فضائل صیام و قیام رمضان

تحریر: ابوصادق عاشق علی اثری حفظ اللہ

الحمد لله والصلاة والسلام على رسول الله وعلي آله وأصحابه ومن اهتدي بهداه . أما بعد
یہ مختصر سی نصیحت ہے جس میں رمضان کے صیام و قیام اور اس ماہِ مبارک میں اعمال صالحہ میں سبقت کرنے کی فضیلت اور کچھ ایسے احکام کا بیان ہے جن سے بعض لوگ ناواقف ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ صحابۂ کرام رضوا ن اللہ عنہم اجمعین کو ماہِ رمضان کی آمد کی خوش خبری دیتے تھے اور انہیں اس بات کی خبر دیتے تھے کہ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں رحمت اور جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین پابہ زنجیر کر دئیے جاتے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :
إذا كانت أول ليلة من رمضان فتحت أبواب الجنة فلم يغلق منها باب وغلقت أبواب جهنم فلم يفتح منها باب، وصفدت الشياطين، وينادي مناد : يا باغي الخير أقبل ويا باغي الشر أقصر، ولله عتقاء من النار، وذلك كل ليلة . [صحيح : صحيح سنن ترمذي، الصوم باب فضل شهر رمضان 1، رقم 549۔ 685 بروايت ابوهريره رضى الله عنه، صحيح سنن ابن ماجة : الصيام 7 باب ماجاء فى فضل شهر رمضان 2 رقم1331۔ 1642، صحيح الجامع الصغير وزيا دته رقم 759 ]
’’جب رمضان کی پہلی شب ہوتی ہے تو جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں پھر ان میں سے کوئی درواز ہ بند نہیں کیا جاتا۔ اور جہنم کے تمام درواز ے بند کر دئیے جاتے ہیں، پھر ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتا اور شیاطین جکڑ دئیے جاتے ہیں۔ اور ایک فرشتہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اے خیر اور بھلائی کے طالب تو آگے بڑھ اور اے برائی کے خواہش مند تو رک جا۔ اور اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو آتش دوزخ سے آزاد کرتا ہے۔ اور یہ سلسلہ ہر رات جاری رہتا ہے۔ “
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے :
من صام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، ومن قام رمضان إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه، و من قام ليلة القدر إيمانا واحتسابا غفر له ما تقدم من ذنبه [صحيح : صحيح بخاري مع الفتح، فضل ليلةالقدر32 باب فضل ليلة القدر 1، رقم 2014 بروايت ابوهريره رضى الله عنه، اور ’’من قام رمضان“ والا ٹكڑا صلاة التراويح 31 باب فضل من قام رمضان 1، رقم 2009، صحيح مسلم، صلاة المسافرين وقصرها 6 باب الترغيب فى قيام رمضان 25، رقم 173، 174، 175، 759 ]
جس نے رمضان کا صوم ایمان و یقین کے ساتھ، اجر و ثواب حاصل کرنے کی نیت سے رکھا اس کے پچھلے گنا ہ معاف کر دیئے جائیں گے۔ اور جس شخص نے رمضان کا قیام ایمان کے ساتھ طلب ثواب کی نیت سے کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئیے جائیں گے اور جس نے شب قدر کا قیام ایمان کے ساتھ اجر و ثواب کی نیت سے کیا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
كل عمل ابن آدم له، الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعماءة ضعف إلا الصيام فإنه لي و أنا أجزي به، ترك شهوته و طعامه و شرابه من أجلي، للصائم فرحتان : فرحة عند فطره، وفرحة عند لقاء ربه، ولخلوف فم الصائم أطيب عند الله من ريح المسك [صحيح : صحيح بخاري، الصوم 30 باب فضل الصوم 2 رقم 1894 وباب 9 رقم 1904، بروايت ابوهريره رضى الله عنه، صحيح مسلم، الصيام 13 باب فضل الصيام 30 رقم 161، 163، 164، 165، 1151 ]
’’ابن آدم کا ہر عمل اسی کے لئے ہے، نیکی کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے سوائے صوم کے، کیونکہ وہ میرے ہی لئے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، بندہ نے محض میری خاطر اپنی نفسانی خواہشات اور کھانے پینے کی چیزوں کو چھوڑا۔ صائم کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں :
ایک افطار کے وقت اور دوسری اس وقت جب اس کو اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہو گا۔ صائم کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بڑھ کر ہے “۔
رمضان کے صیام و قیام اور مطلق صیام کی فضیلت کے سلسلہ میں حدیثیں بہت ہیں۔ پس مومن کے لئے مناسب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رمضان کا مبارک مہینہ عطا کر کے اس پر جو اپنا فضل و کرم کیا ہے اس کے پیش نظر اس موقع کو غنیمت سمجھے اور اطاعت کے تمام کاموں میں سبقت کرے، اور تما م برائیوں سے بچے، اور اللہ تعالیٰ کے فرائض و واجبات خصوصاً صلواتِ خمسہ کی بجا آوری کی بھر پور کوشش کرے۔ کیونکہ یہ اسلا م کا ستون اور کلمۂ شہادتین کے بعد بہت بڑا اور اہم فریضہ ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان مرد اور عورت پر اس کی محافظت اور اس پر مداومت اور خشوع و خضوع اور سکون و اطمینا ن کے ساتھ وقت پر اس کی ادائیگی واجب اور ضروری ہے اور مردوں کے حق میں صلاۃ کے اہم واجبات میں سے اللہ کے ان گھروں (مسجدوں) میں جماعت کے ساتھ اس کی ادائیگی ہے جن کو بلند کرنے اور ان میں اللہ کا نام ذکر کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے :
وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَارْكَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ [2-البقرة : 43 ]
’’اور صلاۃ قائم کرو اور زکاۃ ادا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ “
