شب زفاف (سہاگ رات) کے ضابطے

خاوند کی وفات کے بعد شادی نہ کرنے کا حکم
سوال: کیا بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے پہلے خاوند کی وفات کے بعد شادی نہ کرے؟ یا آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کو حکم دے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی بیوی کسی مرد سے شادی نہیں کرے گی؟
جواب: عورت کے لیے اپنے خاوند کی وفات کے بعد شادی کرنے سے رکنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بیویوں کے ساتھ خاص ہے۔ اور نہ ہی خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو شادی کرنے سے روکے، اور نہ ہی بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اس بات میں اپنے خاوند کی اطاعت کرے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إنما الطاعة فى المعروف» [صحيح البخاري، رقم الحديث 6726 صحيح مسلم، رقم الحديث 180]
’’ (مخلوق کی) اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہے (معصیت میں مخلوق کی اطاعت واجب نہیں)“ (سعودی فتوی کمیٹی)
——————

خاوند کی اطاعت کو والدین کی اطاعت پر مقدم کرنا
سوال: یہ بات معلوم ہے کہ حدیث کے مطابق بیوی اپنے خاوند کی اطاعت کرنے کی پابند ہے، اور نیز اس کو اللہ کی نافرمانی کے علاوہ اپنے والدین کی اطاعت کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے، جب ان دونوں اطاعتوں میں تعارض ہو جائے تو کوئی اطاعت مقدم ہوگی؟
جواب: بلاشبہ عورت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کی پابند ہے اور اللہ ہی کی اطاعت میں اس کو اپنے خاوند اور اپنے والدین کی اطاعت کرنے کا بھی
حکم ہے، مگر جب مخلوق میں سے مثلاً باپ یا خاوند کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو اس کی اطاعت جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إنما الطاعة فى المعروف» [صحيح البخاري، رقم الحديث 6726 صحيح مسلم، رقم الحديث 1840]
”(مخلوق کی) اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہے (معصیت میں مخلوق کی اطاعت واجب نہیں)۔“
اور نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق» [صحيح۔ مسند أحمد، رقم الحديث 1095]
”خالق کی نافرمانی کر کے مخلوق کی اطاعت کرنا جائز نہیں۔“
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کا حق مقدم ہے اور اللہ عز وجل کے حق کے بعد والدین کے حق کا ہی درجہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا» [4-النساء: 136]
”اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو“
اور چونکہ والدین کا حق تاکیدی حق ہے، لہٰذا جب خاوند اپنی بیوی کو والدین کی معصیت اور نافرمانی پر مجبور کرے تو بیوی اس میں اپنے خاوند کی اطاعت نہیں کرے گی، کیونکہ والدین کا حق خاوند کے حق سے مقدم ہے، پس جب خاوند بیوی سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اپنے والدین کی نافرمانی کرے تو بیوی اس میں اپنے خاوند کی اطاعت نہ کرے، کیونکہ والدین کی نافرمانی معصیت ہے اور شرک کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے بڑا گناہ ہے۔
[صالح بن فوزان بن عبدالله عليه السلام]
——————

حصول علم اور گھریلو ذمہ داری میں موافقت پیدا کرنا
سوال: ایک طالبہ ہے جو مسجد میں علم حاصل کرتی ہے، گھر واپس لوٹنے پر حاصل کیے ہوئے علم کا مراجعہ کرنا اور اس کو دہرانا ضروری ہوتا ہے، اس کام کے لیے کافی سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی اس کے منتظر ہیں اور اپنی ماں کا ہاتھ پٹانا بھی لازمی اور ضروری ہے، گھر کا کام کاج کرنے میں اس کا سارا وقت صرف ہو جاتا ہے، جبکہ طلب علم مکمل فراغت کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اگر وہ کام کا ج کرے تو زیادہ علم حاصل نہیں کر پائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر کے کام اور طلب علم کے لیے فراغت میں کیسے موافقت پیدا کرے؟
جواب: : اگر وہ طلب علم کے لیے دنیاوی کاموں سے چھٹکارا پا سکتی ہے تو وہ ضرور ایسا کرے، اور میں اس کو یہی نصیحت کرتا ہوں۔ اور اگر وہ کلی طور پر چھٹکارا نہیں حاصل کر پائی تو وہ اپنے وقت کو یوں منظم کرے کہ وقت کا زیادہ حصہ طلب علم کے لیے اور کچھ وقت دنیاوی کاموں کے لیے مختص کر لے، کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا جب تک دنیا علم کے تابع نہ ہو، لیکن جب علم دنیا کے تابع ہو تو علم نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ واللہ المستعان
[مقبل بن ہادي الوادعی رحمہ اللہ]
——————

بیوی کا اپنے خاوند کو نیکی کا حکم دینا
سوال: جب عورت ادائیگی نماز میں سستی کرنے والے اپنے خاوند کو وعظ و نصیحت کرے تو کیا وہ گناہ گار ہوگی جبکہ اس کا خاوند اس نصیحت پر ناراضگی کا اظہار بھی کرتا ہو، اور عورت کو یہ بھی معلوم ہو کہ خاوند کو اس پر زیادہ حق حاصل ہے؟
جواب: عورت نماز میں سستی کرنے والے اپنے خاوند کو نصیحت کرنے میں گنہگار نہیں ہوگی، بلکہ اس کو اس کام کا اجر و ثواب ملے گا مگر ضروری ہے کہ یہ وعظ و نصیحت نرمی اور حسن اسلو ب کے ساتھ ہو۔ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)
——————

