سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے ضروری ہیں

تحریر : ابو ضیاد محمود احمد غضنفر حفظ اللہ

«وعن أبى هريرة أن النبى صلى الله عليه وسلم قال: ((إذا استيقظ أحدكم من نومه فليفرغ على يده ثلاث مرات قبل أن يدخل يده فى إنائه فإنه لا يدري فيما باتت يده ))» ¤
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب کوئی تم میں سے اپنی نیند سے بیدار ہو تو وہ اپنے ہاتھ پر تین مرتبہ پانی ڈالے پہلے اس سے کہ وہ اپنے ہاتھ کو برتن میں داخل کرئے وہ نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گذاری ۔“ ¤
تحقیق و تخریج : بخاری: 162 مسلم: 278 ¤
فوائد: ¤
➊ سو کر اٹھنے کے بعد ہاتھ دھونے ضروری ہیں ۔ کیونکہ رات سوئے ہوئے اس کے ہاتھ جسم کے ہر حصے پر لگ سکتے ہیں ۔ تین دفعہ دھونے کے بعد کسی برتن میں ہاتھ ڈال سکتا ہے ۔ ¤
«وعنه من رواية همام بن منبة فقال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ((إذا توضأ أحدكم فليستنشق بمنخريه من الماء ثم لينتشر ))» [أخرجهما مسلم] ¤
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہمام بن منبہ کی روایت کے حوالے سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو وہ اپنے ناک کے نتھنوں میں پانی چڑھائے پھر چھڑک دے ۔ [ مسلم] ¤
تحقيق و تخریج : مسلم: 237 ۔ ¤
«وعن عاصم بن لقيط بن صبرة عن أبيه قال: قلت يا رسول الله أخبرني عن الوضوء؟ قال: ((أسبع الوضوء وبالغ فى الإستنشاق إلا أن تكون صائما ))» [ أخرجهما النسائي، والترمذي وصححهما ابن خزيمة فى صحيحه] ¤
عاصم بن لقط بن صبرہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔ اس نے کہا: میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! قیامت کے دن وضو کی وجہ سے جو روشنی ہوگی اس کے بارے میں مجھے بتائیے؟ آپ نے فرمایا: ”وضو مکمل کیا کرو ناک میں خوب اچھی طرح پانی چڑھایا کر والا یہ کہ تم روزے دار ہو ۔“ ¤ نسائی ، ترمذی اور صحیح ابن خزیمہ میں یہ روایت منقول ہے ۔ ترمذی نے اسے صحیح قرار دیا ہے ۔ ¤
تحقیق و تخریج : یہ حدیث صحیح ہے ¤ مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 33/4، 211 ابو داود: 142 ترمذی: 788 ترمذی نے کہا: یہ حدیث حسن صحیح ہے نسائی: 1/ 66 ابن ماجه: 407 ، صحیح ابن خزيمه: 150 مستدرك حاكم: 1/ 148٬147 ، علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ۔ ¤
«ورواه أبو داود مطولا وفيه: ((أسبع الوضوء وخلل بين الأصابع ))»
ابو داؤد نے طویل حدیث روایت کی اور اس میں یہ الفاظ ہیں: ”وضو مکمل کرو اور اپنی انگلیوں کے درمیان خلال کرو ۔“ ¤
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ تفصیل پہلے گزر چکی ہے ۔ ¤
«وعن ابن عباس : ((أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم توضامرة مرة ))» [أخرجه البخاري] ¤
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک مرتبہ وضو کیا ۔“ بخاری ۔ ¤
تحقیق و تخریج : بخاری : 157 ۔¤
«وعن عثمان ((أن النبى صلی اللہ علیہ وسلم كان يخلل لحيته))» [أخرجه الترمذي وصححه وغيره يخالفه فى التصحيح] ¤
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی نہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی میں خلال کیا کرتے تھے ۔ ترمذی نے نقل کیا اور اسے صحیح قرار دیا اس کے علاوہ اس کے صحیح ہونے میں اختلاف کیا ہے ۔ ¤
تحقيق وتخريج: یہ حدیث حسن ہے ترمذی: 31 اور اس نے کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے ابن ماجه: 430 ابن خزیمه: 152 151 ابن حبان: 153 الدارقطني: 1/ 91 مستدرك حاكم: 1/ 149،148 ، حاکم نے اسے صحیح قرار دیا اور علامہ ذہبی نے موافقت کی ۔ ¤
«وعن سنان بن ربيعة عن شهر بن حوشب، عن أبى أمامة أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم قال: الاذنان من الرأس، وكان يمسح رأسه مرة ويمسح المأقين ))» [ أخرجه ابن ماجة وسنان بن ربيعة أخرج له البخاري وشهر بن حوشب وثقه أحمد ويحيى وتكلم فيه غيرهما ] ¤
سنان بن ربیعہ شہر بن حوشب سے روایت کرتے ہیں ، انہوں نے ابو امامہ سے روایت کیا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دونوں کان سر کا حصہ ہیں ، آپ اپنے سر کا مسح ایک مرتبہ کرتے اور آپ دونوں موزوں پر مسح کیا کرتے تھے ۔ ¤
ابن ماجه سنان بن ربیعہ امام احمد یحیی نے اس شہر بن حوشب کی توثیق کی اس کے بارے ان دونوں کے علاوہ دوسروں نے کلام کی ہے ۔ ¤
تحقیق و تخریج : حدیث صحیح ہے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ 258/5 ابوداؤد: 134 ابن ماجه 444 البیهقی: 1/ 22 ترمذی: 37 ترندی نے کہا: یہ حدیث حسن ہے الدارقطنی: 1/ 103 ۔ ¤
«وروى حبيب بن زيد عن عباد بن تميم، عن عمه قال: ((رأيت النبى الله صلی اللہ علیہ وسلم توضا فجعل يدلك ذراعيه)))» [أخرجه أبو حاتم بن حبان فى صحيحه وذكر حبيبا فى كتاب الثقات وقال أبو حاتم الرازي: هو صالح] ¤
حبیب بن زید عباد بن تمیم سے اور وہ اپنے چچا سے روایت کرتے ہیں ، اس نے کہا: ”میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ نے وضو کیا آپ نے اپنے بازوؤں کو ملنا شروع کیا ۔ اور حبیب کو کتاب الثقات میں ذکر کیا ہے اور ابو حاتم رازی نے کہا کہ وہ اچھا انسان ہے ۔ ¤ ابو حاتم بن حبان نے اسے اپنی صحیح میں بیان کیا ۔ ¤
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ ¤ مسند امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 39/4 ابن خزیمه: 118 ابن حبان: 155 152 مستدرك حاکم: 1/ 161 حاکم نے مسلم کی شرط پر اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی ہے ۔ ¤
«وروى مسلم من حديث نعيم بن عبد الله المجمر قال: رأيت أبا هريرة يتوضأ: فغسل وجهه فأسبغ الوضوء ثم غسل يده اليمنى حتى أشرع فى العضد ثم (غسل يده اليسرى حتى أشرع فى العضدتم مسح رأسه ثم غسل رحله اليمنى حتى أشرع فى الساق ثم غسل رحله اليسرى حتى أشرع فى الساق ثم قال: (هكذا) رأيت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم يتوضأ للصلاة وقال: قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم : ((أنتم الغر المحجلون يوم القيامة من إسباغ الوضوع فمن استطاع منكم فليطل غرته وتحجيله ))» ¤
مسلم نے نعیم بن عبد اللہ محمر کی حدیث سے روایت کیا کہا کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو وضو کرتے دیکھا آپ نے اپنا چہرہ دھویا مکمل وضو کیا پھر اپنا دایاں ہاتھ دھویا یہاں تک کہ وہ ہاتھ کو بازو تک بلند لے گئے پھر بایاں ہاتھ دھویا یہاں تک کہ وہ بازو تک بلند لے گئے پھر اپنے سر کا مسح کیا پھر دایاں پاؤں دھویا یہاں تک کہ وہ پنڈلی تک بلند لے گئے پھر بایاں پاؤں دھویا یہاں تک کہ وہ پنڈلی تک بلند لے گئے پھر کہا: اس طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لیے وضو کرتے دیکھا ہے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن وضو کی تکمیل کی وجہ سے تمہارے پانچوں اعضاء چمکتے ہوں گئے جو تم میں سے طاقت رکھتا ہے وہ اپنی چمک کو لمبا کرے ۔ ¤
تحقیق و تخریج : بخاری: 136 مسلم: 246۔ ¤
«وفي رواية : ((فغسل وجهه ويديه حتى كاد يبلغ المنكبين، ثم غسل رجليه حتى رفع إلى الساقين ))» ¤
ایک روایت میں ہے: ”آپ نے اپنا چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے یہاں تک کہ قریب تھا کہ دونوں کندھوں تک پہنچ جاتے ، پھر اپنے پاؤں دھوئے یہاں تک کہ آپ اپنے ہاتھ بلند لے گئے پنڈلیوں تک ۔“ ¤
تحقيق و تخریج: مسلم: 236۔ ¤
«و فى رواية أبى حازم، قال: كنت خلف أبى هريرة وهو يتوضأ للصلاة فكان يمديده حتى يبلغ إبطه » ¤
ابوحازم کی روایت میں ہے کہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے تھا اور وہ نماز کے لیے وضوء کر رہے تھے آپ اپنا ہاتھ لمبا کرتے تھے یہاں تک وہ بغل تک پہنچ جاتا ۔ [مسلم ۔] ¤
تحقيق و تخریج: مسلم: 250 ۔ ¤
«وعن عائشة قالت: ((إن كان رسول الله لا يحب التيمن فى ظهوره إذا تطهر، وفي ترجله إذا ترجل، وفي انتعاله إذا انتعل ))» [متفق عليه واللفظ للمحاري] ¤
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دائیں طرف کو پسند کرتے وضو کرنے مِیں جب آپ وضو کرتے کنگھی کرنے میں جب آپ کنگھی کرتے اور جوتا پہننے میں جب آپ جوتا پہنتے ۔ [متفق عليه ۔] ¤
تحقیق و تخریج : بخاری: 5380٬426٬168 5936٬5854 ، مسلم: 268 ۔ ¤
«وعن المغيرة بن شعبة أن النبى صلى الله عليه وسلم :(( توضة فمسح بناصيته وعلى العمامة، وعلى الخفين )) » [رواه مسلم من جهة ابن المغيرة عن دو باد أبيه] ¤
مغیرہ بن شعبہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی پیشانی کا مسح کیا اور اپنی پگڑی پر اور موزوں پر ۔ مسلم نے روایت کیا مغیرہ بن شعبہ اور ان کے باپ کے حوالے سے ۔ ¤
تحقيق و تخریج: مسلم: 272 ۔ ¤
«وعند الطحاوي من حديث شهر بن حوشب، عن أبى أمامة : ((أن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم توضأ فمسح أذنيه مع الرأس، وقال: ((الأذنان من الرأس ))» ¤ طحاوی کے نزدیک شہر بن حوشب کی حدیث سے ابو امامہ سے روایت ہے: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا سر کے ساتھ اپنے کانوں کا بھی مسح کیا اور فرمایا کہ دونوں کان سر کا حصہ ہیں ۔“ اور شہر کا تذکرہ گزر چکا ہے ۔ ¤
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ طحاوی نے اسے معانی الاثار میں جلد صفحہ 33 پر نقل کیا ہے ۔ ¤
«وروى البيهقي من حديث عبد الله بن زيد أنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم يتوضأ : ((فأخذ لصماخيه ماء خلاف الماء الذى أخذ لرأسه ))» [وقال بعد إخراجه: وهذا إسناد صحيح وهو على شرط مسلم] ¤
بیہقی نے عبد اللہ بن زید سے روایت کیا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ وضو کرتے ہیں آپ نے اپنے کانوں کے سوراخوں کے لیے پانی اس کے علاوہ لیا جو آپ نے اپنے سر کے لیے لیا تھا ۔ اور اس کو روایت کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ سند صحیح ہے اور مسلم کی شرط پر ہے ۔ ¤
تحقیق و تخریج: یہ حدیث شاذ ہے ۔ ¤ بیہقی: 65/1 بیہقی نے کہا کہ اس کی سند صحیح ہے مستدرک حاکم: 15/1 اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح قرار دیا علامہ ذہبی نے اس کی موافقت کی اس کی سند میں حبان بن واسع ہے بخاری نے اس سے روایت نہیں لی تقریب میں اس کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ یہ راوی سچا ہے ۔ ¤
«وفي حديث عمرو بن عبسة الطويل عند الدارقطني : ((ما (من) منكم أحد يقرب وضوء ه فيمضمض، ويستنشق فينتشر إلا خرجت خطايا وجهه، وفيه، وخياشيمه))»¤
عمرو بن عبسہ سے طویل حدیث مروی ہے دارقطنی کے نزدیک یہ ہے: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرتا ہے کلی کرتا ہے ناک میں پانی چڑھاتا ہے پھر اسے جھاڑتا ہے تو اس کے چہرے سے خطائیں نکل جاتی ہیں ۔“ ¤
«وفي الحديث : ((ثم يغسل قدميه إلى الكعبين كما أمره الله)) وهذه اللفظة أخرجها ابن خزيمة فى ((صحيحه)) (أيضا) أعني قوله : (( كما أمره الله))، وأصل الحديث عند مسلم» ¤
حدیث میں ہے پھر آپ نے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے جیسے کہ آپ کواللہ نے حکم دیا « كما امره الله » کے الفاظ ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں نقل کئے ۔اصل حدیث مسلم کے ہاں ہے ۔ ¤
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ: 4/ 112 صحیح ابن خزیمه 125 ۔ ¤
«وفي حديث جابر بن عبد الله فى صفة حجة النبى صلى الله عليه وسلم من رواية النسائي : ((ابداوا بما بدأ الله به)) والحديث فى الصحيح، ولكن بصيغة الخبر: ((نبدأ أو أبدا)) لا بصيغة الأمر، والأكثر فى الرواية هذا، والمخرج للحديث واحد» ¤
جابر بن عبد اللہ کی حدیث میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے ضمن میں نسائی کی روایت کے حوالے سے منقول ہے: ”شروع کرو جہاں سے اللہ نے شروع کیا ۔“ یہ حدیث صیغہ خبر کے ساتھ ہے یعنی «نبدا» ہم شروع کرتے ہیں «ابدا » میں شروع کرتا ہوں صیغہ امر کے ساتھ نہیں روایت میں زیادہ تر اسی طرح ہے اور جبکہ حدیث کا مفہوم ایک ہے ۔ ¤
تحقیق و تخریج: یہ حدیث صحیح ہے ۔ نسائی: 5/ 236 ، نسائی: 5/ 239 ۔ ¤
فوائد: ¤
➊ ہر حال میں مکمل وضو ضروری ہے ۔ روزے کی حالت میں ناک میں پانی چڑھانا منع ہے ۔ روزہ ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ انگلیوں اور داڑھی کا خلال بھی وضوء میں شامل ہے ۔ ¤
➋ ایک ایک مرتبہ تمام اعضائے وضو دھونے بھی درست ہیں ۔ کان پیشانی سر میں داخل ہیں موزوں کا مسح بھی جائز ہے ۔ ¤
➌ روز قیامت اعضائے مغسولہ چمکیں گے ۔ ¤
➍ ہر کام میں دائیں طرف کو استعمال کرنا سنت ہے ۔ وضو پاک صاف پانی سے کرنا چاہیے ۔ ¤

اس تحریر کو اب تک 1 بار پڑھا جا چکا ہے۔