کیا مساجد کو گرایا جا سکتا ہے ؟

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا مسجد کو کسی مصلحت اور شدید ضرورت کے باعث کسی دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے؟ قرآن و سنت کے دلائل سے مسئلہ کی وضاحت فرما دیں۔
جواب : جو چیز وقف کر دی جائے اسے ہبہ کرنا، فروخت کرنا یا اپنی کسی شخصی ضرورت کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری کی حدیث میں ہے :
فَتَصَدَّقَ عُمَرُ اَنَّهُ لَا يُبَاعُ اَصْلُهَا وَلَا يُوْرَثُ وَلَا يُوْهَبُ [بخاري، كتاب الوصايا : باب الوقف كيف يكتب 2772 ]
” سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خیبر کی زمین کو وقف کیا (اس شرط پر) کہ نہ اس کو بیچا جائے گا، نہ اس کا وارث بنا جائے گا اور نہ اسے تحفہ ہی دیا جائے گا۔ “
اس حدیث میں یہ بات ہے کہ اس زمین کا اصل نہ فروخت کیا جا سکتا ہے، نہ کوئی اس کا وارث بن سکتا ہے اور نہ اسے ہبہ کیا جا سکتا ہے۔ مسجد بھی اللہ تعالیٰ کے لیے وقف ہوتی ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
﴿وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللهِ أَحَدًا﴾ [الجن : 18 ]
”اور مسجدیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں (اس کی عبادت کے لیے ) اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو مت پکارو۔ “
دوسری بات یہ ہے کہ مسجدیں بنانے کا حکم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :
اَمَرَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّي اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّوْرِ وَاَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ [ أبوداؤد، كتاب الصلاة : باب اتخاذ المساجد فى الدور 455 ]
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ان کو صاف ستھرا اور خوشبودار رکھا جائے۔ “
مسجد کو گرانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہے۔ اس لیے مسجد کو بلاوجہ گرانا یا کسی شخص کا صرف اپنے تصرف میں لے آنا اور اسے فروخت کرنا درست نہیں۔ ہاں اگر مسجد ایسی جگہ ہے جہاں لوگ اس سے مستفید نہیں ہو سکتے یا وہ کہیں راستے میں ہے، جس سے مسلمانوں کو تکلیف ہوتی ہے یا کسی اور مصلحت کے لیے مسجد ایک جگہ سے ختم کر کے دوسری جگہ تعمیر کرنا درست ہے۔ اس کی دلیل یہ حدیث ہے کہ کوفہ میں کسی نے مسلمانوں کے بیت المال کو نقب لگا کر چوری کر لیا۔ نقب لگانے والا بھی پکڑا گیا۔ اس وقت بیت المال کے نگراں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ تھے۔ انہوں نے امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا تو انہوں نے جواب دیا :
أَنِ انْقُلِ الْمَسْجِدَ وَصَيِّرْ بَيْتَ الْمَالِ فِيْ قِبْلَتِهِ
”مسجد کو یہاں سے اس طرح منتقل کر لو کہ بیت المال مسجد کے قبلہ میں آ جائے۔ “
کیونکہ مسجد میں کوئی نہ کوئی نمازی تو ضرور ہوتا ہے۔ اس سے بیت المال محفوظ ہو جائے گا، تو حضرت سعد بن مالک رضی اللہ عنہ نے مسجد وہاں سے ختم کر کے کھجوروں کی منڈی میں بنا دی اور منڈی کو مسجد والی جگہ منتقل کر دیا اور یوں بیت المال بھی مسجد کے قبلہ میں بن گیا۔ [فتاويٰ ابن تيميه ]
یہ سب کچھ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ہو رہا تھا، کسی نے بھی اس سے نہ روکا۔ اگر یہ کام درست نہ ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کا ضرور انکار کرتے۔
ایک اور دوسری دلیل جس سے اہل علم استدلال کرتے ہیں وہ صحیحین کی حدیث ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا:
لَوْ لَا اَنَّ قَوْمَكِ حَدِيْثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ لَأَمَرْتُ بِالْبَيْتِ فَهُدِمَ فَأَدْخَلْتُ فِيْهِ مَا أُخْرِجَ مِنْهُ وَاَلْزَقْتُهُ بِالأَرْضِ وَجَعَلْتُ لَهُ بَابَيْنِ . . . [بخاري، كتاب الحج : باب فضل مكة وبنيانها 1586، مسلم، كتاب الحج : باب نقض الكعبة وبنائها 1333 ]
”اگر تیری قوم میں نئے نئے مسلمان نہ ہوتے تو میں کعبہ کی عمارت کو گرانے کا حکم دے دیتا تاکہ (نئی تعمیر میں) اس حصہ کو بھی داخل کر دوں جو اس سے باہر رہ گیا ہے اور اس کی کرسی زمین کے برابر کر دوں اور اس کے دو دروازے بنا دیتا (ایک اندر جانے کے لیے اور دوسرا نکلنے کے لیے )۔ “
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ وقف شدہ عمارت وغیرہ کو تبدیل کرنا جائز ہے۔ ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اظہار نہ کرتے۔ مسجد کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا بھی تبدیلی کی ایک قسم ہے لہٰذا جائز ہے۔ لیکن یہ اس وقت کیا جاسکتا ہے جب مصلحت اس کا تقاضا کرتی ہو اور کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے متعلق اپنی خواہش کے اظہار کے باوجود فتنے سے بچنے کے لیے ایسا نہ کیا۔
تیسری دلیل یہ ہے کہ جس چیز کی نذر مانی گئی ہو وہ بھی وقف ہو جاتی ہے۔ اس کو تبدیل کرنا بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے ثابت ہے۔ مثلاً ایک شخص نذر مانتا ہے کہ میں اپنے گھر کو مسجد بناؤں گا، پھر وہ اس سے زیادہ اچھی جگہ مسجد بنوا دیتا ہے تو یہ درست ہے۔ اس کی دلیل صحیح حدیث ہے۔
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص فتح مکہ کے موقع پر کھڑا ہوا اور اس نے کہا: ”اے اللہ کے رسول ! میں نے نذر مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مکہ فتح کر دیا تو میں بیت المقدس جا کر نماز پڑھوں گا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کہا: صَلِّ هٰهُنَا ”یہیں مسجدِ نبوی میں نماز پڑھ لو۔ “ اس نے پھر وہی بات کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر یہی جواب دیا۔ اس نے تیسری مرتبہ
یہی دہرایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فَشَأْنُكَ اِذًا ”پھر جیسے چاہے کر۔ “
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
وَالْذِيْ بَعَثَ مُحَمَّدًا بِالْحَقِّ لَوْ صَلَّيْتَ هٰهُنَا لَاَجْزَأَ عَنْكَ صَلَاةً فِيْ بَيْتِ الْمُقَدَّسِ [أبوداؤد، كتاب الإيمان والنذور : باب من نذر أن يصلي فى بيت المقدس 3305، 3306 ]
”اس ذات کی قسم جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو حق کے ساتھ مبعوث کیا اگر تو یہاں (مسجد نبوی) میں نماز پڑھتا تو یہ تجھے بیت المقدس میں نماز پڑھنے سے کفایت کر جاتی۔ “

اس تحریر کو اب تک 32 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply