ناگہانی نقصانات کی تلافی

تحریر : فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار الحماد حفظ اللہ

أَرَأَيْتَ إِذَا مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ بِمَ يَأْخُذُ أَحَدُكُمْ مَالَ أَخِيهِ

” تم بتاؤ اگر اللہ تعالیٰ پھل کو ضائع کر دے تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کا مال کس چیز کے عوض لے گا ؟“ [صحيح بخاري/البيوع : 2198]
فوائد :

ایک آدمی نے کسی سے باغ خریدا، پھر اس پر کوئی ناگہانی آفت مثلاً سیلاب، آندھی، بارش اور ژالہ باری ہو گئی، جس سے پھل ضائع ہو گیا تو باغ کے مالک کو چاہئے کہ خریدار سے نرمی کرتے ہوئے اس کی قیمت وصول نہ کرے، اگر کر لی ہے تو واپس کر دے کیونکہ اگر یہ پھل مالک کے ہاں آسمانی آفت یا زمینی سیلاب سے ضائع ہو جاتا تو پھر بھی اسے برداشت کرنا ہی پڑتا۔ لہٰذا اس صورت میں بھی اسے برداشت کرنا چاہئے، اگر وہ خریدار سے پھل کی قیمت وصول کرتا ہے تو یہ ناحق اور ناجائز ہے۔ ایک دوسری حدیث میں اس کے متعلق مزید وضاحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

”جو شخص پھل فروخت کرے پھر خریدار کے ہاں اس کو کوئی آفت پہنچ جائے اور وہ پھل ضائع ہو جائے تو وہ اپنے بھائی سے اس کی قیمت نہ لے، آخر کس بنا پر اپنے بھائی کا مال کھائے گا۔ “ [صحيح مسلم/المساقاة : 1554]
اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ ناگہانی آفات کا نقصان معاف کرنا ضروری ہے لیکن کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ طے شدہ سودے سے دستبردار ہونے کے لئے کسی پر دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا۔ لہٰذا بہتر ہے کہ نقصان کی تلافی کر دی جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ ناگہانی آفت کی نوعیت کو دیکھا جائے، اگر مجموعی طور پر ایک تہائی سے کم نقصان ہوا ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہو گا اور اگر نقصان ایک تہائی سے زیادہ ہے تو اس کی تلافی کر دی جائے جو فروخت کنندہ کے ذمے ہے لیکن مذکورہ حدیث اس موقف کے خلاف ہے۔ نیز حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناگہانی آفات سے پہنچنے والے نقصانات کی تلافی کا حکم دیا ہے۔ [نسائي/البيوع : 4533]

اس تحریر کو اب تک 7 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply