تارک نماز کا حکم

فتویٰ : سابق مفتی اعظم سعودی عرب شیخ ابن باز رحمہ اللہ

سوال : اس شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو بے نماز مرا حالانکہ اسے معلوم تھا کہ اس کے آباؤ اجداد مسلمان تھے ؟ اس کے غسل، کفن دفن، نماز جنازہ اور اس کے لئے دعا کرنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟
جواب : شرعاً مکلف اور شری احکام سے آگاہ ہونے کے باوجود ایک شخص تارک نماز ہو کر مرا ہو تو ایسا شخص کافر ہے۔ اسے غسل دیا جائے نہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور نہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے۔ اس کے مسلمان عزیز و اقارب اس کے وارث نہیں بن سکتے، بلکہ علماء کے ایک صحیح قول کی رو سے اس کا مال مسلمانوں کا مال نہیں۔ اس کی دلیل صحیح مسلم میں موجود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشار ہے :
بين الرجل وبين الكفر والشرك ترك الصلاة [صحيح مسلم]
”ایک مسلمان اور کفر و شرک کے درمیان ترک صلوٰۃ حد فاصل ہے۔ “
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک اور فرمان جو سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں جسے امام احمد رحمہ اللہ اور اہل السنن رحمها اللہ نے صحیح سند کے ساتھ بیان کیا ہے وہ یوں ہے :
العهد الذى بيننا وبينهم الصلاة، فمن تركها فقد كفر [سنن ترمذي رقم 2623، سنن انساني، سنن ابن ماجة رقم 1079، مسند احمد 346/5، مستدرك الحاكم 7/1، سنن دارمي، السنن الكبري للبيهقي 366/3، مصنف ابن أبى شيبة 34/11، و صحيح ابن حبان رقم 1454]
”ہمارے اور غیر مسلموں کے درمیان نماز کا ہی تو عہد ہے، جس نے نماز کو ترک کیا اس نے یقیناً کفر کیا۔ “
جلیل القدر تابعی عبد اللہ بن شقیق العقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
كان أصحاب النبى صلى الله عليه وسلم لا يرون شيئا تركه كفر إلاالصلاة
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز کے علاوہ کسی چیز کے چھوڑنے کو کفر نہیں سمجھے تھے۔ “
اس مفہوم کی احادیث و آثار بکثرت موجود ہیں۔
یہ حکم اس شخص کا ہے جو نماز کو سستی و کاہلی کی وجہ سے چھوڑتا ہو۔ جو شخص نماز کے وجوب کا منکر ہو تو تمام اہل علم کے نزدیک ایسا شخص کافر اور مرتد ہے۔ ہم اللہ رب العزت سے دعاگو ہیں کہ وہ تمام مسلمانوں کے احوال کی اصلاح فرمائے۔ انہیں صراط مستقیم پر گامزن فرمائے کہ وہ سننے والا اور قبول فرمانے والا ہے۔

اس تحریر کو اب تک 40 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply