قسطوں پر خرید و فروحت

مؤلف : ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمٰن اعظمی رحمہ اللہ

85- قسطوں پر سونا خریدنے کا حکم
اگر کسی آدمی نے یہ سونا، کرنسی اور سونے اور چاندی کے علاوہ کسی چیز کے بدلے خریدا تو اس میں کوئی حرج نہیں، مثال کے طور پر یہ کھجور یا گندم کی طرح کسی کھانے والی چیز کے بدلے خریدا جائے، یا گاڑیوں کے بدلے یا اس جیسی کسی چیز کے بدلے خریدا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، کیونکہ سونے چاندی اور معلومات (غلے) کے درمیان، اور سونے چاندی اور مصنوعات کے درمیان سود نہیں ہوتا، لیکن اگر اس نے سونا، سونے چاندی یا کرنسی کے بدلے قسطوں پر خریدا تو یہ حرام ہے کیونکہ سونے کے بدلے سونا بیچنے کی دو شرطیں ہیں:
(1) پہلی شرط: وزن میں برابری
(2) دوسری شرط: عقد کی مدت میں قبضہ
جب سونے کی بیع چاندی کے ساتھ یا کرنسی کے ساتھ کی جائے تو اس میں ایک ہی شرط ہے اور وہ ہے علاحدہ ہونے سے پہلے مدت عقد میں قبضہ دینا۔ اس کی دلیل یہ حدیث نبوی ہے:
”سونے کے بدلے سونا، ایک دوسرے کے مثل ایک دوسرے کے برابر اور نقد بہ نقد۔“ [صحيح مسلم 1587/81]
ایک حدیث میں اس طرح ہے:
”سونے کے بدلے سونا، چاندی کے بدلے چاندی گندم کے بدلے گندم، کھجور کے بدلے کھجور، جو کے بدلے جو، نمک کے بدلے نمک، ایک دوسرے کے مثل، ایک دوسرے کے برابر مگر جب یہ اصناف مختلف ہو جائیں تو جس طرح چاہو بیچو مگر نقد بہ نقد ہو۔“
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 16/235]

86- قسطوں پر گاڑیاں اور فرنیچر خریدنے کا حکم
فرنیچر اور گاڑیاں اگر بائع کے پاس ہو اور خریدار بعینہ انھیں خریدنے کا ارادہ رکھتا ہو تو ان آیات:
«وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا» [البقرة: 275]
’’حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا۔“
نیز فرمایا:
«يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ» [البقرة: 282]
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! جب آپس میں ایک مقرر مدت تک
قرض کا لین دین کرو تو اسے لکھ لو۔“
کے عموم میں داخل ہونے کی وجہ سے اس میں کوئی حرج نہیں۔
لیکن اگر وہ سامان کے طلبگار کے ساتھ بیع عینہ کا معاملہ کر لیتا ہے، پھر اسے خرید لاتا ہے اور اس کو فروخت کر دیتا ہے تو یہ جائز نہیں کیونکہ یہ سود خوری کے لیے حیلہ ہے، اس معاملے کا مطلب ہے کہ اس نے اس کو قیمت، سود اور سودی اضافے کے ساتھ قرض دی کیونکہ تاجر نے وہ چیز مثلا سو (100) میں خریدی اور اس کو ایک سو بیس (120) میں بیچ دی، اگر وہ بائع کے پاس ہوتی اور اس کی ملکیت میں ہوتی اور خریدار اسے خرید لیتا، وہ بعینہ اس چیز کا طلبگار نہیں تھا بلکہ وہ اسے بیچنا اور اس کی قیمت سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا، یہ مسئلہ تورق ہے جس میں علما کے درمیان اختلاف ہے، کچھ نے اس کی اجازت دی ہے اور کچھ نے اس سے منع کیا ہے، شیخ الاسلام ابن تیمیہ بھی منع کرنے والوں میں شامل ہیں، احتیاط اسی میں ہے کہ انسان یہ کام نہ کرے، خصوصاً جب تجارتی مقصد کے لیے ہو، کیونکہ انسان بھی نفع کماتا ہے تو کبھی نقصان اٹھاتا ہے اور یہ تو یقینی بات ہے کہ وہ مہلت کی خاطر قیمت زیادہ دے کر نقصان ہی اٹھاتا ہے۔
[ابن عثيمين: نورعلي الدرب: 18/243]

87- قسطوں پر حرام بیع کی ایک صورت
سوال: کوئی گاڑی شو روم پر آتی ہے، پھر شو روم کا مالک وہ گاڑی کsی شخص کو بیچ دیتا ہے، وہ شخض گاڑی تیسرے شخص کو قسطوں پر دے دیتا ہے، گاڑی کا مالک، جس نے اسے خریدا تھا، اسے بیچ دیتا ہے اور گاڑی پھر نئے سرے سے شو روم میں لوٹ آتی ہے، بلکہ کبھی گاڑی شو روم کے مالک کے پاس ایک سے زیادہ مرتبہ لوٹ آتی ہے، اس موضوع کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب: میری رائے یہ ہے کہ یہ معاملہ جائز نہیں کہ کوئی شخص تاجر کے پاس آئے اور کہے: میں آپ سے قسطوں پر گاڑی خریدنا چاہتا ہوں، پھر تاجر اس سے کہتا ہے کہ آپ شو روم میں چلے جائیں اور جو گاڑی چاہے پسند کر لیں، وہ تاجر کے پاس دوبارہ آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں گاڑی پسند کرتا ہوں، تاجر شو روم سے وہ گاڑی خریدتا ہے اور اس ضرورت مند کو بیچ دیتا ہے، یہ حرام ہے اور بلاشبہ حیلہ ہے، یہ تاجر اس کے بدلے کہ اس آدمی کو گاڑی کی نقد قیمت دیتا، وہ کہتا ہے گاڑی کی قیمت تیرے ذمے اتنی نقد ہے اور اتنی زیادہ ایک سال تک۔ اس بات کے درمیان اور یہ کہنے کے درمیان کوئی فرق نہیں کہ جا، جا کر میرے لیے گاڑی خرید، پھر وہ میں تجھے بیچ دوں گا۔
یہ بھی علم ہونا چاہیے کہ حیلہ سازی کے ذریعے سے معاملات میں صریح معاملات کی نسبت زیادہ گناہ ہے کیونکہ جو حرام کام میں حیلہ سازی کرتا ہے وہ ایسے ہے جیسے اس نے حرام کا ارتکا ب کیا ہے، یا اسلام کو دھوکا دے کر یہودیوں کی مشابہت اختیار کی ہے۔ فرمان نبوی ہے:
”جو کام یہودیوں نے کیا تم وہ کام نہ کرنا، کہ چھوٹے چھوٹے حیلوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ اشیا کو حلال کرنے لگو۔“ [ضعيف: غاية المرام، رقم الحديث 11]
مثال بالکل واضح ہے، اس آدمی کو شو روم سے گاڑی خریدنے کی ضرورت تھی جس کی قیمت 50 ہزار ریال تھی، یہ تاجر کے پاس گیا اور کہنے لگا: مجھے گاڑی کی ضرورت ہے جس کی قیمت 50 ہزار ریال ہے، مجھے قسطوں پر پچاس ہزار ریال دو، میں ہر مہینے دو ہزار اس کی قسط ادا کر دوں گا، وہ اس کو نقد پچاس ہزار ریال دے دیتا ہے، جس کی میعاد یہ ہے کہ ہر مہینے وہ دو ہزار ادا کرتا ہے، پھر یہ آدمی گاڑی خرید لیتا ہے اور چلا جاتا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ معاملہ حرام ہے کیونکہ یہ درہم کے بدلے درہم ہیں، جن میں اضافہ اور تاخیر ہے۔ اب اس صورت میں اور تاجر کے اس قول میں کیا فرق ہے کہ میں تیرے لیے گاڑی پچاس ہزار میں نقد خرید رہا ہوں پھر میں وہ گاڑی شو روم کو دے دیتا ہوں، پھر میں وہ گاڑی تمھیں ستر ہزار میں تین سال کے لیے قسطوں پر بیچ دیتا ہوں؟ !
ان دونوں باتوں میں معاملے کی صورت میں کیا فرق ہے؟ حقیقت میں کوئی فرق نہیں، خدا کے لیے ہمیں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کھلواڑ کرنے سے معاف رکھو۔ بالکل کوئی فرق نہیں بلکہ یہ زیادہ خبیث معاملہ ہے کیونکہ یہ سود کے لیے حیلہ ہے اور پہلی صورت صریح سود ہے، صریح سود کھانے والا محسوس کرتا ہے کہ وہ نافرمانی کا مرتکب ہو رہا ہے، وہ اللہ تعالیٰ سے شرمندہ بھی ہوتا ہے، اور توبہ کی کوشش بھی کرتا ہے اور یہ جو اللہ تعالیٰ کو دھوکا دیتا ہے، سمجھتا ہے کہ جو وہ کر رہا ہے وہ حلال ہے، تو وہ اللہ تعالیٰ سے شرمندہ نہیں ہوتا اور اپنے کام پر کار بند رہتا ہے۔ دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں، لہٰذا لوگوں کا بکثرت یہ کام کرنا تمھیں دھوکے میں نہ ڈال دے کیونکہ اکثر لوگوں کا کوئی کام کرنا حجت نہیں ہوتا، کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
«وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ فَيَقُولُ مَاذَا أَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِينَ» [القصص: 65]
”اور جس دن وہ انہیں آواز دے گا، پس کہے گا: تم نے رسولوں کو کیا جواب دیا؟“
نیز فرمایا:
«وَلَن يَنفَعَكُمُ الْيَوْمَ إِذ ظَّلَمْتُمْ أَنَّكُمْ فِي الْعَذَابِ مُشْتَرِكُونَ» [الزخرف: 39]
”اور آج یہ بات تمھیں ہگز نفع نہ دے گی، جبکہ تم نے ظلم کیا کہ بے شک تم (سب) عذاب میں شریک ہو۔“
یہ مسئلہ بالکل واضح ہے اور حرام ہے، اگر کسی نے اس کے حلال ہونے کا فتوی دیا ہے تو یہ غلط ہے، رانا آدمی بخوبی جانتا ہے کہ اس حیلے یا اس حیلے میں کونسا حیلہ زیادہ عظیم اور خطرنا ک ہے جو یہودیوں نے اس وقت اختیار کیا تھا
جب ان پر چربی حرام کی گئی تو انہوں نے اسے پہلے پگھلا لیا، پھر اسے بیچا اور اس کی قیمت کھائی، یہ حیلہ جس کا میں نے ذکر کیا ہے، یہودیوں کے حیلے سے زیادہ سخت ہے، کیونکہ یہودیوں نے چربی کھائی نہیں اور بیچی بھی نہیں بلکہ اسے پگھلایا پھر اسے بیچا اور پھر اس کی قیمت کھائی۔
بہر حال اس انداز میں بیع حرام ہے اور جائز نہیں، اگر انسان کو اونٹ کے پائے بھی کھانے پڑ جائیں پھر بھی یہ معاملہ نہ کرے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 18/205]

88- قسطوں پر حرام بیع کی ایک اور صورت
جب انسان کوئی چیز قسطوں پر ادھار خرید لے، پھر جس سے خرید لے اسے ہی نقد بیچ دے، اسے بیع عینہ کہا جاتا ہے جو جائز نہیں، لیکن اگر کسی دوسرے کو بیچ دے تو اس میں کوئی حرج نہیں، جیسے اس نے قسطوں پر گاڑی خریدی، پھر وہ گاڑی کسی دوسرے کو نقدی دی تاکہ شادی کرے، یا اپنے قرض ادا کر لے، یا گھر خرید لے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن گاڑی یا کوئی اور چیز قسطوں پر خرید کر اس شخص کو نقد بیچ دینا عینہ کہلاتا ہے کیونکہ زیادہ ادھار درہموں (پیسوں) کے بدلے کم نقد درہم حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
[ابن عثيمين: نور على الدرب: 13/19]

اس تحریر کو اب تک 4 بار پڑھا جا چکا ہے۔