قرآن حکیم کے ساتھ کافر ملک کا سفر

تحریر: علامہ عبداللہ بن عبدالرحمن الجبرین حفظ اللہ

سوال: قرآنِ حکیم کے ساتھ کافر ملک کے سفر کا کیا حکم ہے؟
جواب: فقہاء نے بیان کیا ہے کہ یہ حرام ہے ۔ اور اس سلسلہ میں صحیح حدیث وارد ہوئی ہے جو امام مسلم رحمہ اللہ سے مروی ہے ۔ [ج 6 ص 30] اور امام احمد رحمہ اللہ سے [ج 2 ص 76 ، 55 ، 10 ، 6] نیز امام ابو داؤد اور دوسرے حضرات سے بھی یہ روایت منقول ہے ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لا تسافروا بالقرآن فإني أخاف أن يناله العدو [صحيح مسلم ، كتاب الامارة ، باب 24 ح 1829 ۔ ومسند احمد ۔ 106/2]
”قرآن کریم لے کر سفر نہ کرو مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے ۔“
دوسری روایت میں ہے:
نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن تسافر بالقرآن إلى أرض العدو مخافة ان يناله العدو
”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے کہ قرآنِ حکیم لے کر دشمن کی سر زمین کی طرف سفر کیا جائے مبادا دشمن کے ہاتھ چڑھ جائے ۔“
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری ، ”باب الجهاد باب كراهية السفر بالمصاحف إلى أرض العدو“ میں روایت کیا ہے ، لیکن اس کا سبب بیان نہیں کیا ۔ اور بلاشبہ جمہور فقہاء نے بھی قرآن مجید کو ساتھ لے کر دشمن کی سر زمین کی طرف سفر کرنے سے منع کیا ہے ، لیکن بعض علماء نے اس کو جائز قرار دیا ہے بشرطیکہ لشکر زیادہ ہو اور دشمن پر فتح کا یقین کامل ہو ۔ قرآنِ حکیم کے ہمراہ سفر کرنے سے روکنے کی ایک علت یہ بیان کی گئی ہے کہ اگر دشمن غالب آگیا تو قرآن کریم کی ناقدری و بے حرمتی کا خطرہ ہے ۔
دوسرا خطرہ یہ ہے کہ ایسی شکل میں دشمن اس میں تحریف کر سکتا ہے ۔ مذکورہ دلائل سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے کہ کافر کے ہاتھ میں قرآن حکیم کا نسخہ نہیں دیا جا سکتا ، اس لیے کہ وہ معنوی طور پر نجس و نا پاک ہے ۔ علاوہ ازیں کافر کو قرآن مجید کی تعلیم دینا بھی درست نہیں ، الا یہ کہ اس کے اسلام لانے کی امید ہو یا اتمام حجت کی خاطر تعلیم قرآن کا انتظام کیا جا سکتا ہے ۔
یہ بھی معلوم ہو گیا کہ عیسائیوں کے بچوں کو قرآن حکیم کی تعلیم دینا ممنوع ہے اس طرح کافر کا قرآن چھونا اور پکڑنا بھی ممنوع ہے ، خواہ کافر مسلمانوں کے مدارس میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں ، لیکن بعض جدید علماء نے اجازت دی ہے کہ موجودہ دور میں قرآن کریم لے کر کفار کے ملک کا سفر کیا جا سکتا ہے ۔
شیخ محمد رشید نے ”آداب شرعیہ“ (ج 2 ص 299) پر اپنے حاشیہ میں کہا ہے کہ پہلی صدی کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اگر قرآن حکیم دشمنوں کے ہاتھوں لگ جاتا تو بہت بڑے فتنے کا اندیشہ تھا کیوں کہ لکھے ہوئے قرآن حکیم کم تھے خطرہ تھا کہ دشمن دین اسلام کو بد نام کرنے کے لیے قرآن کریم میں تحریف کرتے اور جو نسخے مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھے انہیں بھی مشکوک بنا دیتے لیکن بعد میں قرآن مجید کے نسخوں کی کثرت ہو گئی اور پوری دنیا میں قرآن کے نسخے پھیل گئے ، ہزاروں نسخے کافروں کے ممالک میں بھی پائے جانے لگے اور جس فتنہ کا اندیشہ تھا ختم ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم کی حفاظت کا جو وعدہ کیا تھا اس کو بھی پورا کر دکھایا ۔
لہٰذا اب قرآن کریم کے ساتھ کافر ملکوں کا سفر کرنے میں کوئی حرج نہیں ، اور پریس لگ جانے کی وجہ سے قرآن حکیم ہر جگہ پہنچ چکا ہے ، مختلف زبانوں میں قرآن مجید کے ترجمے شائع ہو چکے ہیں ، البتہ بعض ترجموں میں واضح غلطیاں موجود ہیں ، لہٰذا شدید احتیاط ضروری ہے ۔ واللہ اعلم !
——————

اس تحریر کو اب تک 41 بار پڑھا جا چکا ہے۔