کیا عورت کا اپنے خاوند کو جواب دینا معصیت ہے؟
سوال: بیوی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہے اور اپنے خاوند کی بھی فرمانبردار ہے۔ لیکن اس کا خاوند معمولی بات پر غصب ناک ہو کر لعن طعن کرتا ہے اور فخش گوئی کرتا ہے، مگر اس کی بیوی اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرتی ہے، لیکن اگر یہ عورت اپنے خاوند کو ملامت کرتے ہوئے اور مذکورہ افعال سے روکتے ہوئے اس کو جواب دیتی ہے تو کیا یہ عورت خاوند کی نافرمان شمار ہو گی؟ بعض اوقات خاوند کو جواب دیتے ہوئے اس کی آواز بھی بلند ہو جاتی ہے؟
جواب: وہ نافرمان شمار نہیں ہو گی، لیکن ہم اس عورت کو صبر کرنے کی ہی نصیحت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «خيركم خيركم لأهله» [صحيح سنن الترمذي، رقم الحديث 3895]
”تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں تم میں سے اچھا ہے۔“
اور بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«استو صوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع، وإن أعوج ما فى الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل به عوجه» [صحيح البخاري، رقم الحديث 4890 صحيح مسلم، رقم الحديث 1468]
”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، بلاشبہ وہ پسلی سے پیداکی گئی ہیں اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑ ھا حصہ اوپر والا حصہ ہے، اگر تم اس کو سیدھا کرو گے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر تم اس کو چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی نہیں رہے گی۔“
اللہ عزوجل اپنی کتاب کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
«وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [4-النساء: 19]
”ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔“
نیز فرماتے ہیں:۔
«فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا» [4-النساء: 34]
”پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔“
لہٰذا خاوند پر واجب ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرے اور اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، جیسا کہ وہ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اور ہم اس عورت کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ صبر کا مظاہرہ کرے کیونکہ صبر کرنا ہی بہتر ہے، اور اپنے خاوند کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ واللہ المستعان
[مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله]
——————

لڑکے کا لڑکی کو منگنی کا تحفہ دیتے ہوئے اس کو زیورات پہنانے کے لیے محفل منعقد کرنے کا حکم
سوال: کیا حکم ہے اس مجلس کا جس کو بعض لوگ ”منگنی کا تحفہ دینے کی محفل“ کا نام دے کر منعقد کرتے ہیں جس میں خاطب (منگنی کرنے والے لڑکے) اور مخطوبہ (جس لڑکی سے منگنی کی جا رہی ہے) کی ملاقات ہوتی ہے اور پیغام نکاح دینے والا لڑکا لڑکی کو منگنی کا ہار یا کنگن پہناتا ہے جو اس نے لڑکی کے لیے تیار کروا رکھا ہوتا ہے، اور یہ سب کچھ اس عقد سے پہلے ہوتا ہے جس عقد کے بعد ان کا آپس میں ملنا جائز ہو جاتا ہے؟
جواب: یہ بات تو معلوم و مشہور ہے کہ مخطوبہ عقد نکاح مکمل ہونے سے پہلے اجنبی عورت ہی ہوتی ہے اور اس کے لیے خاطب کے ساتھ میل ملاقات رکھنا جائز نہیں ہے۔ سائل نے جس محفل منگنی کا ذکر کیا ہے سو وہ محفل حرام ہے اس کا منعقد کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس سے گریز کرتے ہوئے بچنا چاہیے۔ لیکن جب مرد اور عورت کے درمیان عقد نکاح مکمل ہو جائے تو اب ہر لحاظ سے وہ اس کی بیوی ہے، اب وہ تمام کام کر سکتا ہے جس کاسائل نے ذکر کیا ہے، یعنی اس کے پاس جا سکتا ہے اس کو زیور ات وغیرہ پہنانا چاہے پہنا سکتا ہے، اور اس سے خلوت و تنہائی بھی اختیار کر سکتا ہے۔
[فتاوي علماء البلد الحرام ص: 631]
——————

شب زفاف (سہاگ رات) کے ضابطے
سوال: خوشی کی رات (شب زفاف) بیوی کے پاس جانے کا سنت طریقہ کیا ہے؟ کیونکہ بہت سے لوگوں پر یہ امر مشتبہ ہے، اور آج کل اکثر لوگوں میں یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ اس موقع پر سورت بقرہ پڑھتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں؟
جواب: جب آدمی اپنی بیوی کے پاس پہلی مرتبہ جائے تو وہ اس کی پیشانی پکڑ کر یہ دعا پڑھے:
«اللهم إني أسألك خيرها وخير ما جبلتها عليه وأعوذيك من شرها و شر ما جبلتها عليه» [حسن سنن أبى داود، رقم الحديث 2160]
اے اللہ ! میں تجھے اس (عورت) کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور جس طبیعت پر تو نے اس کو پیدا کیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور جس طبیعت پر تو نے اس کو پیداکیا ہے اس کے شر سے۔“
اور اگر اسے ڈر ہو کہ جب وہ اس کی پیشانی پکڑ کر یہ دعا پڑھے گا تو وہ پریشان ہو جائے گی تو اگر مکن ہو تو وہ اس انداز میں اس کی پیشانی کو پکڑ لے گویا کہ یہ اس کو بوسہ دینے لگا ہے اور اس کو ستائے بغیر دل میں یہ دعا پڑھ لے، پس وہ اپنی زبان سے تو اس دعا کو پڑھے لیکن اس طرح کہ اس کی بیوی کو سنائی نہ دے تاکہ کہیں وہ پریشان نہ ہو جائے۔ اور اگر اس کی بیوی طالبہ ہو تو واضح طور پر اس کی پیشانی پکڑ کر اس کو یہ دعا سنا کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رہا دلہن کے حجرہ عروسی میں داخل ہونے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرنا تو بعض سلف سے یہ مروی ہے کہ وہ ایسے کیا کرتے تھے، لہٰذا کوئی شخص نماز پڑھ لے تو اچھا ہے اگر نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے (کیونکہ یہ کوئی مسنون عمل نہیں ہے۔ مترجم) جہاں تک سورۃ بقرہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت کا تعلق ہے تو مجھے اس کی کوئی دلیل معلوم نہیں ہے۔

[محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ]
——————

غیر شرعی شادیوں میں شرکت کرنے کا حکم
سوال: غیر شرعی محفلوں اور شادیوں میں دعوت الی اللہ کی نیت سے شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر تو ان محفلوں میں شرکت کرنے والا منکرات کو روکنے کی طاقت رکھتا ہے تو اس کی شرکت ایک مستحسن عمل ہے۔ بخاری و مسلم میں عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ عنہا کی روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معنی میں موجود ہے:
«و من لم يجب فقد عصى الله و رسوله» [صحيح مسلم، رقم الحديث 1432]
”جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
لہٰذا ولیمے یا عقیقہ وغیرہ کی دعوت کو قبول کرنا واجب ہے، لیکن اگر بندہ مؤمن کو یہ ڈر ہو کہ اس محفل میں منکرات ہوں گی اور وہ ان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس مجلس سے دور رہے۔ لیکن اگر وہ وعظ و نصیحت کے ذریعہ منکرات کو روک سکتا ہو تو اس کا شرکت کرنا ایک اچھا عمل ہوگا۔ واللہ المستعان
[مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله]
——————

بیوی سے لطف اندوز ہونے کی حدود
سوال: خاوند کے اپنی بیوی کے تمام بدن سے لطف اندوز ہونے کی حدود میں کیا ضابطہ ہے؟
جواب: اس میں ضابطہ یہ ہے کہ وہ عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع نہیں کرے اور نہ ہی حالت حیض و نفاس اور جماع سے تکلیف محسوس کرنے کی حالت میں اس کی قبل (اگلی شرمگاہ) میں جماع کرے، بس یہی ضابطہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» [23-المؤمنون: 5]
اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔“
[محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ]
——————

میاں بیوی کی آپس میں دل لگی کر نے کی حدود
سوال: آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان دل لگی و لطف اندوزی کرنے کی کیا حدود ہیں؟
جواب اللہ عز وجل فرماتے ہیں:
«وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ» [23-المؤمنون: 5]
”اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔“
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کر دیا کہ مرد کو اپنی بیوی پر شرمگاہ کی عدم حفاظت پر ملامت نہیں کی جائے گی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حالت حیض میں مرد کے اپنی بیوی سے لطف اندوز ہونے کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
«اصنعوا كل شيء إلا النكا ح» [صحيح مسلم، رقم الحديث 302]
تم (لطف اندوز ہونے کے لیے اپنی بیویوں سے حالت حیض میں) جماع کے علاوہ سب کچھ کر لو۔“
لہذا میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لیے دوسرے سے من مانے طریقے کے مطابق لطف اندوز ہونے کی ا جازت ہے، ماسوائے حالت حیض کے۔
چنانچہ مرد کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اس وقت مجامعت کرے جب وہ حالت حیض میں ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ» [2-البقرة: 222]
”اور تجھ سے حیض سے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاو، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے، بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت تو بہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔“
مگر اس کے با وجود حالت حیض میں شرمگاہ میں مجامعت کرنے کے علاوہ اپنی بیوی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ نیز مرد کے لیے نفاس کی حالت میں بھی بیوی سے مجامعت کرنا حلال نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ» [2-البقرة: 223]
تمھاری عورتیں تمہارے لیے کھیتی ہیں، سو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آو۔“
اور کھیتی کی جگہ صرف اور صرف فرج یعنی عورت کی اگلی شر مگاہ ہے۔
[محمد بن صالح العثيمين رحمه الله]
——————

جماع کے آداب
سوال: میان بیوی کے درمیان جماع کے کیا آداب اور حدود ہیں، اور کیا مکر وہ اور کیا حرام ہے اور کیا افضل اور کس میں اختلاف ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لو أن أحدكم إذا أتى أهله قال: بسم الله، اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قدر بينهما فى ذلك ولد لن يضر ذلك الولد الشيطان أبدا» [صحيح البخاري، رقم الحديث 141 صحيح مسلم، رقم الحديث 1434]
اگر بے شک تم میں سے کوئی جب اپنے اہل (بیوی) کے پاس (بغرض مجامعت) آئے اور پڑھے: اے اللہ ! ہم کو شیطان سے محفوظ فرما اور (اس جماع کے نتیجے میں) جو (اولاد کا) رزق تو ہمیں عطا کرے اس کو بھی شیطان سے محفوظ فرما، اگر ان کے اس جماع کے نتیجے میں بچہ ان کے مقدر میں کیا گیا تو اس بچے کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“ [بخاري: 45/441]
اور مرد پر حرام ہے کہ وہ حالت حیض و نفاس میں اپنی بیوی سے مجامعت کرے، نیز اس پر دبر (پچھلی شر مگاہ) میں بھی مجامعت کرنا حرام ہے۔ اور ہم میں وصیت کرتے ہیں کہ علامہ ابن القیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد“ میں اس موضوع پر جو بیان کیا ہے اس کو پڑھو، ان شاء اللہ تم اس مسئلہ کی مکمل تفصیل اس میں پالو گے۔ [سعودي فتویي کميٹی]
——————

دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا
سوال: دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنے کاکیا حکم ہے؟ کیا ایسا کرنے والے پر کوئی کفارہ لازم ہو گا؟
جواب: عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے اور بدترین نافرمانیوں میں سے ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ملعون من أتي امرأته فى دبرها» [حسن سسنن أبى داود، رقم الحديشه 2162]
”جس شخص نے اپنی بیوی کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں وطی کی اس پر لعنت کی گئی ہے۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا ينظر الله إلى رجل أتى رجلا أو امرأة فى دبرها»
[صحيح۔ صحيح الترغيب والترهيب 3122]
”جس شخص نے کسی مرد یا عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں وطی کی اللہ تعالیٰ اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔“
اور جس شخص نے یہ کام کیا اس پر واجب ہے کہ وہ جلدی سے سچی توبہ کرے، یعنی اس گناہ سے رک جائے اور اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے اور اس کی سزا سے ڈرتے ہوئے اس گناہ کو ترک کر دے۔ اس سے جو یہ گناہ سرزد ہوا ہے اس پر نادم رہے اور عزم بالجزم کرے کہ وہ آئندہ کبھی بھی اس گناہ کی طرف نہیں پلٹے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اعمال صالحہ بجا لانے میں کوشش کرے۔ جو شخص سچی توبہ کر لیتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
«وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ» [20-طه: 82]
”اور بے شک میں یقیناً اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو تو بہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔“
نیز اللہ عزوجل نے فرمایا:
«وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا» [25-الفرقان: 68]
”اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔“
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الإسلام يهدم ما كان قبله، و الهجرة تهدم ما كان قبلها»
[و صحيح مسلم، رقم الحديث: 121]
”اسلام ماقبل کے گناہ مٹا دیتا ہے اور ہجرت بھی ما قبل سے گناہ مٹا دیتی ہے“۔
اس موضوع پر کافی زیادہ آیات و احادیث موجود ہیں۔ نیز علماء کے دو قولوں میں سے صحیح قول کے مطابق دبر (پچھلی شرمگاہ) میں وطی کرنے والے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے بلکہ وہ ان کے نکاح میں رہتی ہے۔
اور عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کبیرہ گناہ کے ارتکا ب میں اپنے خاوند کی اطاعت کرے، بلکہ اس کے لیے اس سے باز رہنا واجب ہے اور وہ اس سے مطالبہ کرے کہ اگر وہ اس گناہ سے تو بہ کر کے باز نہیں آئے گا تو وہ اس سے اپنا نکاح فسخ کروا لے گی، ہم اللہ تعالیٰ سے اس عمل بد سے عافیت کاسوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)
——————

سوال: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس شخص کے حکم میں کئی روایات پیش کی ہیں جو اپنی بیوی سے غیر مألوف راستے (پچھلی شرمگاہ)میں مجامعت کرتا ہے، ان روایات کی تمام سندیں اور ان پر ائمہ کا کلام بھی پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام سندوں پر ائمہ نے کلام کیا ہے، امام بخاری و نسائی وغیرہ نے کہا ہے اس موضوع پر کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن عمر، نافع اور مالک رضی اللہ عنہم وغیرہ سے وطی دبر کی اباحت کو بھی نقل کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا میلان اسی طرف ہے کہ ان تمام طرق کی وجہ سے بھی دبر کی ممانعت کو ہی تقویت حاصل ہے، پس ان ائمہ کو اس مسئلہ میں کسی بھی ثبوت کے نہ ہونے کا قول تسلیم کیوں نہیں ہے؟
جواب: ان ائمہ کے نزدیک یہ قول قابل قبول نہیں ہے اس لیے کہ یہ ائمہ اس مسئلہ پر وارد الگ الگ روایات پر کلام کرتے ہیں، رہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، پس ان کے امیر المؤمنین فی الحدیث ہونے کے اعتبار سے ہمیں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، سو وہ اس مسئلہ پر تمام احادیث اور ان کی سندوں کو جمع کرتے ہیں اور ان پر تحقیق کرتے ہوئے ان پر علم حدیث کے قواعد کا انطباق کرتے ہیں، پس ایسا کرنے کے بعد ان کے سامنے یہ بات واضح ہوئی کہ ان احادیث کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ اس مسئلہ پر کوئی حدیث ثابت نہیں ہے، بہت بڑی غلطی ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے
کہ یہ احادیث فردا فردا ثابت نہیں ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ احادیث اس آیت «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» میں عورت سے غیر معروف راستے (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنے کی مذکور حر مت کو تقویت دیتی ہیں، ایسے ہی یہ احادیث اس آیت کی تفسیر کرتی ہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کیا مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی سے جیسے چاہے مجامعت کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نعم، ولكن فى صمام واحد»
[صحيح مسلم، رقم الحديث 1435]
”ہاں (جائز ہے، لیکن مجامعت) ایک ہی سور اخ (یعنی عورت کی اگلی ش مگاہ) میں کرے۔“ [محمد ناصر الدين الالباني رحمه الله]
——————

سوال: کیا حائضہ عورت سے مجامعت کرنے اور عورت کے غیر معروف راستے (بچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنے کا حکم برابر ہے۔ اس اعتبار سے کہ دونوں کبیرہ گناہ ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت کے غیر معروف راستے میں مجامعت کرنا اختلافی مسئلہ ہے اور ہے بھی کبیرہ گناہوں میں سے، جبکہ اس کی حر مت کے دلائل بھی کمزور ہیں؟
جواب: میں تو اس میں کوئی شک نہیں کرتاکہ بلاشبہ عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
رہا اس کے دلائل کا کمزور ہوناب سو وہ ان کی سندوں کے بعض مفردات کے اعتبار سے ہے، و گرنہ تو نبی علیہ السلام سے عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنے کی ممانعت ثابت ہے۔ نیز اس مسئلہ پر وارد کئی حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کرنے والے پر لعنت کرنا بھی ثابت ہے، میں نے ان میں سے کچھ احادیث اپنی کتاب ”آداب الزفاف فی السنۃ المطہرۃ“ میں بیان کی ہیں۔
[محمد ناصر الدين الالباني رحمه الله]
——————

 

 

خاوند کی وفات کے بعد شادی نہ کرنے کا حکم
سوال: کیا بیوی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے پہلے خاوند کی وفات کے بعد شادی نہ کرے؟ یا آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی کو حکم دے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے پہلے فوت ہو جائے تو اس کی بیوی کسی مرد سے شادی نہیں کرے گی؟
جواب: عورت کے لیے اپنے خاوند کی وفات کے بعد شادی کرنے سے رکنا جائز نہیں ہے، کیونکہ ایسا کرنا صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بیویوں کے ساتھ خاص ہے۔ اور نہ ہی خاوند کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی وفات کے بعد اپنی بیوی کو شادی کرنے سے روکے، اور نہ ہی بیوی کے لیے لازم ہے کہ وہ اس بات میں اپنے خاوند کی اطاعت کرے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إنما الطاعة فى المعروف» [صحيح البخاري، رقم الحديث 6726 صحيح مسلم، رقم الحديث 180]
’’ (مخلوق کی) اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہے (معصیت میں مخلوق کی اطاعت واجب نہیں)“ (سعودی فتوی کمیٹی)
——————

خاوند کی اطاعت کو والدین کی اطاعت پر مقدم کرنا
سوال: یہ بات معلوم ہے کہ حدیث کے مطابق بیوی اپنے خاوند کی اطاعت کرنے کی پابند ہے، اور نیز اس کو اللہ کی نافرمانی کے علاوہ اپنے والدین کی اطاعت کرنے کا بھی حکم دیا گیا ہے، جب ان دونوں اطاعتوں میں تعارض ہو جائے تو کوئی اطاعت مقدم ہوگی؟
جواب: بلاشبہ عورت اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی اطاعت کی پابند ہے اور اللہ ہی کی اطاعت میں اس کو اپنے خاوند اور اپنے والدین کی اطاعت کرنے کا بھی
حکم ہے، مگر جب مخلوق میں سے مثلاً باپ یا خاوند کی اطاعت میں خالق کی نافرمانی ہوتی ہو تو اس کی اطاعت جائز نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إنما الطاعة فى المعروف» [صحيح البخاري، رقم الحديث 6726 صحيح مسلم، رقم الحديث 1840]
”(مخلوق کی) اطاعت صرف معروف اور بھلائی میں ہے (معصیت میں مخلوق کی اطاعت واجب نہیں)۔“
اور نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
«لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق» [صحيح۔ مسند أحمد، رقم الحديث 1095]
”خالق کی نافرمانی کر کے مخلوق کی اطاعت کرنا جائز نہیں۔“
اور اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کا حق مقدم ہے اور اللہ عز وجل کے حق کے بعد والدین کے حق کا ہی درجہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا» [4-النساء: 136]
”اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو“
اور چونکہ والدین کا حق تاکیدی حق ہے، لہٰذا جب خاوند اپنی بیوی کو والدین کی معصیت اور نافرمانی پر مجبور کرے تو بیوی اس میں اپنے خاوند کی اطاعت نہیں کرے گی، کیونکہ والدین کا حق خاوند کے حق سے مقدم ہے، پس جب خاوند بیوی سے یہ مطالبہ کرے کہ وہ اپنے والدین کی نافرمانی کرے تو بیوی اس میں اپنے خاوند کی اطاعت نہ کرے، کیونکہ والدین کی نافرمانی معصیت ہے اور شرک کے بعد کبیرہ گناہوں میں سے بڑا گناہ ہے۔
[صالح بن فوزان بن عبدالله عليه السلام]
——————

حصول علم اور گھریلو ذمہ داری میں موافقت پیدا کرنا
سوال: ایک طالبہ ہے جو مسجد میں علم حاصل کرتی ہے، گھر واپس لوٹنے پر حاصل کیے ہوئے علم کا مراجعہ کرنا اور اس کو دہرانا ضروری ہوتا ہے، اس کام کے لیے کافی سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے لیکن وہ یہ بھی جانتی ہے کہ گھر کے کام کاج بھی اس کے منتظر ہیں اور اپنی ماں کا ہاتھ پٹانا بھی لازمی اور ضروری ہے، گھر کا کام کاج کرنے میں اس کا سارا وقت صرف ہو جاتا ہے، جبکہ طلب علم مکمل فراغت کا تقاضا کرتا ہے، لہٰذا اگر وہ کام کا ج کرے تو زیادہ علم حاصل نہیں کر پائے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ وہ گھر کے کام اور طلب علم کے لیے فراغت میں کیسے موافقت پیدا کرے؟
جواب: : اگر وہ طلب علم کے لیے دنیاوی کاموں سے چھٹکارا پا سکتی ہے تو وہ ضرور ایسا کرے، اور میں اس کو یہی نصیحت کرتا ہوں۔ اور اگر وہ کلی طور پر چھٹکارا نہیں حاصل کر پائی تو وہ اپنے وقت کو یوں منظم کرے کہ وقت کا زیادہ حصہ طلب علم کے لیے اور کچھ وقت دنیاوی کاموں کے لیے مختص کر لے، کیونکہ کوئی شخص اس وقت تک علم حاصل نہیں کر سکتا جب تک دنیا علم کے تابع نہ ہو، لیکن جب علم دنیا کے تابع ہو تو علم نہیں حاصل کیا جا سکتا۔ واللہ المستعان
[مقبل بن ہادي الوادعی رحمہ اللہ]
——————

بیوی کا اپنے خاوند کو نیکی کا حکم دینا
سوال: جب عورت ادائیگی نماز میں سستی کرنے والے اپنے خاوند کو وعظ و نصیحت کرے تو کیا وہ گناہ گار ہوگی جبکہ اس کا خاوند اس نصیحت پر ناراضگی کا اظہار بھی کرتا ہو، اور عورت کو یہ بھی معلوم ہو کہ خاوند کو اس پر زیادہ حق حاصل ہے؟
جواب: عورت نماز میں سستی کرنے والے اپنے خاوند کو نصیحت کرنے میں گنہگار نہیں ہوگی، بلکہ اس کو اس کام کا اجر و ثواب ملے گا مگر ضروری ہے کہ یہ وعظ و نصیحت نرمی اور حسن اسلو ب کے ساتھ ہو۔ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)
——————

کیا عورت کا اپنے خاوند کو جواب دینا معصیت ہے؟
سوال: بیوی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتی ہے اور اپنے خاوند کی بھی فرمانبردار ہے۔ لیکن اس کا خاوند معمولی بات پر غصب ناک ہو کر لعن طعن کرتا ہے اور فخش گوئی کرتا ہے، مگر اس کی بیوی اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے خاموشی اختیار کرتی ہے، لیکن اگر یہ عورت اپنے خاوند کو ملامت کرتے ہوئے اور مذکورہ افعال سے روکتے ہوئے اس کو جواب دیتی ہے تو کیا یہ عورت خاوند کی نافرمان شمار ہو گی؟ بعض اوقات خاوند کو جواب دیتے ہوئے اس کی آواز بھی بلند ہو جاتی ہے؟
جواب: وہ نافرمان شمار نہیں ہو گی، لیکن ہم اس عورت کو صبر کرنے کی ہی نصیحت کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: «خيركم خيركم لأهله» [صحيح سنن الترمذي، رقم الحديث 3895]
”تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے حق میں تم میں سے اچھا ہے۔“
اور بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
«استو صوا بالنساء خيرا فإنهن خلقن من ضلع، وإن أعوج ما فى الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته لم يزل به عوجه» [صحيح البخاري، رقم الحديث 4890 صحيح مسلم، رقم الحديث 1468]
”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، بلاشبہ وہ پسلی سے پیداکی گئی ہیں اور پسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑ ھا حصہ اوپر والا حصہ ہے، اگر تم اس کو سیدھا کرو گے تو اس کو توڑ دو گے اور اگر تم اس کو چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی نہیں رہے گی۔“
اللہ عزوجل اپنی کتاب کریم میں ارشاد فرماتے ہیں:
«وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ» [4-النساء: 19]
”ان کے ساتھ اچھے طریقے سے رہو۔“
نیز فرماتے ہیں:۔
«فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَيْهِنَّ سَبِيلًا» [4-النساء: 34]
”پھر اگر وہ تمہاری فرماں برداری کریں تو ان پر (زیادتی کا) کوئی راستہ تلاش نہ کرو۔“
لہٰذا خاوند پر واجب ہے کہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ڈرے اور اپنی بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے، جیسا کہ وہ خود اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ اور ہم اس عورت کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ صبر کا مظاہرہ کرے کیونکہ صبر کرنا ہی بہتر ہے، اور اپنے خاوند کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے۔ واللہ المستعان
[مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله]
——————