نیز فرمایا :
حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى وَقُومُوا لِلَّـهِ قَانِتِينَ [2-البقرة : 238 ]
’’تمام صلوات کی حفاظت کرو خصوصاً درمیان والی صلاۃ کی اور اللہ تعالیٰ کے لئے باادب کھڑے رہا کرو۔ “
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا :
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ٭ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ [23-المؤمنون : 1 ]
’’یقیناًً ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی صلاۃ میں خشوع کر تے ہیں“۔
آگے ارشاد فرمایا :
وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ ٭ أُولَـئِكَ هُمُ الْوَارِثُونَ ٭ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ [23-المؤمنون : 11 ]
’’اور جو لوگ اپنی صلوات کی نگہبانی کرتے ہیں۔ یہی وارث ہیں۔ جو فردوس کے وارث ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے “۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة فمن تركها فقد كفر [صحيح : صحيح سنن ترمذي، أبواب الإيمان باب ترك الصلاة 9 رقم 2113۔ 2769 بروايت بريدة رضى الله عنه، صحيح سنن نسائي، الصلاة 5 باب الحكم فى تا رك الصلاة 8 رقم 449، صحيح سنن ابن ماجه، إقامة الصلاة والسنة فيها 5 باب ما جاء فيمن ترك الصلاة 77 رقم 884۔ 1079، صحيح الجامع، رقم 4143، صحيح الترغيب، الصلاة 5 باب الترهيب من ترك الصلاة تعمداً رقم 561 ]
’’ہمارے اور ان کے درمیان فرق کرنے والی چیز صلاۃ ہے۔ لہٰذا جس نے صلاۃ چھوڑ دی وہ کافر ہو گیا“۔
اور صلاۃ کے بعد اہم فریضہ زکاۃ کی ادائیگی ہے جیسا کہ اللہ عزوجل نے ارشا د فرمایا ہے :
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّـهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ [98-البينة : 5 ]
’’اور انہیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا گیا کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اسی کے لئے دین کو خالص رکھیں۔ ابراہیم حنیف کے دین پر، اور صلاۃ کو قائم رکھیں اور زکاۃ دیتے رہیں۔ یہی ہے دین سیدھی ملت کا“۔
کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال کی زکاۃ نہیں اد اکرے گا وہ قیامت کے دن عذاب سے دوچار ہو گا۔
صلاۃ و زکاۃ کے بعد اہم ترین چیزصومِ رمضان ہے جو اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
بني الاسلا م علٰي خمس شها دة أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وإقا م الصلوٰة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وحج البيت [صحيح : صحيح بخاري، الإيمان 2 باب دعاؤكم إيما نكم 2 رقم 8 بروايت ابن عمر رضي الله عنهما، صحيح مسلم، الإيما ن 1، باب بيان أركا ن الإسلام ودعائمه العظام 5 رقم 19، 20، 21، 22، 16 ]
’’اسلام کی بنیا د پانچ چیزوں پر ہے (1) اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے اور یقیناًً محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں (2) صلاۃ قائم کرنا (3) زکاۃ ادا کرنا (4) ماہِ رمضان کے صوم رکھنا (5) اور بیت اللہ کا حج کرنا“۔
مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے صیام کو اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ اقوال اور افعال سے محفوظ رکھے۔ اس لئے کہ صیام کا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کا مطیع ہو، اس کے محرّمات کی تعظیم کرے، اپنے مولیٰ کی اطاعت میں خواہشات نفسانی کی مخالفت کر کے اپنے نفس سے جہا د کرے، اور اسے اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے رکنے کا عادی بنائے۔ صوم کا مقصد صرف کھانے، پینے اور صوم کو توڑنے والی دوسر ی چیزوں کو ترک کرنا نہیں ہے۔ چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :
الصيام جنة، فإذا كا ن يوم صوم أحدكم فلا يرفث ولايصخب، فإن سابه أحد أو قاتله فليقل إني صائم [صحيح : صحيح بخاري، الصوم 30 باب هل يقول إني صائم إذا شتم 9 رقم 1904 بروايت أبوهريره رضى الله عنه، صحيح مسلم، الصيام13 باب فضل الصيام 30 رقم 163، 1151 ]
’’ صوم برے کاموں اور عذابِ الٰہی سے بچاؤ اور ڈھا ل ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کسی کے صوم کا دن ہو تو وہ شہوانی باتیں اور شور و غل نہ کرے اور اگر کوئی اس سے گالی گلوج یا لڑائی جھگڑا کرے تو اسے یہ کہہ کر ٹال دینا چاہئے کہ میں صوم سے ہوں“۔
اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :
من لم يدع قول الزور والعمل به والجهل فليس للٰه حاجة فى أن يدع طعامه وشرابه [صحيح : صحيح بخاري، الأدب78 باب قول الله تعالىٰ واجتنبوا قول الزور 51 رقم 6057 بروايت أبو هر يره رضي الله عنه ]
’’ جس شخص نے جھوٹی بات اور اس پر عمل کرنا اور جہالت کا کام نہیں چھوڑا تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا اور پانی ترک کرے “۔
مذکورۂ بالا اور ان جیسے دوسرے نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ صائم پر اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ تما م چیزوں سے بچنا اور اس کی واجب کردہ ساری چیزوں کی حفاظت کرنا لازم اور ضروری ہے۔ اسی سے اس کی مغفرت، جہنم سے آزادی اور صیام و قیام کی قبولیت کی امید کی جا سکتی ہے۔

 

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply