نیل پالش کے ساتھ وضو

تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ

سوال : کیا ناخنوں پر نیل پالش موجود ہونے کی صورت میں وضو صحیح ہو گا یا نہیں؟
جواب : قرآن حکیم میں وضو کے متعلق ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ [5-المائدة:6]
”اے ایمان والو! جب تم اقامت صلٰوۃ کا ارادہ کرو تو اپنے چہروں اور ہاتھوں کو دھو لو۔“
اس آیت کریمہ میں چہرے اور ہاتھوں کو دھونے کا حکم ہے۔ وضو میں ان کا دھونا فرض ہے۔ جب ناخنوں پر نیل پالش لگی ہو تو ناخن دھوئے نہیں جا سکتے جس سے وضو نہیں ہوتا۔ وضو میں ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کا خلال اسی لیے ہے کہ پانی کی تری کا اثر ہر عضو پر اچھی طرح پہنچ جائے۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں ہم سے پیچھے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس حالت میں پایا کہ نماز کا وقت تھا اور ہم وضو کر رہے تھے، ہم اپنے پاؤں کو ہلکا سادھو رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے کہا:
ويل للاعقاب من النار [بخاري، كتاب العلم، باب من رفع صوته بالعلم :60 ]
”ایڑیوں کے لیے آگ کی ہلاکت ہے۔“
اسی طرح صحیح بخاری”کتاب الوضوء، باب غسل الأعقاب“ میں امام ابن سیرین تابعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ وہ جب وضو کرتے تو انگوٹھی والی جگہ کو دھوتے تھے۔ یہ صرف اسی لئے تھا کہ انگلیاں خشک نہ رہ جائیں۔ کیونکہ وضو میں جو اعضاء دھوئے جاتے ہیں ان کا خشک رہ جانا صحیح نہیں۔ نیل پالش لگنے سے ناخنوں پر تہ جم جاتی ہے اور ناخنوں تک پانی نہیں پہنچ پاتا۔ اس لیے ضروری ہے کہ وضو کے وقت پالش اتار دی جائے تاکہ اعضائے وضو کو اچھی طرح دھویا جا سکے۔ بصورت دیگر اگر نیل پالش لگی رہی تو وضو نہیں ہو گا۔

 

اس تحریر کو اب تک 17 بار پڑھا جا چکا ہے۔

Leave a Reply