لڑکے کا لڑکی کو منگنی کا تحفہ دیتے ہوئے اس کو زیورات پہنانے کے لیے محفل منعقد کرنے کا حکم
سوال: کیا حکم ہے اس مجلس کا جس کو بعض لوگ ”منگنی کا تحفہ دینے کی محفل“ کا نام دے کر منعقد کرتے ہیں جس میں خاطب (منگنی کرنے والے لڑکے) اور مخطوبہ (جس لڑکی سے منگنی کی جا رہی ہے) کی ملاقات ہوتی ہے اور پیغام نکاح دینے والا لڑکا لڑکی کو منگنی کا ہار یا کنگن پہناتا ہے جو اس نے لڑکی کے لیے تیار کروا رکھا ہوتا ہے، اور یہ سب کچھ اس عقد سے پہلے ہوتا ہے جس عقد کے بعد ان کا آپس میں ملنا جائز ہو جاتا ہے؟
جواب: یہ بات تو معلوم و مشہور ہے کہ مخطوبہ عقد نکاح مکمل ہونے سے پہلے اجنبی عورت ہی ہوتی ہے اور اس کے لیے خاطب کے ساتھ میل ملاقات رکھنا جائز نہیں ہے۔ سائل نے جس محفل منگنی کا ذکر کیا ہے سو وہ محفل حرام ہے اس کا منعقد کرنا جائز نہیں ہے۔ بلکہ اس سے گریز کرتے ہوئے بچنا چاہیے۔ لیکن جب مرد اور عورت کے درمیان عقد نکاح مکمل ہو جائے تو اب ہر لحاظ سے وہ اس کی بیوی ہے، اب وہ تمام کام کر سکتا ہے جس کاسائل نے ذکر کیا ہے، یعنی اس کے پاس جا سکتا ہے اس کو زیور ات وغیرہ پہنانا چاہے پہنا سکتا ہے، اور اس سے خلوت و تنہائی بھی اختیار کر سکتا ہے۔
[فتاوي علماء البلد الحرام ص: 631]
——————

شب زفاف (سہاگ رات) کے ضابطے
سوال: خوشی کی رات (شب زفاف) بیوی کے پاس جانے کا سنت طریقہ کیا ہے؟ کیونکہ بہت سے لوگوں پر یہ امر مشتبہ ہے، اور آج کل اکثر لوگوں میں یہ عادت بن چکی ہے کہ وہ اس موقع پر سورت بقرہ پڑھتے ہیں اور نماز ادا کرتے ہیں؟
جواب: جب آدمی اپنی بیوی کے پاس پہلی مرتبہ جائے تو وہ اس کی پیشانی پکڑ کر یہ دعا پڑھے:
«اللهم إني أسألك خيرها وخير ما جبلتها عليه وأعوذيك من شرها و شر ما جبلتها عليه» [حسن سنن أبى داود، رقم الحديث 2160]
اے اللہ ! میں تجھے اس (عورت) کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور جس طبیعت پر تو نے اس کو پیدا کیا ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں، اور تجھ سے پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے اور جس طبیعت پر تو نے اس کو پیداکیا ہے اس کے شر سے۔“
اور اگر اسے ڈر ہو کہ جب وہ اس کی پیشانی پکڑ کر یہ دعا پڑھے گا تو وہ پریشان ہو جائے گی تو اگر مکن ہو تو وہ اس انداز میں اس کی پیشانی کو پکڑ لے گویا کہ یہ اس کو بوسہ دینے لگا ہے اور اس کو ستائے بغیر دل میں یہ دعا پڑھ لے، پس وہ اپنی زبان سے تو اس دعا کو پڑھے لیکن اس طرح کہ اس کی بیوی کو سنائی نہ دے تاکہ کہیں وہ پریشان نہ ہو جائے۔ اور اگر اس کی بیوی طالبہ ہو تو واضح طور پر اس کی پیشانی پکڑ کر اس کو یہ دعا سنا کر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ رہا دلہن کے حجرہ عروسی میں داخل ہونے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرنا تو بعض سلف سے یہ مروی ہے کہ وہ ایسے کیا کرتے تھے، لہٰذا کوئی شخص نماز پڑھ لے تو اچھا ہے اگر نہ پڑھے تو کوئی حرج نہیں ہے (کیونکہ یہ کوئی مسنون عمل نہیں ہے۔ مترجم) جہاں تک سورۃ بقرہ اور دیگر سورتوں کی تلاوت کا تعلق ہے تو مجھے اس کی کوئی دلیل معلوم نہیں ہے۔

[محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ]
——————

غیر شرعی شادیوں میں شرکت کرنے کا حکم
سوال: غیر شرعی محفلوں اور شادیوں میں دعوت الی اللہ کی نیت سے شرکت کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب: اگر تو ان محفلوں میں شرکت کرنے والا منکرات کو روکنے کی طاقت رکھتا ہے تو اس کی شرکت ایک مستحسن عمل ہے۔ بخاری و مسلم میں عبداللہ بن عمرو بن رضی اللہ عنہا کی روایت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معنی میں موجود ہے:
«و من لم يجب فقد عصى الله و رسوله» [صحيح مسلم، رقم الحديث 1432]
”جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔“
لہٰذا ولیمے یا عقیقہ وغیرہ کی دعوت کو قبول کرنا واجب ہے، لیکن اگر بندہ مؤمن کو یہ ڈر ہو کہ اس محفل میں منکرات ہوں گی اور وہ ان کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس مجلس سے دور رہے۔ لیکن اگر وہ وعظ و نصیحت کے ذریعہ منکرات کو روک سکتا ہو تو اس کا شرکت کرنا ایک اچھا عمل ہوگا۔ واللہ المستعان
[مقبل بن هادي الوادعي رحمه الله]
——————

بیوی سے لطف اندوز ہونے کی حدود
سوال: خاوند کے اپنی بیوی کے تمام بدن سے لطف اندوز ہونے کی حدود میں کیا ضابطہ ہے؟
جواب: اس میں ضابطہ یہ ہے کہ وہ عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع نہیں کرے اور نہ ہی حالت حیض و نفاس اور جماع سے تکلیف محسوس کرنے کی حالت میں اس کی قبل (اگلی شرمگاہ) میں جماع کرے، بس یہی ضابطہ ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ ‎ ﴿٦﴾ ‏ فَمَنِ ابْتَغَىٰ وَرَاءَ ذَٰلِكَ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْعَادُونَ» [23-المؤمنون: 5]
اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔ پھر جو اس کے سوا تلاش کرے تو وہی لوگ حد سے بڑھنے والے ہیں۔“
[محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ]
——————

میاں بیوی کی آپس میں دل لگی کر نے کی حدود
سوال: آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان دل لگی و لطف اندوزی کرنے کی کیا حدود ہیں؟
جواب اللہ عز وجل فرماتے ہیں:
«وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ ‎ ﴿٥﴾ ‏ إِلَّا عَلَىٰ أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ» [23-المؤمنون: 5]
”اور وہی جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، مگر اپنی بیویوں، یا ان (عورتوں) پر جن کے مالک ان کے دائیں ہاتھ بنے ہیں تو بلاشبہ وہ ملامت کیے ہوئے نہیں ہیں۔“
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کر دیا کہ مرد کو اپنی بیوی پر شرمگاہ کی عدم حفاظت پر ملامت نہیں کی جائے گی۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حالت حیض میں مرد کے اپنی بیوی سے لطف اندوز ہونے کو کچھ یوں بیان کیا ہے:
«اصنعوا كل شيء إلا النكا ح» [صحيح مسلم، رقم الحديث 302]
تم (لطف اندوز ہونے کے لیے اپنی بیویوں سے حالت حیض میں) جماع کے علاوہ سب کچھ کر لو۔“
لہذا میاں بیوی میں سے ہر ایک کے لیے دوسرے سے من مانے طریقے کے مطابق لطف اندوز ہونے کی ا جازت ہے، ماسوائے حالت حیض کے۔
چنانچہ مرد کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی سے اس وقت مجامعت کرے جب وہ حالت حیض میں ہو، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى فَاعْتَزِلُوا النِّسَاءَ فِي الْمَحِيضِ وَلَا تَقْرَبُوهُنَّ حَتَّىٰ يَطْهُرْنَ فَإِذَا تَطَهَّرْنَ فَأْتُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ أَمَرَكُمُ اللَّهُ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ» [2-البقرة: 222]
”اور تجھ سے حیض سے متعلق پوچھتے ہیں، کہہ دے وہ ایک طرح کی گندگی ہے، سو حیض میں عورتوں سے علیحدہ رہو اور ان کے قریب نہ جاو، یہاں تک کہ وہ پاک ہو جائیں، پھر جب وہ غسل کر لیں تو ان کے پاس آؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیا ہے، بے شک اللہ ان سے محبت کرتا ہے جو بہت تو بہ کرنے والے ہیں اور ان سے محبت کرتا ہے جو بہت پاک رہنے والے ہیں۔“
مگر اس کے با وجود حالت حیض میں شرمگاہ میں مجامعت کرنے کے علاوہ اپنی بیوی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے، جیسا کہ گزشتہ حدیث میں بیان ہوا ہے۔ نیز مرد کے لیے نفاس کی حالت میں بھی بیوی سے مجامعت کرنا حلال نہیں ہے، اور نہ ہی اس کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا جائز ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
«نِسَاؤُكُمْ حَرْثٌ لَكُمْ فَأْتُوا حَرْثَكُمْ أَنَّىٰ شِئْتُمْ» [2-البقرة: 223]
تمھاری عورتیں تمہارے لیے کھیتی ہیں، سو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو آو۔“
اور کھیتی کی جگہ صرف اور صرف فرج یعنی عورت کی اگلی شر مگاہ ہے۔
[محمد بن صالح العثيمين رحمه الله]
——————

جماع کے آداب
سوال: میان بیوی کے درمیان جماع کے کیا آداب اور حدود ہیں، اور کیا مکر وہ اور کیا حرام ہے اور کیا افضل اور کس میں اختلاف ہے؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لو أن أحدكم إذا أتى أهله قال: بسم الله، اللهم جنبنا الشيطان وجنب الشيطان ما رزقتنا فإن قدر بينهما فى ذلك ولد لن يضر ذلك الولد الشيطان أبدا» [صحيح البخاري، رقم الحديث 141 صحيح مسلم، رقم الحديث 1434]
اگر بے شک تم میں سے کوئی جب اپنے اہل (بیوی) کے پاس (بغرض مجامعت) آئے اور پڑھے: اے اللہ ! ہم کو شیطان سے محفوظ فرما اور (اس جماع کے نتیجے میں) جو (اولاد کا) رزق تو ہمیں عطا کرے اس کو بھی شیطان سے محفوظ فرما، اگر ان کے اس جماع کے نتیجے میں بچہ ان کے مقدر میں کیا گیا تو اس بچے کو شیطان کبھی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔“ [بخاري: 45/441]
اور مرد پر حرام ہے کہ وہ حالت حیض و نفاس میں اپنی بیوی سے مجامعت کرے، نیز اس پر دبر (پچھلی شر مگاہ) میں بھی مجامعت کرنا حرام ہے۔ اور ہم میں وصیت کرتے ہیں کہ علامہ ابن القیم نے اپنی کتاب ”زاد المعاد“ میں اس موضوع پر جو بیان کیا ہے اس کو پڑھو، ان شاء اللہ تم اس مسئلہ کی مکمل تفصیل اس میں پالو گے۔ [سعودي فتویي کميٹی]
——————

دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنا
سوال: دبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع کرنے کاکیا حکم ہے؟ کیا ایسا کرنے والے پر کوئی کفارہ لازم ہو گا؟
جواب: عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے اور بدترین نافرمانیوں میں سے ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ملعون من أتي امرأته فى دبرها» [حسن سسنن أبى داود، رقم الحديشه 2162]
”جس شخص نے اپنی بیوی کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں وطی کی اس پر لعنت کی گئی ہے۔“
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لا ينظر الله إلى رجل أتى رجلا أو امرأة فى دبرها»
[صحيح۔ صحيح الترغيب والترهيب 3122]
”جس شخص نے کسی مرد یا عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں وطی کی اللہ تعالیٰ اس کی طرف (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔“
اور جس شخص نے یہ کام کیا اس پر واجب ہے کہ وہ جلدی سے سچی توبہ کرے، یعنی اس گناہ سے رک جائے اور اللہ کی تعظیم کرتے ہوئے اور اس کی سزا سے ڈرتے ہوئے اس گناہ کو ترک کر دے۔ اس سے جو یہ گناہ سرزد ہوا ہے اس پر نادم رہے اور عزم بالجزم کرے کہ وہ آئندہ کبھی بھی اس گناہ کی طرف نہیں پلٹے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اعمال صالحہ بجا لانے میں کوشش کرے۔ جو شخص سچی توبہ کر لیتا ہے اللہ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور اس کے گناہ کو معاف کر دیتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
«وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَىٰ» [20-طه: 82]
”اور بے شک میں یقیناً اس کو بہت بخشنے والا ہوں جو تو بہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل کرے، پھر سیدھے راستے پر چلے۔“
نیز اللہ عزوجل نے فرمایا:
«وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَٰهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَٰلِكَ يَلْقَ أَثَامًا» [25-الفرقان: 68]
”اور جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور نہ اس جان کو قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے حرام کیا ہے مگر حق کے ساتھ اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو یہ کرے گا وہ سخت گناہ کو ملے گا۔“
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«الإسلام يهدم ما كان قبله، و الهجرة تهدم ما كان قبلها»
[و صحيح مسلم، رقم الحديث: 121]
”اسلام ماقبل کے گناہ مٹا دیتا ہے اور ہجرت بھی ما قبل سے گناہ مٹا دیتی ہے“۔
اس موضوع پر کافی زیادہ آیات و احادیث موجود ہیں۔ نیز علماء کے دو قولوں میں سے صحیح قول کے مطابق دبر (پچھلی شرمگاہ) میں وطی کرنے والے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے اس کی بیوی اس پر حرام ہو جاتی ہے بلکہ وہ ان کے نکاح میں رہتی ہے۔
اور عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس کبیرہ گناہ کے ارتکا ب میں اپنے خاوند کی اطاعت کرے، بلکہ اس کے لیے اس سے باز رہنا واجب ہے اور وہ اس سے مطالبہ کرے کہ اگر وہ اس گناہ سے تو بہ کر کے باز نہیں آئے گا تو وہ اس سے اپنا نکاح فسخ کروا لے گی، ہم اللہ تعالیٰ سے اس عمل بد سے عافیت کاسوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اس سے محفوظ فرمائے۔ (عبد العزیز بن عبداللہ بن باز رحمہ اللہ)
——————

سوال: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس شخص کے حکم میں کئی روایات پیش کی ہیں جو اپنی بیوی سے غیر مألوف راستے (پچھلی شرمگاہ)میں مجامعت کرتا ہے، ان روایات کی تمام سندیں اور ان پر ائمہ کا کلام بھی پیش کیا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ان تمام سندوں پر ائمہ نے کلام کیا ہے، امام بخاری و نسائی وغیرہ نے کہا ہے اس موضوع پر کوئی صحیح روایت ثابت نہیں ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ابن عمر، نافع اور مالک رضی اللہ عنہم وغیرہ سے وطی دبر کی اباحت کو بھی نقل کیا ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا میلان اسی طرف ہے کہ ان تمام طرق کی وجہ سے بھی دبر کی ممانعت کو ہی تقویت حاصل ہے، پس ان ائمہ کو اس مسئلہ میں کسی بھی ثبوت کے نہ ہونے کا قول تسلیم کیوں نہیں ہے؟
جواب: ان ائمہ کے نزدیک یہ قول قابل قبول نہیں ہے اس لیے کہ یہ ائمہ اس مسئلہ پر وارد الگ الگ روایات پر کلام کرتے ہیں، رہے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، پس ان کے امیر المؤمنین فی الحدیث ہونے کے اعتبار سے ہمیں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، سو وہ اس مسئلہ پر تمام احادیث اور ان کی سندوں کو جمع کرتے ہیں اور ان پر تحقیق کرتے ہوئے ان پر علم حدیث کے قواعد کا انطباق کرتے ہیں، پس ایسا کرنے کے بعد ان کے سامنے یہ بات واضح ہوئی کہ ان احادیث کے ہوتے ہوئے یہ کہنا کہ اس مسئلہ پر کوئی حدیث ثابت نہیں ہے، بہت بڑی غلطی ہے۔ ہاں یہ کہا جا سکتا ہے
کہ یہ احادیث فردا فردا ثابت نہیں ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ احادیث اس آیت «نساؤكم حرث لكم فأتوا حرثكم أنى شئتم» میں عورت سے غیر معروف راستے (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنے کی مذکور حر مت کو تقویت دیتی ہیں، ایسے ہی یہ احادیث اس آیت کی تفسیر کرتی ہیں۔
اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کیا مرد کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنی بیوی سے جیسے چاہے مجامعت کرے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«نعم، ولكن فى صمام واحد»
[صحيح مسلم، رقم الحديث 1435]
”ہاں (جائز ہے، لیکن مجامعت) ایک ہی سور اخ (یعنی عورت کی اگلی ش مگاہ) میں کرے۔“ [محمد ناصر الدين الالباني رحمه الله]
——————

سوال: کیا حائضہ عورت سے مجامعت کرنے اور عورت کے غیر معروف راستے (بچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنے کا حکم برابر ہے۔ اس اعتبار سے کہ دونوں کبیرہ گناہ ہیں؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ عورت کے غیر معروف راستے میں مجامعت کرنا اختلافی مسئلہ ہے اور ہے بھی کبیرہ گناہوں میں سے، جبکہ اس کی حر مت کے دلائل بھی کمزور ہیں؟
جواب: میں تو اس میں کوئی شک نہیں کرتاکہ بلاشبہ عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
رہا اس کے دلائل کا کمزور ہوناب سو وہ ان کی سندوں کے بعض مفردات کے اعتبار سے ہے، و گرنہ تو نبی علیہ السلام سے عورت کی دبر (پچھلی شرمگاہ) میں مجامعت کرنے کی ممانعت ثابت ہے۔ نیز اس مسئلہ پر وارد کئی حدیثوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا کرنے والے پر لعنت کرنا بھی ثابت ہے، میں نے ان میں سے کچھ احادیث اپنی کتاب ”آداب الزفاف فی السنۃ المطہرۃ“ میں بیان کی ہیں۔
[محمد ناصر الدين الالباني رحمه الله]
——————

اس تحریر کو اب تک 51 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply