دینی ترانے سننے کا حکم

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

نغمات کا حکم
سوال : ان ترانوں کا کیا حکم ہے جن میں دف بجائی جاتی ہے ؟
جواب : یہ ترانے جن کا آج کل ان کے ناموں کے سوا اور نام رکھا جاتا ہے ، پس ان کا نام اسلامی ترانے رکھا جاتا ہے ، اسلام میں دینی ترانے نہیں پائے جاتے ، اسلام میں شعر پائے جاتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سلیم فرماتے ہیں :
وإن من الشعر لحكمة [صحيح البخاري ، رقم الحديث 5793 ]
”بلاشبہ بعض شعر پر حکمت ہوتے ہیں ۔ “
یا تو ہم شعر پڑھیں اور ان کا نام ترانے رکھ لیں ۔ اور دینی ترانے یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو ہمارے سلف صالحین نہیں پہچانتے تھے ، خصوصاًً جب ان کے ساتھ دف کی طرح بعض آلات موسیقی کا بھی استعمال ہو ۔
بات کا خلاصہ یہ ہے کہ بلاشبہ دینی ترانوں کا کوئی تصور نہیں ہے ، اسلام میں تو صرف لطیف معانی پر مشتمل اشعار ہیں ، ان کو انفرا دی طور پر یا بعض اجتماعات جیسے شا دی میں پڑھنا جائز ہے ، جیسا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ بلاشبہ وہ انصار کی ایک شادی میں شرکت کر کے گھر لوٹیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے سوال کیا : هل غنيتم لهم ؟ فإن الأنصار يحبون الغناء [صحيح صحيح ابن حيان 185/13 ]
”کیا تم نے ان کے لیے کچھ گایا ہے ؟ کیونکہ انصار گانے کو پسند کرتے ہیں ۔“
عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم کیا گائیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
أتيناكم أتيناكم . . . فحيونا نحياكم . . . ولولا الحبة السمراء لم تسمن عذا راكم [حسن ۔ تحريم آلات الطرب للألباني ص : 133 ]
”ہم تمہارے پاس آئے ہیں ، ہم تمہارے پاس آئے ہیں ، تم ہمیں سلام کہو ہم تمہیں سلام کہیں گے اور اگر گندمی رنگ کی گندم نہ ہوتی تو تمھاری کنواری لڑکیاں موٹی نہ ہوتیں ۔ ”
پس یہ شعر ضرور ہے ، لیکن دینی شعر نہیں ہے ، البتہ یہ صرف مباح کلام کے ساتھ نفس کو راحت پہنچانا ہے ۔ (محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )
سوال : اکثر نوجوانوں کے درمیان رائج ترانوں کا کیا حکم ہے ، جبکہ وہ ان کا نام ”اسلامی ترانے“ رکھتے ہیں ؟
جواب
اگر یہ ترانے اسلامی مفہوم و معانی پر مشتمل ہوں اور ان کے ساتھ کوئی ساز اور آلات موسیقی نہ ہوں جیسے دف اور طبلے وغیرہ تو ان ترانوں میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
لیکن ان ترانوں کے جواز کی ایک اہم شرط بیان کرنا لازم اور ضروری ہے اور وہ یہ کہ وہ ترانے مخالفات شرعیہ ، جیسے لغو وغیرہ ، سے خالی اور محفوظ ہوں ۔
پھر ان کے لیے ایک اور شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ ان ترانوں کے سماع کو عادت نہ بنایا جائے ، کیونکہ اس کو عادت بنانا سامعین کو قرآن مجید کی تلاوت سے دور کر دے گا حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مطہرہ میں تلاوت قرآن پر برانگیخت کیا گیا ہے ۔ اور ایسے ہی ترانے سننے میں مشغول رہنا ان کو نفع مند علم حاصل کرنے سے اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف دعوت دینے سے دور کر دے گا ۔
رہا ترانوں کے ساتھ دف کا استعمال تو یہ عورتوں کے لیے آپس میں مردوں کے علاوہ جائز ہے اور وہ بھی صرف عید اور نکاح کے موقع پر ۔
( محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ )

بچوں کے دینی ترانے سننے کا حکم
سوال : اس سے پہلے ہم نے آپ جناب سے ترانے سننے کے بارے میں استفسار کیا تھا اور جناب نے جواب دیا تھا کہ بلاشبہ بے حیا اور آوارہ گانے سننا حرام ہے ، لہٰذا اب سوال یہ ہے کہ دینی اور ملی ترانے اور بچوں اور عید میلاد کے ترانے سننے کا کیا حکم ہے ؟ واضح ہو کہ ان ترانوں کے ساتھ ساز و موسیقی چلتی ہے ، خواہ ریڈیو پر ہوں یا ٹیلی ویژن پر ۔
جواب : ساز و موسیقی مطلق حرام ہے ، دینی ترانے ، ملی نغمے اور بچوں کے گیت جب موسیقی کے ساتھ ہوں تو حرام ہیں ، اور عید میلاد تو ویسے ہی بدعت ہے جس میں جانا اور شرکت کرنا حرام ہے ۔
وہ گیت اور ترانے جن کے ساتھ ساز و موسیقی چلے ان کی حر مت کے دلائل میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے :
ليكونن من أمتي قوام يستحلون الحر والجرير والخمر والمعازف . . . [صحيح البخاري ، رقم الحديث 5268 ]
”میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو زنا ، ریشم ، شراب اور آلات لہو ولعب اور موسیقی کو حلال ٹھہرا لیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “
اس کو امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان کیا ہے ۔ اس مضمون کی اور احادیث بھی ثابت ہیں ۔ (سعودی فتوی کمیٹی )

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