مزارعت ہی کی ایک قسم ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 11/246]

اس تحریر کو اب تک 27 بار پڑھا جا چکا ہے۔