عقیقہ نہ کرنے والے کا حکم

تحریر: فتویٰ علمائے حرمین

سوال : مالدار لوگوں میں سے ایک کے سات بچے ہیں ، اس نے ان میں سے دو کا عقیقہ کیا ہے اور باقیوں کا عقیقہ نہیں کیا تو کیا اگر وہ باقی بچوں کا عقیقہ کرتا ہے تو اس کو ثواب ہوگا اور اگر وہ ان کا عقیقہ نہیں کرتا تو وہ گنہگار ہوگا ؟
جواب : مذکر اور مؤنث بچے کی طرف سے عقیقہ کرنا مستحب ہے ، اس کی دلیل وہ حدیث ہے جس کو عبد الرزاق رحمہ اللہ نے ’’ مصنف“ میں عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ کی سند سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیقہ کی مشروعیت کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا أحب العقوق [حسن ، مصنف عبد الرزاق 330/4 ]
” میں ’’ عقوق“ کو (بمعنی نافرمانی) پسند نہیں کرتا ۔“
گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نام کو ناپسند کیا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم میں سے کوئی اپنے بچے کے عقیقے کا جانور ذبح کرنا چاہتا ہے ( تو اس کا کیا حکم ہے ؟ ) تو آپ نے فرمایا :
من أحب منكم أن ينسك عن ولده فليفعل عن الغلام شأتان وعن الجارية شاة [ صحيح سنن النسائي ، رقم الحدبث 4212 ]
”جو تم میں سے اپنے بچے کے عقیقے کا جانور ذبح کرنا چاہتا ہے تو وہ بچے کی طرف سے دو اور بچی کی طرف سے ایک بکری ذبح کرے ۔ “
یہ استحباب بھی صرف باپ کے حق میں ہے کیونکہ حدیث میں اس کو مخاطب کیا گیا ہے ، لہٰذا بچے کے حق میں عقیقہ باپ کے علاوہ کسی کی طرف سے مستحب نہیں ہے ۔ (محمد بن ابراہیم آل شیخ رحمہ اللہ )

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